کشمیر، ڈسکہ اور کراچی/محمد اسد شاہ

کراچی میں پہلی بار پیپلز پارٹی کا میئر منتخب ہوا- میری ذاتی رائے میں مرتضیٰ عبدالوھاب اور ان کے مقابلے میں شکست کھانے والے حافظ نعیم الرحمٰن، دونو عمدہ شخصیات ہیں- میئر کے لیے یہی دو امیدوار تھے اور دونو ہی زبردست صلاحیتوں کے مالک نفیس لوگ ہیں- میں سوچ رہا ہوں کہ اگر مجھے ان دونو میں سے کسی ایک کو ووٹ دینا اور دوسرے کو مسترد کرنا پڑتا، تو بہت مشکل ہوتی- ہمارے ہاں اچھائی اور برائی، کم برائی اور زیادہ برائی جیسے لطیفے ایجاد کر کے الیکشن جیتنے کی کوشش کی جاتی ہے- لیکن میئر کراچی کے حالیہ انتخاب میں مقابلہ دو اچھے افراد کے درمیان تھا- مرتضی کو ایک مضبوط عوامی جماعت کی سرپرستی حاصل تھی، جب کہ نعیم نے ایک نظریاتی اور منظم جماعت کے ساتھ وابستگی کے باوجود خود بہت محنت کی- جب دیکھا کہ ایم کیو ایم اپنے داخلی انتشار کا شکار ہے، اور مختلف بہانے بنا کر، دراصل اسی انتشار کو سمیٹنے کے لیے کراچی کے بلدیاتی انتخابات سے راہ فرار اختیار کر رہی ہے تو نعیم نے ایک زیرک سیاست دان کی طرح اس موقعے سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا- انھوں نے جماعت کی قیادت، نظریات یا دیگر روایتی نعروں سے مدد لینے کی بجائے براۂ راست اہل کراچی کو مخاطب کیا، ان کے مسائل پر بات کی، حل بتایا اور خود کو ایک متبادل کے طور پر پیش کیا- اہل کراچی نے بھی ان کی بات غور سے سنی، اور بھرپور جواب دیا- کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ نواز شریف، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، جمعیت علمائے پاکستان انس نورانی، عوامی نیشنل پارٹی اور تحریک انصاف کا موثر ووٹ بنک موجود ہے- یہ تو ان جماعتوں کی قیادت پر منحصر ہے کہ وہ اس ووٹ بنک کو پولنگ اسٹیشنز تک آنے پر کیسے تیار کریں- جب قیادت خود تساہل اور مصلحت کا شکار ہو تو ووٹر بھی انھی عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے- 2013 کے عام انتخابات سے قبل پورے ملک کی طرح کراچی بھی دہشت گردی، قتل و غارت اور مقامی جرائم پیشہ عناصر کے ہاتھوں زخمی تھا- تب میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنی انتخابی مہم میں بارہا یہ اعلان کیا کہ اگر ان کی جماعت کو وفاق میں حکومت ملی تو وہ سب سے پہلے کراچی میں امن اور روشنیاں بحال کریں گے- مقتدر حلقوں کی مخالفت کے باوجود 2013 کا عام الیکشن مسلم لیگ نواز جیت گئی اور میاں صاحب نے بھی ہزار مشکلات کے باوجود اپنا وعدہ پورا کر دکھایا- اہل کراچی کو کئی دہائیوں کے بعد سکھ کا سانس ملا، دہشت گردوں اور بھتہ مافیا کی کمر ٹوٹی، شہر میں زندگی بحال ہوئی، گلیوں اور بازاروں میں رونقیں لوٹ آئیں، تجارتی سرگرمیوں کا پھر سے آغاز ہوا، صنعت کا رکا ہوا پہیہ رواں ہوا اور کراچی ایک بار پھر روشنیوں کا شہر بن گیا- چاہیے تو یہ تھا کہ میاں صاحب اور ان کی جماعت اپنی اس محنت کو کیش کرواتے، کراچی میں مسلم لیگ نواز کو منظم کرتے، گلی کوچوں کے عوام تک لیگی قیادت کے رابطے ہوتے، چھتوں پر جہاں دوسری جماعتوں کے جھنڈے لہراتے ہیں، وہاں مسلم لیگ کا جھنڈا بھی لہرا رہا ہوتا- لیکن خود اپنی ہی محنت سے حاصل شدہ اس عظیم سیاسی موقع سے فائدہ اٹھانے میں لیگی قیادت نااہل ثابت ہوئی، یا کسی ان دیکھے دباؤ میں آ گئی- البتہ مقتدر حلقوں کی سرپرستی میں تحریک انصاف نے میدان خالی دیکھ کر فائدہ اٹھا لیا- کراچی یا اہل کراچی پر عمران اور تحریک انصاف کا کوئی احسان ہمارے سمیت کسی کو بھی معلوم نہیں- لیکن مقتدر قوتوں نے مسلم لیگ نواز کی پکائی کھیر کی ساری دیگ تحریکِ انصاف کی جھولی میں ڈال دی- ایسا ہی ہونا تھا- جب مسلم لیگ نواز خود میدان چھوڑ کر منظر سے غائب رہی، تو کسی کو تو قبضہ کرنا تھا- چناں چہ انھی قوتوں نے قبضہ کر لیا جنھیں 76 سالوں سے تمام معاملات پر قبضے کا تجربہ حاصل ہے- 2018 کے انتخابات میں اس شہر سے تحریک انصاف کو اچھی خاصی صوبائی اور قومی نشستیں دلوا دی گئیں- یقیناً عوام سے بھی حمایت حاصل کی گئی – لیکن حقائق یہی ہیں کہ 2018 کے انتخابات پاکستانی تاریخ کے بدترین جعلی انتخابات تھے- 2023 میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ آیا تو ایم کیو ایم مشکلات میں گھری ہوئی تھی- پارٹی ڈسپلن کو قائم رکھنے کے لیے عافیت اسی میں نظر آئی کہ کسی بہانے بائیکاٹ کیا جائے- جماعت اسلامی ملک کی سب سے منظم جماعت ہونے کے باوصف سستی اور کم ہمتی کا شکار تھی- حافظ نعیم الرحمٰن نے لیکن میدان میں اکیلے قدم رکھ کر بلدیاتی سیاست کا بازار سجا دیا اور کراچی کو حق دلوانے کا نعرہ بلند کیا- جماعت اسلامی کی اچھی شہرت کا بھی انھیں فائدہ ملا- لیکن نشستیں اتنی نہ ملیں کہ میئر بن سکتے- یونین کونسلز کے 155 چیئرمین پیپلز پارٹی کے، اور 130 جماعت اسلامی کے جیتے- میں اس کا کریڈٹ جماعت اسلامی کی بجائے حافظ نعیم الرحمٰن کو دوں گا- 60 چیئرمین پی ٹی آئی کے جیتے- 14 یونین کونسلز میں مسلم لیگ نواز کے، اور 4 میں جے یو آئی فضل الرحمٰن کے امیدوار چیئرمین منتخب ہوئے- حافظ نعیم الرحمٰن میئر بننے کے شدید خواہش مند تھے- خواہش کو اگر اصول کے ساتھ وابستہ کر لیا جاتا تو سیاست بہت خوب صورت بن جاتی- لیکن افسوس کہ اصولی سیاست کا رواج جماعت اسلامی میں سید مودودی کے ساتھ ہی وفات پا چکا- سید مودودی کے بعض نظریات سے دینی حلقوں کے شدید اختلاف کے باوجود ذاتی، نظریاتی، تاریخی اور عالمی سطح پر مودودی صاحب بہت بڑے مقام پر فائز ہیں، اور مجموعی طور پر ان کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے- ان کی وفات کے ساتھ ہی ان کی جماعت میں اصولوں کے زوال کا سفر شروع ہوا- سراج الحق نے تو سید مودودی کی جماعت کو عمران خان جیسے شخص کے گھر کی باندی بنا دیا- اہل بصیرت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ کہاں سید مودودی، اور کہاں عمران خان- لیکن؛

وائے ناکامی، متاعِ کارواں جاتا رہا؛
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا-

Advertisements
julia rana solicitors london

حافظ نعیم میئر بننے کی خواہش، اور سراج الحق عمران خان کی چاہت کے اسیر تھے- چناں چہ زمان پارک لاہور میں لیاقت بلوچ جیسا نظریاتی اور حافظ نعیم الرحمٰن جیسا پر عزم سیاست دان عمران خان جیسے شخص کے دائیں بائیں کھڑے ہو کر تصویر کھنچوا رہے تھے، اور اس کے باوجود ان کے چہروں پر مسکراہٹ بھی تھی-
15 جون 2023 کو میئر کراچی کا انتخاب ہوا- مرتضیٰ عبدالوھاب کو پورے 173 ووٹ ملے جو ہر لحاظ سے درست اور حقیقی ہیں- پیپلز پارٹی کے 155, مسلم لیگ نواز شریف کے 14 اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن کے 4 ووٹ جمع کریں تو 173 ہی بنتے ہیں- دھاندلی کا جو نعرہ عمران خان کے ذریعے سراج الحق اور حافظ نعیم الرحمٰن تک منتقل ہوا ہے، اس میں کیا حقیقت ہے؟ پیپلز پارٹی کراچی کے ان بلدیاتی انتخابات میں سب سے بڑی جماعت تھی اور جمہوریت یہی ہے کہ اسی کا میئر ہو- جماعت اسلامی کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے کہ 155 چیئرمین والی پیپلز پارٹی کی بجائے 130 چیئرمین والی جماعت اسلامی کا میئر بننا جمہوریت کی روح کے ہی برعکس ہوتا- جماعت اسلامی کو اپنے 130 ووٹوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے 30 ووٹ بھی ملے اور یوں ان کی تعداد 160 نکلی- پی ٹی آئی کے 30 چیئرمین البتہ لاتعلق رہے- عدالتوں میں درخواستیں دائر کرنے، اور گرم موسم میں کارکنوں کو سڑکوں پر خوار کرنے کی بجائے پی ٹی آئی کے جن 30 چیئرمین نے ووٹ نہیں دیا، ان سے، اور ان کے بھی چیئرمین سے پوچھا جائے کہ یہ لوگ کیوں غیر حاضر رہے- پی ٹی آئی البتہ دھاندلی کے معاملات میں کتنی مہارت رکھتی ہے، اس کا اندازہ تو آپ کو 2018 کے عام انتخابات، پنجاب میں صوبائی حکومت بنانے، سینیٹ میں صادق سنجرانی کے پہلی بار انتخاب، ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی، اسی سنجرانی کے دوبارہ انتخاب، اور 2021 میں قومی اسمبلی کی ایک نشست پر ڈسکہ کے ضمنی انتخاب کی مثالوں سے ہو جانا چاہیے- پیپلز پارٹی نے آزاد کشمیر کے علاقے باغ میں گزشتہ دنوں مسلم لیگ نواز کے امیدوار مشتاق احمد منہاس سے نشست کیسے چھینی، یہ بھی ذہن میں رکھیے- اور ہاں جمہوریت کا نوحہ پڑھنے سے پہلے خود جماعت اسلامی یاد کرے کہ اس نے 9 نومبر 1979 کو عبدالستار افغانی کو اسی کراچی کا میئر کیسے بنوایا، جب کہ ایوان میں اکثریت تو پیپلز پارٹی کی تھی-

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply