• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بیداریء مِلّت – قسط اوّل / مؤلف: علامہ نائینی/مترجم: اعجاز نقوی

بیداریء مِلّت – قسط اوّل / مؤلف: علامہ نائینی/مترجم: اعجاز نقوی

(نوٹ: یہ آیۃ اللہ العظمیٰ علامہ نائینی کی کتاب ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ کے قسط وار اردو ترجمہ کی پہلی قسط ہے۔ یہ کتاب 1909ء میں ایران میں آئینی جمہوریت کی تحریک کے دوران لکھی گئی تھی۔)

“پیش لفظ”
تمام تر تعریف ہے جہانوں کے پالنہار کے لئے اور درود وسلام ہو اوّلین و آخرین کے سردار اور انبیاء و مرسَلین کے خاتَم محمد مصطفیٰ اور ان کی پاکیزہ آل پر اور ان کے دشمنوں پر تا قیام قیامت نفرین ہو۔
اما بعد!
تاریخِ عالَم سے آگاہ لوگ جانتے ہیں کہ مسیحی اور یورپی اقوام صلیبی جنگوں سے پہلے تک نہ صرف علوم سے بے بہرہ تھیں بلکہ تہذیبی آداب اور سیاسی فنون سے بھی ناواقف تھیں۔ اس ناواقفیت کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ سابقہ شریعتوں میں ایسے احکام موجود نہیں تھے۔ اگرچہ یہ بھی ممکن ہے کہ گزشتہ آسمانی ادیان میں تہذیبی آداب اور فنون سیاست کے احکام موجود ہوں لیکن آسمانی کتابوں کی تحریف کی وجہ سے وہ قومیں ان سے محروم رہ گئی ہوں۔

صلیبی جنگوں کے بعد اہلِ یورپ کو یہ نکتہ سمجھ آگیا کہ ان کی ناکامی کا سبب تہذیب وتمدن سے دوری اور علم سے محرومی ہے۔ یہ سمجھ لینے کے بعد اہلِ یورپ نے اس اُم الامراض کے علاج کو اپنا اہم مقصد قرار دیا اور اس مقصد کے حصول میں ذوق و شوق سے سرگرم ہوگئے۔

اہلِ یورپ نے تہذیبی اصول اور اسلامی سیاست کے اصول قرآن وسنت اور حضرت شاہِ ولایت علی ابن ابی طالب کے فرامین سے سیکھے ہیں۔ ان لوگوں نے ماضی میں اس کا اعتراف بھی کیا اور اس بات کا اقرار بھی کیا کہ انسانی عقل میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ ان اصولوں کو خود سے سمجھ سکے جو تہذیبی ترقی کی بنیاد بنتے ہیں۔ وہ لوگ اپنی تمام تر ترقی کو اسلامی تہذیبی اصولوں کا مرہون منت ہونے کااقرار کرتے ہیں اور اسلام کی پہلی نصف صدی کے اندر اندر حاصل ہونے والی غیر معمولی ترقی کو بھی اسلامی اصولوں کی پیروی کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ (1)
لیکن ایک طرف اہل یورپ کا ذوق و شوق اور ان کی ذہانت و فطانت اور مسلسل محنت نے جہاں ان کو عروج بخشا وہیں مسلمان، جابر اور خود پسند حکمرانوں کی غلامی کا شکار رہے، ایسے حکمران جو اسلامی اصولوں اور قرآن و سنت سے کوسوں دور تھے۔ اور اس غلامی اور آمروں کی اطاعت نے مسلمانوں کو موجودہ زبوں حالی تک پہنچایا ہے۔ اب مسلمانوں نے اپنا ماضی بھی بھلادیا ہے۔ اور مسلمانوں پر تنقید کرنے والا طبقہ بھی یہ سمجھنے لگ گیا ہے کہ اہلِ اسلام کا اس طرح غلامی کی زندگی بسر کرنا اسلام کی پیروی کا ہی نتیجہ ہے۔ اسی لئے ناقدین یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے احکام تہذیب و تمدن اور عدل و انصاف سے متضاد ہیں۔ جبکہ عدل و انصاف ہی تمام تر ترقی کا سرچشمہ ہے۔

بالآخر وہ زمانہ آپہنچا ہے کہ قدرتِ خداوندی کی تائید سے مسلمانوں کا زوال اپنے آخری درجے پر پہنچ کر رک چکا ہے۔ اور اہلِ اسلام کی غلامی کا زمانہ ختم ہونے والا ہے۔ اب ہر جگہ جابر و خودپسند بادشاہوں کی من مانیوں کو لگام ڈالی جارہی ہے۔ مسلمان اپنے روحانی رہبروں کی راہنمائی کے نتیجے میں اپنے دین کے اصل تقاضوں کو سمجھنے لگ گئے ہیں۔

مسلم عوام یہ آرزو لے کر اٹھے ہیں کہ اب وہ وقت کے فراعنہ سے اپنے قومی حقوق چھین کر تمام سماجی امور میں برابری کی سطح پر شراکت داری کریں گے۔ اور جابر فراعنہ کا طوقِ غلامی اپنی گردنوں سے اتار پھینکیں گے۔ وہ اپنے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لئے اپنے پاک خون کا آخری قطرہ تک بہا دینے اور اس راہ میں آنے والے آگ کے سمندروں سے گزر جانے کا عہد کرچکے ہیں۔
اور جیسا کہ امام حسین بن علی ؑ نے عاشور کے دن فرمایا تھا کہ: ” خدا، اس کا رسول(ص) اور اہل ایمان اور وہ پاکیزہ گودیں جنہوں نے ہمیں پروان چڑھایا، اور ہمارے غیرت مند اجداد پسند نہیں کرتے کہ ہم پست فطرت حکمرانوں کی ذلت بھری اطاعت کو عزت کی موت پر ترجیح دیں“۔

اہلِ اسلام بھی اب اسی فرمان کو سامنے رکھتے ہوئے جابر و خود پسند حکمرانوں کی غلامی پر اپنی موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور اس راستے میں بہنے والے خون کو سعادت و حیاتِ قومی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ نجفِ اشرف کے حوزے سے جاری ہونے والے ان مجتہدین کے فتاویٰ جو مسلک جعفری کے سربراہ ہیں، اور استنبول کے شیخ الاسلام کا فتویٰ کہ جو اہل سنت کے مذہبی پیشوا ہیں، جن میں جابرحکمرانوں کے مقابلے میں جہاد ضروری قرار دیا گیا، ان فتووں سے واضح ہوتا ہے کہ دینِ اسلام ظلم و جور اور شخصی حکمرانی کا مخالف ہے۔ یہ فتاویٰ حجتِ آشکار ہیں اور ناقدین و حاسدین کا منہ بند کرنے کے لئے کافی ہیں۔

لیکن ایران کے آدم خور انسان نما بھیڑیوں کے طبقے نے جب دیکھا کہ شہنشاہوں کا خاندانی اقتدار خطرے میں ہے اور اہلِ اسلام کی جان و مال پر قبضہ برقرار رکھنے کے لئے ان کو دین سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ملا۔ إِنِّي أَخافُ أَنْ يُبَدِّلَ دينَكُمْ (سورة غافر، آیت 26)۔ پس انہوں نے دین کو ہی استعمال کرنا شروع کردیا اور ایران کے فرعون صفت شہنشاہ کے دست و بازو بنتے ہوئے ،بے روح دین کو اپنے قبیح افعال کا وسیلہ بنا لیا۔ (2) ان ظالموں نےاپنے ظلم و ستم سے ضحاک و چنگیز کو شرمندہ کردیا اور بدقسمتی سے اس کا نام دین داری رکھ دیا۔

یہ اللہ تعالی کی خاص صفت ہے کہ وہ جو چاہتا ہے انجام دیتا ہے۔ فَعَّالٌ لِما يُريدُ (سورة بروج، آیت 16)۔ اور کوئی اس سے پوچھ گچھ کرنے والا نہیں۔ لیکن ایران کے شاہوں نے بھی خدا بننے کی کوشش میں خود کو جوابدہ ہونے سے محفوظ کر رکھا تھا۔ جب آئینی جمہوری انقلاب (انقلابِ مشروطہ) نے قانون سازی کے ذریعہ ان کو جوابدہ بنایا تو ان عالِم نما مذہبیوں نے اس کو اسلام دشمنی قرار دیا۔ اور شریعتِ مقدسہ کو اس ننگ و عار سے آلودہ کرنے میں ذرا ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ یورپی ناقدین کے سامنے اس کا اعلان کرکے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آبرو پر حملہ آور ہوئے۔ بلکہ خالقِ لم یزل کی ذات کے حق میں بھی اس قدر ظلم سے کام لیا کہ مخلوقِ خدا پر ظلم کرنے کے لئے خالق پر ظلم سے دریغ نہ کیا۔ سچ کہا خدائے عظیم نے کہ:
ثُمَّ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیۡنَ اَسَآءُوا السُّوۡٓاٰۤی اَنۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ کَانُوۡا بِہَا یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ.
ترجمہ: ”ظلم و برائی کرنے والوں کا انجام یہ ٹھہرا کہ انہوں نے اللہ کی آیات کا انکار کردیا اور اس کا مسخرہ اڑانے لگ پڑے“۔ (سورة الروم، آیت 10)

صحیح السند حدیث رسول ہے کہ:
”جب بدعتیں ظاہر ہوجائیں تو عالِم کے لئے لازم ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے علم کا اظہار کرتے ہوئے سچائی بیان کرے، وگرنہ اس پر خدا کی لعنت ہوگی۔“ (3)

اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ دین کے ساتھ کئے جانے والے اس کھلواڑ پر خاموش رہنا اور شریعت کی مدد نہ کرنا ظلم کی حمایت شمار ہوگی۔ اس لئے شریعت کے اس حقیر خادم نے اپنے لئے واجب سمجھا ہے کہ دین کی خدمت انجام دیتے ہوئے، دین کے ساتھ کئے گئے ان زندیقوں کے اس کھلواڑ کا رد کروں۔

امید کرتا ہوں کہ میرا یہ کام خدائے کریم کی بارگاہ میں مقبول واقع ہوگا۔ اور یہ عمل ایک ایسا واجبِ کفائی ثابت ہوگا جس کی وجہ سے دوسرے علما  کی شرعی ذمہ داری بھی ساقط ہوجائے گی۔
وما توفیقی الا بالله۔
چونکہ اس کتابچے کو تحریر کرنے کا مقصد امت کو ضروریات دین کے لئے تنبیہ کرنا اور دین فرشوں کی بدعتوں سے ملت کو منزہ کرنا ہے اس لئے اس کا نام ”تنبیہ الامہ و تنزیہ الملہ“ رکھا ہے۔ یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہوگی۔

Advertisements
julia rana solicitors

حواشی و حوالے:
1۔ عرضِ مترجم: میرزا نائینی کی یہ رائے قابلِ اختلاف ہے۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا۔
2۔ عرضِ مترجم: میرزا نائینی کا اشارہ اس واقعے کی طرف ہے جب مجلسِ شوریٰ (پارلیمنٹ) کی عمارت پر شاہ نے روسی فضائیہ سے حملہ کروایا تھا اور شیخ فضل اللہ نوری اور ان کے ساتھیوں نے شاہ کے اقدامات کو دینی جواز دینے کی کوشش کی۔
3۔ اصول کافی، جلد 1، صفحہ 54، حدیث 2، 1388 شمسی، تہران۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply