نیازی حکومت کی ڈھیلی چولیں۔۔۔۔۔۔ارشد بٹ

نیازی حکومت کی چولیں ڈھیلی ہوتی نظر آرہی ہیں۔ احتسابی جج ارشد ملک کی درفنطنیوں نے احتسابی ڈھکوسلے کی باسی کڑھی بیج بازار اُگل دی۔ 13جولائی کو ملک بھر میں چھوٹے بڑے تاجروں کی مکمل شٹر ڈاون ہڑتال حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف عدم اعتماد اور ریفرنڈم کا اعلان ہے۔ چیئرمین سینٹ کو انکے عہدے سے ہٹائے جانے کی اپوزیشن تحریک جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ وزیر اعظم، وزیروں اور مشیروں کے اپوزیشن کے خلاف بے تکے جارحانہ بیانات اور انکی باڈی لینگویج، اقتدار کے ایوانوں میں کھلبلی، گھبراہٹ، افراتفری اور ذہنی خلفشار کا پتہ دیتے ہیں۔ دن رات احتساب کا راگ الاپتے اور کسی کو نہیں چھوڑوں گا، کی تسبیح کرتے ہوئے وزیر اعظم نیازی کسی انجانے دباو اور خوف کا ناکام مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں۔ وزیر اعظم کی اپوزیشن اراکین اسمبلی سے ملاقاتیں، اسمبلی اور سینٹ اراکین کی ہارس ٹریڈنگ حکومت کے خوفزدہ ہونے اور دیوالیہ پن کا نتیجہ ہے۔ حکومت گرنے کے خوف کے زیرِ سایہ حکومتی اتحادی جماعتوں کو سیاسی اور مالی رشوت کے سامنے وزیر اعظم کی اصول پسندی اور نرگسیت بھی ڈھیر ہوتی نظر آئی۔

جیل کی کال کوٹھڑی میں بند نواز شریف اور آصف زرداری نے سرکار کی نیندیں حرام کر رکھیں ہیں۔ حکومتی پالیسیوں کے خلاف بلاول اور مریم کی جارحانہ تنقید سے حکمران دماغی توازن برقرار نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ بلاول اور مریم کی عوامی رابطہ مہم حکومتی پریشانیوں میں مزید اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ بلاول اور مریم کو ملنے والی عوامی پذیرائی نے نیازی صاحب کے سیاسی مستقبل کو بھی مخدوش کر دیا ہے۔ نیازی صاحب کے اختیار میں ہوتا تو وہ بلاول اور مریم کو ہمیشہ کے لیے جیل میں ڈال کر سکھ کا سانس لیتے۔ مگر مریم اور بلاول حکمرانوں کے گلے میں کانٹا بن کر اٹک چکے ہیں۔

مصنف:ارشد بٹ

ایک بار پھر عدلیہ کی آزادی اور خودمختاری پر طرح طرح کے سوالات اُٹھ رہے ہیں۔ تاریخی تناظر میں دیکھیں تو پاکستانی عدلیہ کی تاریخ قابلِ رشک نہیں رہی۔ طالع آزما جنرل ایوب خان، جنرل یحیٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کے اقتدار پر قبضے کو جائز قرار دینا، آئینی چھتری فراہم کرنا، فوجی ڈکٹیٹروں کو آئین کا حلیہ بگاڑنے کا آئینی اختیار تفویض کرنا اور بھٹو کا عدالتی قتل عدلیہ کے ماتھے پر بد نما داغ ہیں۔

عوام یہ سمجھنے میں حق بجانب ہیں کہ جمہوریت پسند سیاستدانوں کو ہماری عدلیہ سے انصاف نہیں مل سکتا۔ عوام عدلیہ کو ایک آزاد اور خود مختار ادارہ کیونکر تسلیم کریں۔ عوام یہ یقین کرنے پر مجبور ہیں کہ ہماری عدلیہ، طاقتور حلقوں کے اشارے اور دباؤ کے تحت جمہوریت پسند سیاستدانوں کو انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ عدلیہ کا ماضی غیر آئینی چیرہ دستیوں سے داغدار نہ ہوتا تو نواز شریف کو انصاف ملنے کی توقع کی جا سکتی تھی۔

الیکٹرونک میڈیا پر بندشیں، سنسر شپ، آصف زرداری اور مریم نواز کے انٹرویو پر پابندی، نہ بکِنے والے صحافیوں اور اینکروں کو بلیک میل اور دھمکیوں سے سچ بولنے سے روکنا، فاشسٹ طرز ِ حکمرانی کی نشانیاں ہیں۔ ایسے ہتھکنڈے فاشسٹ حکمرانوں کی بزدلی اور عوامی قوت سے خوفزدہ ہونے کا اظہار ہوتا ہے۔ نیازی حکومت عوام کو سچائی سے دور رکھنے کے لیے دن رات جھوٹے پراپیگنڈے، سنسر شپ، دھمکیوں، بلیک میلنگ، سیاسی مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے اور ریاستی جبر کے بے دریغ استعمال سے جمہوری نظام کو تہس نہس کرنے پر تُلی ہوئی ہے۔ گزشتہ روز لندن میں وزیر خارجہ قریشی کی عالمی شہرت یافتہ صحافیوں کے رو برو دروغ گوئی نے حکومت کے گلے میں عالمی رسوائی کا ایک اور تمغہ سجا دیا۔ آزادی اظہار پر عالمی سیمینار میں شریک صحافیوں نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی تقریر کا بائیکاٹ کر دیا اور قریشی صاحب خالی کرسیوں سے خطاب فرماتے رہے۔ عالمی ضمیر بھی پاکستان میں آزادی اظہار پر پابندیوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گیا۔

ملکی اقتصادیات تیزی سے تنزل پذیر ہے۔ آئی ایم ایف بجٹ کے نتیجے میں کروڑوں عوام کو غربت کی لکیر کے نیچے گرانے کا بندوبست مکمل ہو چکا ہے ۔ دبے کچلے غریب عوام بھوکے پیٹ چیخنے چلانے کے علاوہ کچھ نہیں کر پا رہے۔ ٹیکسوں کی بھر مار، کمر توڑ مہنگائی اور بے روزگاری نے غریب عوام کی رگوں میں بچا کھچا خون بھی نچوڑنا شروع کر دیا۔ اس بجٹ نے تاجروں، دکانداروں اور چھوٹے صنعت کاروں کی بھی چیخیں نکال دیں۔ کراچی، فیصل آباد اور دیگر صنعتی شہروں میں سینکڑوں چھوٹے صنعتی یونٹ بند ہو چکے ہیں۔ پہلے سے ماند پڑ چکی معاشی سر گرمیاں مزید گراوٹ کی طرف بڑھتی نظر آرہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دلفریب جھوٹے وعدوں کے بل بوتے، سیاسی مخالفین کے خلاف بے بنیاد نفرت انگیز پراپیگنڈے اور سازشوں کے سہارے اقتدارتک پہنچنے والے حکمران کب تک جھوٹے وعدوں سے عوام کا پیٹ بھرتے رہیں گے۔ ان حالات میں عوام متحدہ اپوزیشن کی مجوزہ احتجاجی تحریک کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دگرگوں معاشی اور سیاسی حالات نے اپوزیشن کی مجوزہ احتجاجی تحریک کو زرخیز زمین فراہم کر دی ہے۔ آج تاجروں کی ملکی سطح پر بھرپور شٹر ڈاؤن ہڑتال سے آئندہ حالات کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ 25جولائی کو متحدہ اپوزیشن کے اعلان کردہ جلسہ عام میں عوام کی شرکت اور تعداد آنے والے دنوں کا رخ متعین کریں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا اس کا دارومدار بھی مجوزہ تحریک کی عوامی مقبولیت پر ہو گا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply