کاغذی سماج/توقیر بُھملہ

راجہ زریاب ارد گرد کے سات دیہاتوں کا اکلوتا مالک اور سرپنچ تھا، پرانے وقتوں میں راجہ زریاب کے آباؤ اجداد سے وراثت میں ملی پتھریلی بنجر اور بارانی زمینوں پر جب کوئی فصل اگنے کا سوال ہی نہیں تھا تو دور دراز سے بے گھر اور بے زمین خاندانوں کو یہاں لاکر بسایا گیا تھا، یوں ماہ سال کا سفر طے کرتے ہوئے راجہ زریاب کے گاؤں “راجہ نگر” کے ارد گرد مزید سات نگر ابھر آئے، بعد میں بننے والے ان تمام گاؤں کے نام راجہ زریاب کے بڑے بزرگوں کے نام پر رکھے گئے اور زمین کی اصل ملکیت بھی راجہ زریاب کے گھرانے کے پاس ہی رہی۔

راجہ نگر کے اردگرد پہلے سے بھی چند خاندان آباد بھی تھے، جن میں جاٹ اور ملک خاندان نمایاں تھے مگر تعداد میں۔ نہایت قلیل تھے۔ اسی لیے یہاں راج راجہ زریاب کے خاندان کا ہی نسل در نسل چل رہا تھا، کوئی دوسرا نہ تو امیدوار تھا اور نہ ہی کوئی اہل گردانا جاتا تھا۔

راجہ خاندان ایک کثیر الاولاد اور کثیر العیال خاندان تھا اور خاندان میں صدیوں پہلے رائج قانون کے مطابق پہلی بیوی جو طرفین خاندان سے ہی ہو اس کے بطن سے جنم لینے والا بڑا بیٹا ہی سرپنچ اور گاؤں کا راجہ ہوتا تھا، باقی بہن بھائی دوسرے مختلف امور کو انجام دیتے تھے۔۔

یہ سلسلہ راجہ زریاب تک بخوبی چلتا رہا لیکن راجہ زریاب تک آکر جیسے رک سا گیا تھا، راجہ زریاب کی چوتھی شادی کو بھی پانچ سال ہونے والے تھے لیکن اولاد کی نعمت کسی ایک سے بھی نہ مل سکی تو راجہ زریاب جو ایک بہترین صوابدید رکھنے والا جہاندیدہ شخص تھا، اسے بخوبی اندازہ تھا کہ اولاد کا نہ ہونا سیدھا سادا مطلب تھا کہ راجدھانی سے دستبردار ہونا۔

چہ میگوئیاں گرم تھیں کہ راجہ نگر اور اردگرد کے دیہات کی حکمرانی کا تاج راجہ زریاب کی بے وارثی کے سبب کسی اور کی اولاد کے سر سجنے والا تھا۔۔ اور ایسا کون چاہتا ہے کہ وراثت اور حکمرانی کسی اور کو منتقل ہو؟

دور دراز سے پیر فقیر اور حکیموں کو لایا گیا، دعا اور دوا کارگر نہ ہورہی تھی، اور راجہ زریاب کی پریشانی تھی کہ دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔

ایک دن راجہ زریاب کے گاؤں میں کسی اجنبی فقیر کا گزر ہوا باتوں ہی باتوں میں اس فقیر کے کانوں میں راجہ کی بے اولادی کی خبر پڑ گئی، وہ سیدھا راجہ زریاب کی حویلی گیا اس سے ملا اور حال احوال پوچھ کر کہنے لگا تمھاری قسمت میں ایک پُتر ہے لیکن وہ ان چاروں بیویوں سے نہیں ہوگا بلکہ پانچویں سے تم صاحب اولاد بن جاؤ گے، راجہ زریاب حیران پریشان کہ جب چاروں حیات اور خاندان سے ہیں تو پانچویں کی جگہ بھلا کیسے بنے گی، اس کا حل بھی فقیر نے بتا دیا اور وہاں سے چلا گیا۔۔ راجہ زریاب نے اپنی سب سے پہلی بیوی جو بوڑھی ہوچکی تھی اسے طلاق دے کر حویلی کے ایک کونے میں مستقل رہائش دے دی اور یوں پانچویں شادی کی گنجائش نکال کر بیاہ رچا لیا۔

۔ فقیر کا کہا سچ یوگیا اور شادی کے ٹھیک ایک سال بعد راجہ زریاب کی حویلی میں وارث کی قلقاریاں گونجنے لگیں۔

مبارک سلامت اور خوشی کی تقریبات پورے چالیس دن تمام دیہاتوں میں چلتی رہیں، جس میں چالیس دن چراغاں، تینوں وقت گائے کے گوشت کا لنگر، دیسی گھی اور گڑ سے بنی جلیبی، اور خالص دودھ سے ہر خاص و عام کی تواضع کی گئی، غریبوں مسکینوں میں کپڑے لتے تقسیم کیے گئے، راجہ زریاب کی زندگی کا محور اب بڑھاپے میں ملا وارث بن گیا تھا، پرجا نے اس خاندان میں حیرت کے ساتھ پہلی بار دیکھا تھا کہ ان کا راجہ جس کے قریب سے مکھی بھی نہیں گزرتی تھی وہ اب ہروقت ہر جا حتیٰ کہ اپنی پرجا اور پنچائیت میں ننھے راجہ حاکم کو کندھوں پر اٹھائے رکھتا تھا، وقت گزرتا گیا اور راجہ حاکم باپ کے کندھوں پر سواری کرتے کرتے قد کاٹھ میں راجہ زریاب کے کندھوں کے برابر ہوگیا، مدرسہ میں وہ ایک دن ہی گیا تھا اور اس کے بعد گھر آکر کہا یہ مدرسہ اور مکتب مزارعوں اور ان کی اولادوں کے بکھیڑے ہیں مستقبل کے راجہ کو درس و کتابت سے کیا لینا دینا، اور یوں وہ اپنا سارا وقت یا تو باپ کے ساتھ پنچائیت میں گزارتا یا پھر دوستوں کی محفل میں۔۔

راجہ زریاب کا اکلوتا وارث اور اگلی نسلوں کا راجہ، اب اتنا بڑا ہوگیا تھا کہ آزادانہ فیصلے بھی کرسکتا تھا اور باپ کے کیے گئے فیصلوں میں ردو بدل بھی کردیتا، وہ سمجھنے لگا تھا کہ اس کا بوڑھا باپ شاید ضعف عمری کے سبب مناسب فیصلے کرنے کے قابل نہیں رہا اس لیے وہ اپنی غصیلی طبیعت اور عجلت بھرے مزاج کے ساتھ بات بہ بات بھری پنچائیت میں اپنے باپ اور موجودہ راجہ کو ٹوک بھی دیتا اور راجہ زریاب جواب میں پدرانہ شفقت اور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے لاڈلے کو کمسن جان کر خاموشی اختیار کر لیتا، پنچائیت میں چھوٹے راجاؤں کو یہ انداز برا لگتا تھا لیکن وہ کھل کر بولنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے۔۔

دیہاتوں میں ہر طرح کے معاملات اور مسائل دیہات میں ہی حل ہوتے تھے، اگر کوئی تنازعہ قتل یا ڈکیتی تک جا پہنچتا تو وقوعے کے پہلے تین دن بات مقامی پنچائیت میں طے کی جاتی اگر کیس پنچائیت میں حل ہوجاتا تو ٹھیک نہیں تو پھر بات راجاؤں کے دائرہ اختیار سے نکل کر بڑے شہروں کی کچہریوں تک جا پہنچتی تھی، ان کچہریوں میں ایک خاص بات یہ تھی کہ کوئی بھی کیس جب جج کے سامنے پیش ہوتا تو جس راجہ کی راجدھانی میں وقوعہ ہوتا تو وہاں کا راجہ جج کے ساتھ بیٹھ کر تمام عدالتی و قانونی کارروائی دیکھتا رہتا گاہے بگاہے راجہ اور جج آپس میں مشورہ بھی کرتے اور حتمی فیصلہ راجہ کی رائے کے بغیر ناممکن ہوتا تھا۔

یوں ایک بار راجہ نگر میں دوہرے قتل اور ڈکیتی کی واردات میں چند معزز راجاؤں کے ناموں کا مسئلہ سامنے آگیا، پنچائیت کی اپنی کھوجی ٹیم اور راجہ زریاب کی دانشمندانہ صوابدید کے مطابق فیصلہ چھوٹے راجاؤں کے خلاف نکلتا تھا، یہ لوگ راجہ زریاب کی پانچویں بیوی کے خاندان اور چھوٹے راجہ حاکم کے ننھیال سے تعلق رکھنے والے تھے، راجہ حاکم باپ سے اس کیس میں اپنی مرضی کا فیصلہ کروانا چاہتا تھا اور راجہ زریاب اپنی صدیوں سے انصاف پر مبنی راجدھانی میں کوئی کلنک لگا کر خاندانی انصاف کے نظام کو داغدار نہیں کرنا چاہتا تھا، وہ عجیب مخمصے میں پھنسا ہوا تھا، ایک طرف منتوں مرادوں سے لیا ہوا ولی عہد اور دوسری طرف مقتولوں کا انصاف کا متقاضی خون۔۔

راجہ زریاب سے جب فیصلہ کرنا دوبھر ہوگیا تو اس نے اذیت اور مزید تنازعات سے بچنے کے لیے، اپنے ایک مشیر خاص کو رازداری کے ساتھ تھانیدار کے پاس بھیجا اور پیغام بھجوایا کہ دانشمندی کے ساتھ کیس کچہری میں فلاں جج کے پاس لگوا دو تاکہ وہاں سے ہی فیصلہ آئے گا تو مستقبل میں آنے والا بھونچال رک سکتا ہے۔۔

یوں راجہ زریاب تب تک پنچائیت میں کارروائی کو لٹکاتا رہا جب تک کیس کچہری میں نہ چل پڑا۔

معاملات راجہ نگر سے نکل شہر کی فضاؤں میں پہنچ گئے وہاں تو اخبار بھی نکلتا تھا اور اخبارات ایسی خبروں کے انتظار میں رہتے تھے، یوں یہ خبر اخبار کے مرکزی صفحے کی زینت بن گئی جس سے ہرجگہ چرچا ہوگیا۔

عدالت میں تمام راجے بڑی تمکنت کے ساتھ اگلی نشستوں پر براجمان تھے، حسب رواج جج کے شانہ بشانہ راجہ زریاب بھی تھا اور کیس جیسے جیسے آگے بڑھ رہا تھا سب کو اس کا فیصلہ واضح نظر آنے لگا۔۔ تمام نامزد راجے مطمئن بیٹھے تھے انہیں راجہ زریاب کی پانچویں بیوی اور راجہ حاکم کی طرف سے مکمل یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ من چاہا فیصلہ آئے گا۔۔

تمام مشاورت کے بعد راجہ زریاب نے جج کو کہا وہی کرو جو قانون کے مطابق برمبنی انصاف ہو، اب امتحان کی گٹھری راجہ زریاب کے سر سے اتر کر جج کے سر پڑھ گئی تھی اور جج صاحب ایسا فیصلہ چاہتے تھے جو مزید تنازعات اور خون خرابوں کو مٹانے والا ہو نا کہ بڑھانے والا۔۔

بالآخر فیصلے کی گھڑی آن پہنچی کرسیوں کی چرمراتی آوازیں اپنے اوپر بیٹھنے والوں کی بے چینی کو ظاہر کررہی تھیں۔

جج صاحب نے اپنا فیصلہ لکھا اور راجہ زریاب کو دکھایا، وہاں سے مثبت اشارہ پا کر جج نے فیصلہ پڑھنا شروع کیا۔۔ “جج نے کہا کہ ہر طرح کی تفتیش و بیانات کے مطابق قتل کے مقدمات میں نامز ملزمان پر لگے الزامات سچ ثابت ہونے پر انہیں مجرم تسلیم کیا جاتا ہے اور، ابھی جج کی بات یہاں ہی پہنچی تھی کہ راجہ حاکم اپنی نشست سے کھڑا ہوکر کہنے لگا کہ یہاں مجرم کی جگہ کوئی متبادل لفظ استعمال کیا جائے، اس طرح تو آنے والی نسلیں جب اتہاس کو دیکھیں گی تو انہیں اپنے آباؤ اجداد کے ہاتھوں پر خون نظر آئے گا اس لیے ایسا کچھ بھی قابل قبول نہیں ہے۔

راجہ حاکم کے ٹوکنے ہر جج جزبز ہوکر راجہ زریاب کی جانب ملتمس نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو کہ راجدھانی کے راجہ کی موجودگی میں فیصلہ سناتے ہوئے کسی دوسرے کو ٹوکنے کا اختیار نہیں ہے، راجہ زریاب نے بیٹے کو ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہا، اور جج کو کہا آپ مکمل فیصلہ سنائیں، جج نے جیسے ہی آگے پڑھنا شروع کیا تو راجہ حاکم جیسے باپ کا ہاتھ نظر انداز کرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں کہنے لگا آگے بڑھنے سے پہلے پچھلے والے کی تصحیح کریں اور مجرم لفظ کو ختم کریں، جج نے ان سنی کرتے ہوئے پڑھنا جاری رکھا تو راجہ حاکم ماں کی قسموں سے پریشان طیش میں آگیا اور، دب سے پستول نکال کر جج پر فائر کردیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عجلت میں کیے گیے فائر کا نشانہ خطا ہوکر سیدھا راجہ زریاب کے سر میں جا لگا اور وہ کرسی پر ہی لڑھک گیا، اس سے پہلے کہ راجہ حاکم دوبارہ نشانہ باندھتا، جج کے گارڈ نے بندوق سیدھی کی اور دو گولیوں کا سیسہ راجہ حاکم کے سینے میں اتار دیا، جج نے فوراً تھانیدار کو کہہ کر دروازے بند کروائے اور مجرم راجاؤں کو گرفتار کرنے کا حکم دے دیا، باقی افراد نے تاسف اور حسرت کے ساتھ موجودہ راجہ اور مستقبل کے راجہ دونوں باپ بیٹے کی لاشوں کو دیکھا جن سے ٹپکتا ایک جیسی رنگت والا لہو سرد ہوکر جمتا جارہا تھا۔۔

Facebook Comments

توقیر بھملہ
"جب خلقت کے پاس آؤ تو زبان کی نگہداشت کرو"

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply