پیکرِ عظمت، امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ۔۔۔علینا ظفر

حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ بلا شبہ ایک عظیم شخصیت ہیں اور تا قیامت آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عظمت تک کوئی دوسرا نہیں پہنچ پائے گا۔ ہمیں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی عظمت، بزرگی، بڑائی، استقلال، صبر اور مقصدیت کو سمجھنا اور اپنی زندگیوں میں اس پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔محرم الحرام کا آغاز ہوتے ہی کربلا کے اس عظیم مسافر حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔بعض روایات کی رو سے لفظ “کربلا “دو لفظوں کا ملاپ ہے، یعنی “کرب و کربلا۔” کرب دکھ کو کہتے ہیں، جبکہ بلا وہ ہے جو بستیوں کو لپیٹ میں لے لیتی ہےاور اجتماعی نقصان پہنچاتی ہے۔ کربلا وسطی عراق کا مقام ہے جہاں حضرت سیدناامام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے رضائے الہی اور اپنے نانا حضرت محمد ﷺ کے دین، دینِ اسلام کی خاطر عظیم اور بے مثال قربانی دیتے ہوئے جامِ شہادت نوش فرمایا۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے کہ میں علم کا شہر ہوں ، اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ اس کا دروازہ ہیں ۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد رسول اللہﷺ سے بے پناہ محبت کرنے والی، اپنے شوہر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی فرمانبردار، خدمت گزار بیوی اور اپنی اولاد کی بہترین تربیت کرنے والی اور صبر کرنے والوں میں عظیم ترین خاتون حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے صاحبزادے ہیں ۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کو تینوں جانب یعنی اپنے نانا رسول اللہﷺ، اپنے والد حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور اپنی والدہ حضرت بی بی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تین طرف سے علم، حکمت ، دانائی ،اخلاق اور کردار کے تمام خزانے میسر آئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ بے پناہ حکمتوں ، بھلائیوں، خیر، اور علم کا مجموعہ ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے بحکم ِ ربی دنیا سے شرک و بت پرستی اور انسانوں کے استحصال کے خاتمے کی بنیاد فرمائی۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ بات محسوس کی کہ دنیا میں شریعت کے احکامات پر عمل پیرا ہونے میں لاپروائی اور انسانوں پہ انسانوں کی حکومت کا معاملہ دوبارہ سر اٹھا رہا ہے تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے کسی صورت بھی یزید کی بیعت نہ کرنے کا فیصلہ فرمایا۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی اس لا زوال قربانی میں رہتی دنیا تک پیغام موجود ہے کہ اللہ سے دوری اختیار کرتے ہوئے اور بندوں پر اللہ کی بجائے انسانوں کی حکومت قبول کرنے سے عزت و توقیر کی جگہ ذلت و رسوائی مقدر بن جاتی ہے۔حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ فِکر ، سوچ، ارادہ،جستجو اور جہاد کی اصل روح ہیں۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کو معلوم تھا کہ آنے والے وقت میں کیا ہونے والا ہے مگر عظیم لوگوں کے مقصود بھی عظیم ہوتے ہیں۔ وہ اپنےمشن کے لیے بیوی ،بچے، بہن بھائی ، بھوک، غربت،پیاس دیکھتے ہیں، نہ تیر و تلوار کے زخم ۔ان کا مشن اِن سب پہ بھاری ہوتا ہے۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ اپنی دور اندیشی اور مسقبل بینی کی بدولت وقت کو بھانپ لینے کے باوجود بھی اللہ کی رضا کے لیےاپنے ارادے پر ڈٹ گئے۔ بے شک آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی دانشمندی اور مشن بہت بڑا تھا کہ جانتے بوجھتے ،سمجھتے ، مستقبل کی خبر اور ادراک رکھتےہوئے بھی آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر دیا۔

ایسی آزمائشیں جن کے بارے اللہ رب العزت نے قرآن میں بیان فرمایا کہ میں تمہیں ان سے آزماؤں گا وہ سب امامِ عالی مقام اور ان کے خاندان پہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے آئیں۔ ان میں بھوک ، پیاس ، دھوپ ، خوف ، اولاد اور مال کا نقصان بھی ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سید الشہدا یعنی شہدا کےسردار ہیں جنہوں نے تمام مصیبتوں کا سامنا کیا مگر آپ رضی اللہ تعالی عنہ کا سجدہ ،عبدیت، فرمانبرداری ، استقامت، استقلال،حوصلہ ،صبر ، ہمت ، تقدیر کو ماننا ، توکل اللہ سمیت سب خوبیاں اور مقصدیت انتہائی با کمال ہیں کہ ظہر کا وقت ہو رہا ہے اور جسم زخموں سے چور چور ہے، کوئی ریشہ ء جاں ایسا نہیں ہے جس سے خون نہ بہتا ہو، نہ رستا ہو اور زخموں پہ مٹی کی تہیں نہ جم گئی ہوں، مگر وہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ اللہ کے حضور جھکے ہیں۔ اُن کی سوچ میں بھی شکوہء پروردگار نہیں آیا کہ مالک تُو نے ہمارے ساتھ کیا کیا۔ بلکہ عظمتِ حسین رضی اللہ تعالی عنہ تو یہ ہے کہ سر سجدے میں رکھ کرفرمایا کہ اے اللہ کیا اب تُو راضی ہے؟ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے سجدہ کا حق ادا کر تے ہوئے دنیا کو بتا دیا کہ اس کے بعد اتنا عظیم سجدہ کائنات میں کوئی نہیں۔ ہمارے استادِ محترم فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کے جسم کو چوٹ پہنچتی ہے تو اس کا دماغ متاثر ہوتا ہے جو درد محسوس کرتا ہے۔لیکن جب اپنے پیاروں اور آبرو پر بن آتی ہے تو دل متاثر ہونے کے ساتھ پھر روح بھی متا ثر ہوتی ہے۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے دل، جسم اور دماغ کے علاوہ روح کا امتحان بھی لیا گیا۔اللہ تبارک و تعالی فرماتاہے کہ تمہیں کوئی خوشی و راحت اور تکلیف ایسی نہیں ہے جو میری طرف سے نہ ہو۔ جو چیز اللہ کی طرف سے آ رہی ہو اس پر اس کے بندے نے کوئی شکوہ شکایت نہیں کرنا ، یہی بات جناب امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے واقعہ ءکربلا میں تمام دنیا کو سمجھائی۔ ان کے معصوم بچوں تک نے بھی کوئی شکوہ نہیں کیا۔ شکوہ کرنے والے عظیم نہیں ہو سکتے جبکہ انہوں نے تو عظمت کے مینار تعمیر کیے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمارے ہاں ہر سال سانحہ ء کربلا کے دن کی مناسبت سےبڑی نیازیں تقسیم ہو تی ہیں ،سب لوگ روزے رکھتے ہیں اور تذکرہء حسین رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہو رہا ہوتا ہے۔لیکن کبھی یہ نہیں سوچا کہ ہمارا وہ رویہ ء حسینی جس کی ہمیں پیروی کرنی ہے، کہاں ہے؟ اگر ہم ظالم کے ساتھ ایک لمحے کو بھی کھڑے ہو گئے اور کلمہء حق کو ہم نے چھپا لیا تو ہم یزید سے کچھ دور نہیں ہیں۔ ظالم کا ساتھ دینا ظلم کرنے کے برابر کہلاتا ہے۔جو شخص ظالموں کے ساتھ ہے وہ ظلم کرنے والوں کو مضبوط کررہاہےاور یزیدیت پر ہے۔ جو حق کے لئے کھڑا ہو جاتا ہے، تکلیف اور صعوبتیں اٹھانے کے باعث بھی راہِ حق سے منہ نہیں موڑتا، وہ امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی سنت پہ قائم ہے۔ حق کے لیے کھڑا ہونا اور اس کا ساتھ دینا حسینیت ہے۔حدیثِ مبارکہ کے مطابق،انسان کو جس سے محبت ہو گی اس کا انجام اسی کےساتھ ہو گا اور وہ اسی کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔ لہذا اس بات کی پیروی کرتے ہوئے ہم نے کمزور، نا طاقتور، مصائب، بیماریوں، پریشانیوں کے حالات میں علمِ حق بلند کر دیا تو یقیناً ہمارا انجام امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہو گا۔ اپنی سوچ ، رویہ بدلیں اور زندگی میں حق کو اپنائیں۔ لالچ اور چھوٹے موٹے خوف کی وجہ سے لوگ حق گوئی سے باز رہتے ہیں ۔ نمازیں پڑھتے ، روزے رکھتے ، حج، عمرے ، صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں۔ مگر حق گوئی سے دور ہیں۔ اگر کسی کو عظیم شخصیت حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے محبت اور ان کی قربانی کی سمجھ ہےتو ابھی سے وہ اپنے اللہ کو گواہ بناکر یہ ارادہ و وعدہ کر لے کہ آج سے میرا ہاتھ کسی کے آگے پھیلے گا اور نہ میرا سر کسی کے آگے جھکے گا ، اگر کوئی حق پہ ہے تو اس کے ساتھ کندھا جوڑ دے گا اور ہر گز ظالم کے ساتھ نہیں ہو گا۔ ہمیں ظالموں سے ، ان کے سنگ اور ان کے انجام سے محفوظ رہنا ہے تو بہادری کو اپنا وطیرہ بنانا، حق گوئی اختیار کرنا اور کلمہء شہادت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہے۔امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ، ان کے اسلوب ، علم ، روحانیت ، حکمت اور طریقے سے سب کو محبت ہے تو کوئی ایک صفتِ حسین لازمی اپنائیں۔اور اگر ہم ان کی صفات میں سے زیادہ نہیں لیکن کوئی ایک ہی صفت آزما لیں تو یقیناً ہم بھی عظیم ہو جائیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply