میں تو چلی چین /مسٹی شاعروں کا ایک اور اہم شاعر گوچنگ(قسط31) -سلمیٰ اعوان

گوچنگ Gu chengدوسرا بڑا ماڈرن نامور شاعر ہے جس نے ناول نگاری اور مضمون نگاری میں بڑا نام پیدا کیا۔مسٹی شاعروں میں وہ بہت خصوصی اہمیت کا حامل شاعر سمجھا جاتا ہے جسے کئی بار نوبل انعام کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔
1956کی پیدائش اور وہ بھی بیجنگ میں۔یہ زمانہ کیمونسٹ پارٹی کے نت نئے تجربات کا زمانہ تھا۔ وفاداریوں کے ماپنے کے پیمانے بڑے نرالے سے تھے۔سزائیں ، پکڑ دھکڑ،جیلیں ،سختیاں اور پھانسیاں سبھوں کا بڑا رولا رپا تھا۔
یہی کچھ اِس نوجوان شاعر کے ساتھ ہوا تھا۔اس کا باپ گوگونگ Gu Gong پارٹی کا بہت بڑا اور نمایاں لیڈر تھا۔سرخ فوج میں خدمات کے لیے مشہور تھا۔شاعری بھی خوبصورت کرتا تھا۔اُسے اپنے خاندان کے ساتھ ثقافتی انقلاب کے ان الٹے سیدھے سیدھے منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک طرح Shandongکے دیہی علاقوں میں سوروں کی گلہ بانی کے لیے جلاوطن کردیا گیا تھا۔تب گو Guصرف بارہ سال کا تھا۔
یہاں اس کے اردگرد سادگی تھی۔فطرت کا حسن تھا۔مخلص اور سیدھے سادھے لوگ تھے۔زندگی مشکل تھی مگر پرسکون تھی۔اور یہی وہ وقت تھا جب اس کے اندر شاعر جاگا۔اس دور کی اس کی شاعری کِسی استاد ،کِسی رہنما کے بغیر تھی۔ فطرت نے اس کی تربیت کی۔
بیجنگ واپسی تو کوئی 1974میں ہوئی۔ہنر تو کوئی پاس نہ تھا۔پہلے پہل بڑھی کا کام کیا۔اینٹیں ڈھونے،سیمنٹ کی تگاریاں اٹھانے اور ہر طرح کی محنت مزدوری کرنے والا شاعردھیرے دھیرے انڈسٹریل پینٹر بن گیا۔
اخبار بیچنے کا کام بھی شروع کردیا۔یہیں وہ رسالہ ‘‘آج’’ کے ساتھ وابستہ ہوا۔یہی وہ رسالہ تھا جس میں اس کی شاعری ،اس کے مضامین باقاعدگی سے چھپنے شروع ہوئے۔اس کے پڑھنے والے سینکڑوں نہیں ہزاروں کی تعداد میں اُسے پڑھنے لگے تھے۔یہی وہ قاری تھے جنھوں نے اُسے ایک سیلیربٹی بنا دیا اور پھر ایک دن وہ میگزین ایڈیٹر بھی بن گیا۔
ایسے میں بھلا احسان دانش یاد نہ آتے۔وہ آئے اور بے طرح یاد آئے۔
وہ جدّت طراز تھا۔شاعری میں نئے نئے تجربات اسی سے وابستہ ہیں۔یوں بھی مسٹی شاعروں نے حکومتی پارٹی اور ان کی پالیسیوں سے راہ فرار اختیار کرلی تھی۔گو Gu بھی اسی قبیلے میں شامل تھا۔ چینی زبان کو مالا مال کرنے میں اس کے ان ہی مختلف نوع تجربات کا کمال ہے جن کا اظہار اس کے ہاں جابجا دیکھا جاسکتا ہے۔
اس کی شاعری ایک تو حقیقت پسندانہ تھی۔ مثبت ردّعمل سے متحرک ردّعمل کی طرف سفر کرتی تھی۔دو سطروں کی نظمیں جنہیں اس نے‘‘ A generation’’کا نام دیا۔اس کا وہ شہرہ آفاق کارنامہ ہے جس نے اُسے اپنے ہم عصروں میں نہ صرف ممتاز کیا بلکہ چینی ادب میں بھی ایک نئی جدت کا اضافہ کیا۔
دیکھئیے وہ کیسے طنز کے نشتر چلارہا ہے۔تشبیہات اور استعاروں کے سہارے وہ حکومتی ارکان پر لعن طعن کے تبرّے بھیجتا ہے۔اندھی آنکھیں اور تاریک راتیں۔اسی طرح ‘‘بعض اوقات’’ میں شمال سے مراد اس کی پایہ تخت بیجنگ سے ہے۔پتلی اور پھدری شاخوں سے مراد کچھ گنے چنے مخلص ساتھی ہیں۔اس کی ہر نظم ایسے ہی گہرے جذبات کی عکاس ہے۔
اِن اندھی آنکھوں کے ساتھ
جو تاریک راتوں کا ہی تحفہ ہیں
میں چمکتی روشنی کا متلاشی ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بچے پھولوں کے لیے
شہد کی مکھیوں کو نہیں پکڑتے
مگر دنیا اپنے لیے لوگوں کو پکڑتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
موت ایک چھوٹا عمل ہے
زندگی کا ایک محض چھوٹا کٹا ہوا حصّہ
جو نشان تک نہیں چھوڑتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بعض اوقات
بعض اوقات دھرتی ماں
بڑے پرندے کے گھونسلے کی مانند ہوتی ہے
شمال کی پتلی پتلی شاخیں مجھے گھیر لیتی ہیں
تاکہ میں سورج کو دیکھ سکوں
اور مجھے محبت سے سرشار کردیتی ہیں
ہم چھوٹے پرندوں کی طر ح ہتھیلیوں میں ہوتے ہیں
اور ایک دوسرے کے بارے میں خواب دیکھتے ہیں
ہر طرف تند ہوا ہے
اور خزاں میں زرد پتے اڑتے پھرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھ کے جھپکنے میں
اس عظیم زمانے میں میرا خواب تھا
مجھے یقین تھا
اور میں نے کبھی آنکھ نہیں جھپکی
قوس قزح
جو فوارے میں دکھتی تھی
اور پاس سے گزرنے والے کو مبہوت کرتی تھی
اور آنکھ کے جھپکنے میں
سانپو ں کے سایوں میں ڈھل گئی
گھنٹی کی سریلی آوازیں
جو دور کہیں چرچ میں سنائی دیتی تھیں
خاموشی سے وقت کے دھاروں سے دور چلی گئیں
اور آنکھ کے جھپکنے میں
گہرے کنوویں میں بدل گئیں
سرخ پھول
جو صفحہ ہستی پر کھلے
اور جو بہار کی ہواؤں کو خوش آمدید کہتے تھے
آنکھ کے جھپکنے میں
خون کے تالابوں میں بدل گئے
اور یقین کی خاطر
میری آنکھیں چوپٹ کھلی رہ گئیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم لکھتے ہیں
ہم لکھتے ہیں
اُس حرارت کی طرح جو پائن کے پھلوں کے درمیان اپناراستہ ڈھونڈتی ہے
اور شطرنج کے پیادوں کی طرح جو دھیرے دھیرے حرکت کرتے ہیں
ہم لفظ ڈھونڈتے ہیں
جو تندوتیز ہیں ،جن میں بوسیدگی ہے
اور جو ایک دوسرے کو نگل لیتے ہیں
ہم اپنے چھکڑے کو چلانے میں ناکام ہوگئے
وقت پر شاہ بلوط کی بلندیوں کی طرف لے جاتے ہیں
اور بلوط کے بیج زمین پر گرتے ہیں
اور ساری زمین بلوط کے بیجوں سے بھرجاتی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا دل دنیا سے محبت کرتا ہے
محبت کرتا ہے
اور سردیوں کی رات میں
اُسے نرمی سے چومتا ہے
اُس پاکیزہ اور خالص جنگلی آگ کی طرح
جو گھاس کو چومتی چلی جاتی ہے
چراگاہ نرم گرم ہے
جس کے اختتا م پر ایک منجمند جھیل ہے
جس کی تہہ میں خوابیدہ حسن ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا دل دنیا سے محبت کرتا ہے
اور وہ شبنمی پھول کی طرح پگھلتی ہے
میرے خون میں
بہت آہستہ آہستہ
سمندر سے پہاڑوں کی طرف بہتی ہے
آنکھوں کو نیلاہٹوں
اور صبحوں کو لالی سے بھرتی ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرا دل دنیا سے محبت کرتا ہے
میں محبت کرتا ہوں اور اپنے خون سے
اس کی تصویریں اور خاکے بناتا ہوں
مکئی کی بالیاں اور ستارے اب چمکتے نہیں ہیں
کوئی تھک چکا ہے اور اپنے سر کو جھٹکتا ہے
کِسی نادیدہ چیز کی طرف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کہا جاتا ہے کہ میں بوڑھا ہوگیا ہوں
اور اچھلنا کودنا بھول چکا ہوں
اور مسکراہٹ ٹوٹے تنکوں جیسی ہے
اور آپ کیسے کہیں کہ
سنہری شہد کے قطرے جیسی آنکھیں
دنیا پر حکمرانی کے لیے بے تاب ہیں
اور جو صبح کے سورج پر چمکتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے خواب کہیں کھو گئے ہیں
میری جیب میں صرف سب سے چھوٹا خواب ہے
میں لٹ گیا تھا
میں نے سورج سے کہا
سورج جو راتوں کا پیچھا کرتا ہے
اور پھر راتوں کے جھرمٹوں کے پیچھے رہتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سچی بات ہے ایسی بے باک اور گہری شاعری جو اس کے منہ سے نکلنے کے ساتھ ہی کوٹھوں چڑھ جاتی تھی۔
وہ لکھ رہا تھا اور لکھتا چلاجارہا تھا۔چینی روایتی شاعری سے باغی ہوکر۔اس کے کام کی جدّت ،اس میں چھلکتا نیاپن نہ صرف اس کی فکر میں تھا بلکہ یہ اسلوب میں بھی نمایاں ہوا۔اس کی ہر تخلیق اپنے انداز میں ایک نئی تبدیلی کی مظہر تھی۔ اور اسی چیز نے اُسے چین کی ڈھائی ہزار سال کی شاعری میں بہت نمایاں کردیا تھا۔
جس سے پیار کیا وہ شی xie xieye تھی۔ برلن میں ٹکراؤ ہوا جہاں گو Gu جرمن اکیڈیمک فیلو شپ کے تحت مقیم تھا۔Xieyeنے اُسے بہت پسندیدگی سے دیکھا۔سراہا اور اس کے ساتھ رہنے کی شدید خواہش کی ۔اُسے اپنی چینی روایات سے پیارتھا۔گو کی شاعری سے عشق تھا۔یہی وجہ تھی کہ دوبارہ جلاوطنی مقدر ہوئی۔یہ نیوزی لینڈ کے ایک نسبتاً سنسان سے جزیرے Waiheke پر ہوئی توشی Xie بھی ساتھ تھی۔
پھر ایک عجیب حادثہ ہوا۔اس نے اپنی بیوی کو کلہاڑے سے زخمی کردیا۔اور جب اسے اسپتال لے جایا جارہا تھا وہ راستے میں ہی ختم ہوگئی۔
اپنی بیوی کو مارنے کے بعد اس کے ہاں جو ردّعمل پیدا ہوا وہ بھی کچھ اس کی غمازی کرتا ہے کہ وہ حملہ کرنے اور اس کا خون بہتا دیکھ کر اتنا ہراساں ہوا کہ گھر سے بھاگ کر اپنی بہن کے پاس گیا اور اعتراف کیا کہ اس سے ایک بھیانک جرم سرزد ہوگیا ہے۔
اور پھر ایسی ہی ذ ہنی کش مکش میں اس نے اپنی زندگی کا بھی خاتمہ کرلیا۔اس وقت وہ صرف 37سال کا تھا۔
اب کیسے ممکن ہے کہ یہ سوال پیدا نہ ہو کہ کِسی بھی لکھنے والے کی غیر فطری موت زیر بحث نہ آئے۔لکھنے والا اور وہ بھی اچھا لکھنے والاجس نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہو۔اس کی زندگی اور موت کے بخئیے نہ ادھیڑیں ۔چین کا یہ عظیم اور جدید شاعر بھی اِس زد میں آیا کہ اس کے المناک اور وحشت بھرے انجام کو لوگوں نے اس کے کام کے ساتھ نتھی کردیا تھا۔
پہلا المیہ تو یہی تھا کہ والدین کے ساتھ پہلی جلاوطنی کا سارا وقت بڑی غربت میں گزرا۔بیجنگ واپسی کے بعد انقلابی شاعری اور مسٹی شاعروں کی صف میں نمایاں شمار نے بھی حکومت کی مخالف صف میں کھڑا کردیا۔تھین آن من سکوائر میں اس کے کردار کو کوئی بھی نظرانداز کرنے کو تیار نہ تھا۔
چینی اخبارات میں اس پر بڑی لے دے ہوئی۔اس ضمن میں بہت سے انکشافات ہوئے۔یہ بات بھی کہی جانے لگی کہ وہ زندگی کے بہت آغاز سے ذ ہنی بیماری کا شکار تھا۔
گو کوئی پہلا نمایاں شاعر نہیں ہے جس نے اپنی بیوی کو قتل کیا۔اس ضمن میں ولیم Burroughاور بوئسAlthusserدونوں نے بھی اپنی بیویوں کو قتل کیا۔گو حالات کی نوعیت بھی اس کی سنگینی کو کم زیادہ کرتی ہے۔
Althusserذ ہنی طور پر بیمار جبکہ Burroughsنے ولیم یٹل کے ساتھ کثیر مقدار کی شراب نوشی کے بعد یہ حرکت کی تھی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا گوبھی ذہنی طور پر بیمار تھا مگر شاید نہیں۔اس کی عسرت زدہ زندگی اور جزیرے پر تنہائی کی زندگی اس کی ذمہ دار ہوسکتی ہے۔
اب جو داستان حیات کا ورق سن رہی تھی وہ بھی تو کچھ کم حیرت انگیز نہ تھا۔ Xie yeسے اس نے محبت کی تھی۔اس سے شادی کی تھی۔اس سے ایک بیٹا بھی تھا Sam۔نیوزی لینڈ کے اُس ویران جزیرے پر وہ اس کے ساتھ تھی۔تو پھر اُسے کلہاڑے سے مارنے اور خودکشی کرنے کی کیا افتاد آن پڑی تھی۔
چلئیے پہلے ذرا اس کی تفصیلات میں چلتے ہیں۔کیونکہ مجھے تفصیل میں جانے سے بہت دلچسپی تھی۔
اکثر بڑے لوگوں کی طرح،اکثربڑے شاعروں کی طرح اس میں بھی کچھ عجیب سی عادتیں تو تھیں ۔ضدی تھا۔Waihekeجزیرے پر انگریزی سیکھنے سے تو وہ سیدھے سیدھے فرنٹ ہوگیا کہ اس کا کہنا تھا کہ یہ اس کی چینی زبان میں لکھنے کی صلاحیت کو متاثر کرے گی۔قطع نظر اس کے یہ بات دانشمندانہ تھی یا نہیں۔اس کے اندر اِس سلسلے میں ہٹ دھرمی تھی۔
ایک اور بھی بڑی انوکھی سی عادت اُسے اکیلے گھومنے پھرنے کی تھی۔سر پر پتلون کی کٹی ہوئی ٹانگ کا ایک ٹکڑا دھرا ہوتا۔یہ بڑا عجیب سا لگتا تھا ۔جب اُسے پوچھا جاتا کہ ایسا کیوں کرتے ہو؟وہ جواباً لمبی چوڑی گفتگو کرتا اور مخاطب کو بتاتا کہ یہ اس کے خیالات کی حفاظت میں بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔
مخاطب اس کی احمقانہ بات پر قہقہ ضرور لگاتا۔
Guاور Xie yeکی موت پر عوامی توجہ نے شدت اس وقت کھینچی جب ان میاں بیوی کی کتاب The kingdom of girls Yingerچھپی۔Xieکا تو اس میں بس تھوڑا سا ہی حصّہ تھا۔یہ ہے تو ناول کی شکل میں مگر Guکی زندگی کی عکاس ہے۔ اب جو داستان حیات میں سن رہی تھی۔
یہ کتاب بہت سے رازوں سے پردے اٹھاتی ہے اور ناول کا مرکزی خیال بھی دونوں کے تعلقات کے ساتھ Li yingنامی لڑکی کے کردار کو بھی نمایاں کرتی ہے جو جزیرے پر ان کے ساتھ رہتی تھی اور گو کی دوست تھی۔
لی Li گوسے اپنے زمانہ طالب علمی سے شناسا تھی جو رفتہ رفتہ محبت میں بدل گئی تھی کہ دونوں کے درمیان خطوط کا تبادلہ مسلسل رہا۔حتیٰ کہ 1989میں لی نیوزی لینڈ کا ویزا حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔یہ ویزا اس نے تھیان آن من سکوائر کے واقعے بعد سیاسی پناہ کے طورپر حاصل کیا تھا۔
حیرت انگیز طور پر لی ینگLi ying کا جزیرے پر آنا اور ان کے ساتھ رہنا بھی خاصا وجہ تضاد رہا۔ لی نے بھی Heart broken on Waiheke نامی کتاب لکھی جس میں اس نے اس گھر میں ان کے ساتھ رہنے کے تجربے کو اپنی امیدوں اور مایوسیوں کے ساتھ قارئین سے شئیر کیا۔لی نے یہ بھی لکھا کہ اُسے تو اِس کا اندازہ ہی نہیں تھا کہ گو اُس سے جنسی تعلقات قائم کرنے کا بھی خواہش مند تھا۔
یہاں دونوں کتابوں کے مطالعے سے یہ پتہ نہیں چلتا ہے کہ Xie ye کے احساسات و جذبات لی کے جزیرے پر آنے کے بعد کیسے تھے۔بہرحال یہ واضح ہے کہ دونوں عورتوں میں دوستی کا رشتہ استوار ضرور ہوگیا۔ہاں دونوں کے درمیان حسد یا لڑائی جھگڑے کا پتہ نہیں چلتا۔تاہم گو ضرور جیلسی محسوس کرتا تھا۔
گو کا رویہ بہت عجیب ہوگیا تھا۔وہ Xie کے ساتھ ساتھ بیٹے کو بھی اذیت دینے لگاتھا۔ Xie نے نوسالہ بیٹے کے ساتھ فرار کی بھی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہوئی۔معلوم ہوجانے پر بیٹے کی بھی پٹائی شروع کردی۔اِس طرح تشدد کے آئے دن اظہار پر سام بیٹے کو سکول کی ایک ٹیچر کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔
Xieلکھتی ہے۔اب ایسے تلخ اور پرآشوب حالات میں میرے احساسات و جذبات کیا ہوں گے۔اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔کیسے ہم دو سے تین بنے اور کیسے ہماری زندگی جہنم بن گئی کہ ہم ایک دوسرے کی صورت بھی دیکھنے کے روادار نہ رہے۔
اس حقیقی کہانی کا انجام کتنا ڈرامائی تھا کہ Xie نے برلن میں کسی سے تعلقات استوار کرلیے تھے۔اور Li بھی کِسی مارشل آرٹ کے درمیانی عمر کے انسٹرکٹر سے ناطہ جوڑ بیٹھی تھی۔دونوں کے معاشقوں کی خبر گو کو ہوگئی تھی۔
Xieبیٹے کے ساتھ فرار ہونے کے چکر میں تھی جب گو نے اُسے قتل کردیا اور خود کو بھی مار ڈالا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply