ٹھہرے موسم میں بکھرتی ہوئی نظم/حامد یزدانی

ٹھہرے موسم میں بکھرتی ہوئی نظم

باغ کیا ہے نِرا بیاباں ہے

شاعری حرف سے خفا ٹھہری

آنکھ شاید ہے خواب سے گہری

چاندنی چاند سے گریزاں ہے

اک مگر جگمگا رہا ہے کوئی

گوشۂ ضبط کی نمی سے پرے

وادیٔ جاں کی روشنی سے پرے

جانے کیوں یاد آ رہا ہے کوئی

ہجر آمادہ اک مہک کے تلے

پتّی پتّی بکھرتا پیماں ہے

کوئی خواہش نہ کوئی ارماں ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

رنج کا آخری پڑاؤ جلے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply