ٹھہرے موسم میں بکھرتی ہوئی نظم
باغ کیا ہے نِرا بیاباں ہے
شاعری حرف سے خفا ٹھہری
آنکھ شاید ہے خواب سے گہری
چاندنی چاند سے گریزاں ہے
اک مگر جگمگا رہا ہے کوئی
گوشۂ ضبط کی نمی سے پرے
وادیٔ جاں کی روشنی سے پرے
جانے کیوں یاد آ رہا ہے کوئی
ہجر آمادہ اک مہک کے تلے
پتّی پتّی بکھرتا پیماں ہے
کوئی خواہش نہ کوئی ارماں ہے
Advertisements
رنج کا آخری پڑاؤ جلے!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں