گھٹیا افسانہ نمبر 28۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

میں صدارت کی کرسی پہ براجمان ہو چکا ہوں۔ پرنسپل کی سیٹ سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ میں کسی تقریب کی صدارت کر ریا ہوں۔ تمکنت میرے چہرے سے جھلکے یا نہ جھلکے مگر اُس کی پیدائش لازمی جزو ہے۔ تلاوت کلام پاک، نعت رسول مقبول، ملی نغمہ، دو طالبعلموں کی اردو اور انگریزی تقاریر کے بعد ایم پی اے مخدوم منظور احمد رضا بھنبھوری، پھر ایک ملی نغمہ، پھر سینیٹر عبداللہ حیدر قدوسی اور اب میرا نام بطور صدر مقرر پکارا جا رہا ہے۔ ساری زندگی کئی شخصی کرداروں کا حامل بندہ بھی جب جھوٹ بولنے کے لیے پَر تولتا ہے تو اندر سے ایک نہ ایک بار آواز سنائی دیتی ہے، اُس کو آرام سے تھپکی دے رہا ہوں کہ یہ وسطی پنجاب کے چند بڑے کالجز کے پرنسپل کی تقریر ہے، کسی بائیں بازو کے جلسے میں نہیں ہوں، مسکراتا ہوا روسٹرم پہ لگے مائیک کو ٹھیک کر رہا ہوں۔

“معزر اراکینِ محفل خصوصاً جناب سیدی ایم پی اے صاحب، جناب سینیٹر قدوسی صاحب، جملہ اساتذہ و پروفیسر صاحبان، جملہ سٹاف اور پیارے پیارے ہونہار طلبا و طالبات السلام علیکم و رحمۃ اللہ اور سب کو میری طرف سے جشن آزادی مبارک۔ یوم آزادی پاکستان یا یوم استقلال ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن اور آزادی کی تحریک کی یاد میں منایا جاتا ہے”۔ میں دل ہی دل میں ہلکا سا مسکایا کہ یہاں بھی شکوک و شبہات بہرحال موجود ہیں کہ پاکستان 14 کو بنا یا پھر 15 کو بنا، لیکن اس معاملے کو ذاتی طور پر ایسا اہم نہیں سمجھتا ہوں کیونکہ پاکستان 14 کو بنے یا 15 کو بنتا بن تو گیا ہے ناں۔ نتائج 14 کو بھی وہی ملنے تھے اور 15 کو بھی وہی نتائج ملنے تھے۔ “یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا”۔ اچھا بعض موضوعات ایسے ہوتے ہیں کہ ایک ایک جملے پہ ہنسی نکلتی ہے۔ انگلستان دنیا بھر میں سامراجیت کا دفاع کرکر کے، عوامی تحریکوں، مسلح مزاحمتوں اور مسلسل جنگوں کی وجہ سے نڈھال تھا، ہندوستان جیسے وسیع ملک پہ براہ راست حکمرانی کرنا ناممکن ہو چکا تھا، جاتے جاتے مقبوضہ علاقے کو تقسیم کرکے اپنی بالواسطہ حاکمیت کے بیج بو گیا تھا۔ خیر میں نے یہ باتیں یہاں ادھر تو نہیں کرنی ہیں، لہذا بات بلاتعطل آگے بڑھا رہا ہوں کہ
“یہ دن پاکستان میں قومی بنیادوں پر قومی تہوار کے طور پر خاصے جذبے اور محبت سے منایا جاتا ہے۔ پاکستان کے رہنے والے آج کے دن قومی جھنڈا فضا میں بلند کرتے ہیں، پوری قوم اپنے محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔ سرکاری سطح پر اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جا رہا ہے۔ اسلام آباد جو مملکت خداداد پاکستان کا دارالخلافہ ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جا رہا ہے، دیگر بڑے شہروں سے بھی کسی جشن کے سماں والی خبریں آ رہی ہیں، لوگ خوشی منا رہے ہیں۔ اور یہیں ایک قومی سطح کی مرکزی تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کر رہے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس ملک کو بھی بلندی کے افق تک لے جائیں گے۔ ان تقاریب کے علاوہ پورے وطنِ محبوب میں سرکاری و نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تاب سے قومی عروج کی مثال پیش کر رہا ہے۔ آج یعنی یوم اسقلال کے روز ہر جگہ ہر ریڈیو، ہر ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پہ ہر جگہ براہ راست صدر اور وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا رہا ہے اور ہر سننے والا بھی اپنے پیماں اپنے وعدے اپنے وچن کی تجدید کر رہا ہے کہ ہم سب یکجان ہو کر اس وطن عزیز یعنی تحفہ خداوندی کو عظمت، خوشحالی اور ترقیوں کی بلند ترین سطح پہ لے جائیں گے”۔ میرا سانس پھول رہا ہے۔ میں یہ باتیں یوں اپنے منہ سے نکال رہا ہوں جیسے کسی نے میرا گلا دبا رکھا ہے اور میں زور لگا کر نارمل طریقے سے بولنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ سامنے کی نشستوں پہ بیٹھے ایم پی اے نے پہلی جمائی لی ہے، پہلی لی ہے یا شاید میری پہلی نظر پڑی ہے۔ تالیوں کے بعد میں نے بات شروع ہی کی ہے کہ ہال کے بالکل اخیر والے طلباء میں بدمزگی سی دکھائی دے رہی ہے۔ دو اساتذہ اٹھ کر پیچھے کی طرف گئے ہیں، لیکن بدمزگی ایسی بھی نہیں کہ مجھے رکنا پڑے، لہذا بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “سرکار کی طرف سے یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے منانے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عہدہ داران اپنی حکومتی کامیابیوں اور بہترین لائحہ عمل کا تذکرہ کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستانی عوام کے ساکنے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم دن رات سردی گرمی تن من دھن کی بازی لگا کر اس قوم کو عروج کی راہ پر لگا کر دم لیں گے۔ اور ہمیشہ اپنے عظیم رہنما امیر کارواں جلیل القدر سیاستدان جناب حضرت قائد اعظم محمد علی جناح رحمتہ اللہ علیہ کے فرمان یعنی ایمان، اتحاد اور تنظیم سے خوف وفا داری کریں گے”۔ پیچھے سے آوازیں بلند ہو رہی ہیں، سیانے طلباء نے میرے جملے کے آخر پہ بھرپور تالیاں بجانا شروع کر دیں ہیں کہ بدمزگی تالیوں میں ختم ہو گئی ہے۔

میرے لیے بات کرنا مشکل ہو رہی ہے۔ یہ طلباء وہی کام کر رہے ہیں جو میں کرتا رہا ہوں۔ یہ وہی نعرے لگا رہے ہیں جو میں لگاتا رہا ہوں۔ میں کئی لوگوں کو تقریر کرنے سے روک دیا تھا۔ میں نے ایک مقرر سے مائیک چھین کر سٹیج سے اتار دیا تھا۔ لیکن سب سے زیادہ چبھن نعروں کی وجہ سے ہو رہی ہے۔ ایک نعرہ تو میری اپنی ایجاد ہے۔ ساری قوم پرستی جو یہ طلباء کر رہے ہیں میری زندگی بھر کی جدوجہد رہی ہے۔ میں کسی آئینے کے سامنے کھڑا مسکرا رہا ہوں۔ خودکلامی والا سین چل پڑا ہے۔ پرنسپل صاحب تم تو قوم پرستی کی جدوجہد میں مصروف ہوا کرتے تھے، جناح کے معاہدہِ تقسیم کے بڑے ناقد تھے۔ فیڈریشن کے بڑے مخالف تھے۔ میں نے فوراً آئینے میں خود کو آنکھ ماری ہے اور ہال کی طرف متوجہ ہوا ہوں۔ ہال ابھی تک میری طرف متوجہ ہے۔ میں بات جاری رکھے ہوئے ہوں کہ “مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ میری شناخت، میری پہچان ہے اور دنیا بھر میں میرا مان بھی ہے، یہ میرے ایمان کی طرح ہے۔ اس پاکستانی لفظ سے میرا وہ انمول تعلق ہے جو کسی تتلی کا رنگین پر کے ساتھ ہوتا، ایک پنچھی کا اہنی اڑان سے ہوتا ہے، اور کسی شخص کا اپنے نام کے ساتھ ہوتا ہے۔ یہ قابل فخر شناخت میرے آباء و اجداد کی نسلوں نے بڑی طویل تگ و دو، ناقابل مصالحت جدوجہد، اور بےشمار قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے۔ اب ہم اسے برقرار رکھ رہیں ہیں اور اس پر فخر کر رہے ہیں۔ یہ میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اپنے آباء کی چھوڑی ہوئی جائیداد اور وراثت پر اپنا حق سمجھتا ہوں اور صرف میرا ہی کیوں، یہ تو ہر اس شخص کا حق ہے جو اس مملکتِ خداداد میں رہتا ہے، اور وہ کونے کونے میں اپنے ساتھ یہی پہچان رکھتا ہے۔

گزشتہ سات دہائیوں میں پاکستان کی جو نسلیں پیدا ہوئی ہیں اور پاکستان میں جوان ہوئی ہیں، ان کے شعور، نظریات اور خیالات میں مسلسل کئی تبدیلیوں نے جنم لیا جن کی وجوہات میں یقیناً بڑی حد تک پاکستان کے حالات، مختلف وقتوں میں پیش آنے والے بڑے واقعات، سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل، ان کے اسباب اور بنیادی سہولتوں کی عدم دستیابی اور روز مرّہ مسائل شامل ہیں۔ آج کی موجودہ نسل پاکستان سے محبّت، عقیدت اور انس تو ضرور رکھتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو ان کے خون اور گھٹّی میں شامل کرکے ملی ہے۔ لیکن وطن پرستی کا کا وہ عشق، وہ جنون اور وہ دیوانگی جو ہمیں اپنے سے پچھلی نسل میں نظر آتا تھا، آج نظر نہیں آتا ہے۔ ملک بھر میں صفائی، ستھرائی، اور بلدیاتی معاملات کی نااہلیوں پر بات کرتے ہم خود ان لوگوں میں شاملِ ہیں جو سفر کے دوران کھڑکی کھول کر ریپر اور گندگی سڑک کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ٹریفک کی بری ترین حالت پر ٹریفک پولیس کو گالیاں دینے والے ہم خود بھی کئی گاڑیوں کا راستہ روک کر پہلے ہی نکل جانے کا راستہ تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ رشوت کے خلاف لمبے لمبے دلائل دینے کے بعد اور رشوت لینے والے افسروں اور اداروں پر لعنت ملامت کرنے کے بعد ہم خود بھی ڈرائیونگ لائسنس، شناختی دستاویزات، پاسپورٹ اور دیگر کاغذات کے لیے، حتی کہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر جو کہ ہمارا سراسر جرم اور قانون کے خلاف ہماری آزادانہ غلطی ہوتی ہے پر بھی چالان بھرنے کی بجائے رشوت دینے کی کوشش کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں”

ہال تالیوں سے، میرا لہجہ جذبات سے اور میرا دل قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ لوگوں کو یعنی سامعین کو معمولی اور غیراہم معاملات میں الجھا کر ہی بڑے اور خطرناک معاملات سے گریز کیا جا سکتا ہے۔ کیا ضرورت ہے مہنگائی، بدحالی اور بدامنی کا رونا پیٹا جائے، اور نتیجے میں یہاں کی لوکل ایلیٹ سے تعلق بھی خراب کر لیا جائے۔ لہذا انفرادی اصلاح کانظریہ ہی بہتر ہے کہ اگر قوم کو ترقی دینی ہے تو پہلےخود کو ترقی دو۔ ملک بدلنا ہے تو پہلے اپنے آپ کو بدلو، نظام بدلنا ہے تو پہلے خود کو بدلنا ہو گا۔ یہی باتیں ہی بہتر رہتی ہیں۔ کیا ضرورت ہے کہ ہم ریاستی طریقہ واردات، ایک مخصوص طبقے کی رکھیل اور محافظ کے طور پہ پیش کریں۔ کیا ضرورت ہے کہ ملک بھر سے وسائل کی لوٹ مار کو جاری رکھنے کے لیے بدامنی کا ڈرامہ رچانے پہ ریاست کو لتاڑ دوں۔ مجھے اپنے عہدے کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔ میں نے بات جاری رکھی ہوئی ہے کہ “عین ممکن ہےکہ ہال میں موجود اکثریت میری اس رائے سے اتّفاق نہ کرتی ہو اور ماضی کی حکومتوں، اور ان کی نالائقیوں کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومتِ کی نااہلیوں کو بھی ان تمام مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔ مجھے اس رائے سے بھی اتفاق ہے کیونکہ یہ بھی ایک روشن اور واضح حقیقت ہے مگر۔۔۔ پھر بھی۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ کہنے میں کی اجازت دی جائے کہ بحیثیتِ پاکستان کے ذمہ دار اور وفا دار شہری ہم سب بھی اپنے قومی و شہری فرائض کس بھول کر وقت گزار رہے ہیں اور اب تو یہ معاملہ اتنا شدت اختیار کر گیا ہے کہ اپنی انتہائی حدوں کو چھو رہا ہے”۔ ڈائس پہ مکہ مارنے والے سین نے چار چاند لگا دیئے ہیں۔

ہال گرم جوش تالیوں کی آواز سے گونج رہا ہے۔ مجھے پسینہ آ گیا ہے۔ منچلے اور شوخے لڑکے نعرے لگا رہے ہیں۔ ہال گونج رہا ہے۔ مجھے ہنسی آ رہی ہے، جو سینے میں جنم لیتی اور پھر وہیں دفن ہو رہی ہے۔ مصلحت کا گورگن پسینے میں شرابور گور در گور اِن ہنسیوں کو دفنائے جا رہا ہے۔ بڑے بڑے گورگن دیکھے ہیں، خوف کا گورگن بھی بہت تیز-رفتار ہے مگر مصالحت کا گورگن جس تیزی سے قبریں کھودتا ہے وہ ناقابل بیان حد تک جادوئی ہے۔ میری جادوگرانہ تقریر بھی جاری و ساری ہے کہ “انڈیا میں آج بھی مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ اور جبر کے پتھر ڈھائے جا رہے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر بھی بھارت کے جبر و ستم کی مثالوں میں سے ایک مثال ہے۔ آج اگر میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و ستم دیکھ رہا ہوں تو مجھے احساس ہو رہا ہے کہ آزادی کیسے عظیم ترین نعمت ہے”۔ بار بار دل تو کر رہا ہے کہ سندھ، بلوچستان، پنجاب اور خیبر ایجنسی کے ساتھ ساتھ ہر جگہ ہونے والے ریاستی جبر کی مثالیں پیش کروں مگر یہ پرنسپل کی کرسی میری زبان کو درازی کی جرات دے ہی نہیں رہی۔ میں نے تقریر جاری رکھی ہوئی ہے کہ” میرے عظیم دور اندیش راہنما قائد اعظم محمد علی جناح کی فہم و فراست نے ہم پر احسان کیا ہے کہ ہم وہ احسان کبھی بھی نہیں اتار سکتے ہیں۔ مگر ہم پاکستان کو جناح کا پاکستان بنا کر قائد اعظم محمد علی جناح کی روح کو خوشی اور مسرت پہنچنے کی سعی تو کر سکتے ہیں۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ لوگ اپنی اپنی عبادت گاہوں میں آزاد ہیں اور کسی کے مذہب سے ریاست کو کوئی سروکار نہیں ہوگا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

اچھا ایک دو بار تو دل کیا کہ حقیقت سے تھوڑا سا پردہ بھی سرکایا تو انتظامیہ اور اس کی مشینری کی نظر میں ناقابل اعتبار بنا دے گی۔ لہذا باتوں سے باتیں نکال کر تقریر کو خاص ردھم میں اختتام کی طرف لے کر جا رہا ہوں کہ “کیا قائداعظمؒ اور علامہ اقبالؒ نے اسی پاکستان کا خواب اپنی آنکھوں میں روشن رکھا ہوا تھا؟ میں آپ کو بتاتا چلوں کہ تحریک آزادیِ پاکستان کے دوران قائداعظم سے جب جب یہ سوال پوچھا جاتا تو وہ فرمایا کرتے ہمیں خداوند تعالیٰ نے چودہ سو سال قبل قرآن کی شکل میں آئین اور دستور عطاء کیا تھا۔ یہی پاکستان کا آئین اور دستور بنے گا۔ ہمیں کسی دوسرے دستور کی ضرورت یکسرنہیں ہے۔اس ملک عزیز کو اسلام کے نام پر بنایا کیا گیا ہے۔ اتنے سال گزر گئے ہیں پھر بھی اسلامی جمہوری پاکستان بنانے کے قابل نہیں ہوسکے ہیں پاکستان حاصل کرنے کیلئے جن نسلوں نے قربانیاں دیں اب ان کی نسلوں کو ترقی یافتہ اسلامی پاکستان کی تعمیر کی فکر لاحق ہونی چاہیے”۔

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply