خضدار کے مضافات کی سیر/شمیم غوری

میٹھی عید 2023 کے دوسرے دن یعنی اتوار کوہم تین بندے کراچی سے صبح ساڑھے چھ بجے نکلے، میں اپنی جی ڈی 110 سوزوکی پر اکیلا تھا۔امین بلوچ اپنے بھائی نذیر بلوچ کی جی ڈی 110 سوزوکی پر اپنے بھانجے فراز کے ساتھ تھے۔فراز خضدار یونیورسٹی میں الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتے ہیں ۔ 72 کلو میٹر پر وندر کے حسن ہو ٹل پر ناشتہ کیا۔اس کے بعد بیس کلو میٹر پر بائیں جانب جھیل سرندہ کی سیر کی، یہ جھیل سڑک سے دو کلو میٹر اندر ہے۔ بارش کے پانی کی جھیل ہے۔زیرو پوائنٹ،اوتھل اور بیلہ کو کراس کیا۔بیلہ میں اندر کو جاکر لسی پی۔اوتھل کراچی سے 122 اور بیلہ 176 ہے۔راستے میں گھر سے 198 کلو میٹر پر مائی گوندرانی کا بورڈ نظر آیا ،یہ شہرِ غاراں /شہر ِروغاں/ماہی پیر کے نام سے ایک چھوٹی سی غریب درگاہ ہے ۔یہاں سے آگے اورناچ کا اسٹاپ ہے جو کراچی سے 338 کلو میٹر پر ہے۔اورناچ آبشار بلوچستان جانے والے بائیکرز کے لئے بہت مشہور اور اہم جگہ ہے۔ ہر وہ جگہ جو مشکل ہو، وہ بائیکرز کی پسندیدہ جگہ ہوتی ہے۔فراز کے ساتھی کلاس فیلو وہاں کے مقامی ہیں، ان کی قیادت میں ہم اورناچ آبشار پہنچ گئے،اسے یک تنگی بھی کہتے ہیں۔ یہ مین روڈ سے 30 کلو میٹر اندر ہے جس میں آدھا آف روڈ ہے۔مقامی کے بغیر وہاں بھٹکنے کا پورا پورا اندیشہ ہے۔یہاں کراچی کے کچھ بائیکرز بکرا کاٹ کر پکانے میں مصروف تھے۔انہوں نے ہمیں کھانے کی دعوت دی لیکن ہمارے پاس وقت نہ تھا۔

فراز کے کلاس فیلو نے کھانے کے لئے بہت زور دیا لیکن ہمارے پاس اتنا وقت نہ تھا۔اورناچ اسٹاپ سے آگے کوئی چالیس کلو میٹر پر وڈھ کا اسٹاپ ہے اس کے آگے پیچھے کہیں کھانا کھایا۔اپنا کھانا گرم کرایا روٹی ان سے لی ،چائے پی۔پٹھان تھا اس نے سالن گرم کرنے کے سو روپے لے لئے۔آئندہ کے لئے طے کیا کہ روٹیاں لیں گے، کسی درخت کے نیچے اپنے منّے سے گیس کے چولہے پر کھانا گرم کریں گے اور خوش رہیں گے۔

شام ساڑھے پانچ بجے ہم 450 کلو میٹر طے کر کے خضدار یونیورسٹی کے ہوسٹل میں پہنچ گئے۔یہاں سے ایک محترم فیصل صاحب نے ہمیں ایک ہوٹل پر شرف ِ ملاقات بخشا۔جھالاوان کمپلیکس کے علاقے میں یہ ہوٹل تھا۔عجیب ہوٹل تھا۔بہت سی  گاڑیا ں یہاں وہاں پارک تھیں کوئی پچاس سے زائد تھیں ۔کوئی خالی پلاٹ پر بیٹھا ہے کوئی نیچے بیٹھا ہے کوئی زیر تعمیر پلاٹ پر بیٹھا ہے ،یعنی دور دور تک لوگ بیٹھے تھے اور چائے چل رہی تھی۔اصل ہوٹل کی تو میں نے شکل ہی نہیں دیکھی۔ہمیں یہاں سے ٹوور کے ٹپ لینے تھے۔فیصل صاحب نے ہمیں بہت منع کیا کہ آپ جیپ لے لیں۔وہ خود بھی سیاحوں کو ان علاقوں میں جیپ پر لے جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آپ بائیکس پر چھاروماچھی نہیں جا سکتے۔، بہت خراب راستہ ہے۔ بعد میں ثابت ہو اکہ انہوں نے درست کہا تھا۔انہوں نے ہمیں ایک کاغذ پر چھارو ماچھی،مولا چٹک، پیر ابراہیم کے راستوں کا نقشہ بنا کر دیا۔کیونکہ یہ مفت بنا کر دیا تھا اورفیصل صاحب نے چائے بھی اپنے پاس سے پلائی تھی اس لئے امین بلوچ نے اس کی قدر نہ کی اور اسے راستے میں کہیں اڑا دیا جس کے اثرات ہمیں آ ئندہ بھگتنے پڑے۔ چائے سے فارغ ہو کر ہم بلوچستان ریزیڈنشل کالج کے پروفیسر انعام اللہ  صاحب کے پاس گئے۔انہوں نے اتنی خاطر کی کہ حد نہیں ۔ وہاں سے پُرباش ہو کر ہوٹل آئے اور سو گئے۔

پیر کو صبح سردی تھی اس لئے دیر سے نکلے۔یونیورسٹی سےقنبر شہداد  کوٹ روڈ پر آئےیہاں چائے پراٹھے کا ناشتہ کیا ۔یونیورسٹی سے کوئی 50 کلو میٹرپر چھارو ٹرن آیا۔ یہیں سے بائیکرز کا میلہ شروع ہو گیا۔ بہت سی بائیکس آجا رہی تھیں۔ بلوچ نوجوان بالکل نوعمر ایک ایک چائنہ 70 پر دو دو تین تین اور کہیں تو چار بھی جا رہے تھے۔عید کی چھٹیاں تھیں ،سب انجوائے کر رہے تھے۔ انہیں کچا، پکا چڑھائی، اترائی ،پہاڑ،ریت،پانی ،گریول، ندی ،نالہ کچھ نہیں کہہ رہاتھا ہم گرے پڑے جا رہے تھے۔یہاں سے آف روڈ شروع ہوا۔ کچھ دور کچا تھا پھر پہاڑیاں شروع ہوئیں۔ میں تو پہلی چڑھائی پر ہی اٹک گیا ۔ پتھر ٹائر کے نیچے سے نکل رہے تھے اور بائک وہیں کی وہیں تھی۔ امین بھاگ کرآئے اور میری بائک لے لی۔اب کبھی میں پیدل کبھی بائک پر۔چڑھائیوں پر سانس پھول گیا۔ابھی اصل چڑھائی جو گرّو کی چڑھائی کہلاتی ہے وہ باقی تھی۔اس سے ہمیں سب نے ڈرایا ہوا تھا۔ ہم ہر مشکل چڑھائی کو کرّوکی چڑھائی سمجھ کر خوش ہوتے رہے کہ چلو مشکل چڑھائی ختم ہوئی۔پھر آخر کرّو کی چڑھائی بلکہ اترائی آہی گئی ۔بڑی مشکل سے وہاں سے بائکس اتاریں۔اللہ اللہ کر کے 43 کلو میٹر کے بعد ساڑھے تین بجے ہم اس پوائنٹ پر پہنچے جہاں سے مزید پیدل کا سفر شروع ہوتا ہے۔یہاں تو کئی سو بائکس کھڑی تھیں۔ کھانے پک رہے تھے،بلوچی گانے لگے تھے،چائے بن رہی تھی، ڈانس ہو رہے تھے۔کچھ اس درخت کے نیچےکوئی اس کھجو ر کے نیچے کوئی اپنا کیمپ لگائے ہےکوئی اوپر چادر تانے ہے،سیلفیاں فوٹو خوب چل رہے تھے۔زبردست میلہ تھا۔۔پہاڑی ندی کے ساتھ ساتھ کوئی اوپر جارہا تھا کوئی واپس آرہاتھا۔

یہاں ہم نے چاول بریانی پکائی جو نامعلوم کیوں چاول بھت بن گیا۔ مزیدار تھا۔ یہاں خضدار کے گونگے بہرے طلبا کے اسکول کا ایک گروپ آیا ہوا تھا جنہوں نے ہمیں چائے پلائی۔ہم نے گاڑیاں اور کچھ سامان پارکنگ والے کے حوالے کیا۔ اور رات کے کھانے کی بریانی لے کر اوپر کی جانب چل دئیے،کوئی ڈیڑھ گھنٹہ لگا ہوگا اوپر پہنچنے میں۔ ہر اونچے قدم پر فراز اور امین نے میرا ہاتھ پکڑ کر اونچائیاں پار کرائیں اس کے باوجود ایک جگہ جو پیر پھسلا تو میں سیدھا کئی فٹ پانی کے اندر۔ہمارے ایک مشہور بائیکر بشیر بلوچ بائیک سے گرنے کو کریش لینڈنگ کہتے ہیں۔ وہ تو میں پہلی چڑھائی پر کر چکا تھا۔اب ایمر جنسی sea لینڈنگ کر گیا۔ شام پانچ بجے تھےسردی سی بھی تھی پورا گیلا ہو گیا۔پچاس ہزار کا موبائل پورا اشنان کر گیا گنگا نہا لیا۔پرس ماچس،جس کاغذ پر کلو میٹر اور خرچ کا حساب تھا سب گیلا ہو گیا۔شکر ہے چوٹ نہیں لگی۔ امین بھائی نے ایک ٹراؤزر اور شرٹ دے دی تو جان میں جان آئی۔

اس چھاروماچھی کے تین تالاب ہیں۔ایک تک تو میں چلا گیا۔یہاں میں نے کیمپ لگانے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ کسی غلطی سے اس کی چار اسٹکس راستے میں گر گئی ہیں۔چادر بچھائی اور یہی کیمپ ہوگیا۔امین اور فراز دونوں دوسرے تالاب تک گئے۔اور واپس آگئے۔ رات میں وہیں قیام کیا۔تاروں بھری سہانی رات،تین جانب کئی سو بلند سیدھے دیوار کی طرح  ایستادہ پہاڑ، ہلکی ہلکی ستاروں کی روشنی ساری رات،خراماں خراماں نسیم بّری نہ گرم نہ ٹھنڈی،بہت ہی مزیدارہلکی ہلکی خنکی،کیا شاندار رات تھی مزہ آگیا۔ مچھر دیکھنے میں موٹے موٹے لیکن آدم بیزار، نام کو نزدیک نہیں آئے،موبائل کی روشنی پر بیٹھے تو خطرناک لگیں،کیاا نسان دوست مچھر تھے۔

صبح میرے دونوں ساتھیوں نےپھر اوپر کے تالابوں اور آبشار کا چکر لگایا آخری آبشار انہوں نے بھی دور سے دیکھی پانی میں گرنے کا خطرہ تھا۔ واپسی شروع کی تو دو جگہ بندہ پھر کریش لینڈنگ کر گیا۔شکر ہے چوٹ نہیں لگی۔واپسی آسان تھی۔ایک ڈیڑھ گھنٹے میں نیچے اترے۔ یہاں ہمیں فیصل بھائی ملے جو کسی پارٹی کو لائے تھے ۔ کہنے لگے میں سارے راستے لوگوں سے آپ کا پوچھتا ہوا آیا ہوں ۔ہم نے بائکس سنبھالیں اور گرّو کی چڑھائی کا خوف دل میں لئے واپس چل دئیے۔جہاں سے گّرو کی چڑھائی شروع ہوتی ہے وہاں ایک ندی میں کچھ پتھر پڑے ہیں۔میں پیدل تھا اور امین بلوچ آگے تھے ۔فراز صاحب وہاں کریش لینڈنگ کر گئے۔کچھ بلوچ لڑکے بھاگ کر آئے اور انہوں نے اٹھایا۔ ہم نے ان کی منت کی کہ کوئی رائیڈر ہے تو ہماری بائک چلا لے۔ایک سرور نام کا بلوچ جسے بخار چڑھا تھا وہ مان گیا۔وہ فراز کو لے کر چل دیا۔۔گرّو کی چڑھائی کا مرحلہ پار ہوا۔ کہیں سنگل کہیں ڈبل ایک جگہ آرام کیا دو پینا ڈول سرور کو دی وہ بھی ٹائٹ ہو گیا۔

ہم پکی سڑک پر آگئے۔سرور کے گروپ کی ایک بائک میں کچھ کام تھا وہ سب بائیں جانب چلے گئے ہم دائیں جانب چلے کہ پیر ابراہیم کے آف روڈ پر ملتے ہیں۔اب نقشہ کاپرچہ تو اُڑ چکا تھا ۔ ہم پیر ابراہیم کے کٹ سے بیس کلو میٹر آگے مولا چٹک کے اسٹاپ پر چلے گئے۔فرازکا فون آیا تو ہم واپس ہوئے۔ اب کے پھر کٹ چھوڑ کر مخالف سمت میں آگے چلے گئے۔پھر واپس ہوئے۔اللہ اللہ کر کے صحیح کٹ پر پہنچے۔اب چھ بائیکس تھیں ۔بائیکس آگے پیچھے ہو گئیں ۔ ہم تین بائکس والے آف روڈ میں بھٹک گئے اور خوب بھٹکے۔اب سرور ہمارے ساتھ اور اس کے تین ساتھی ایک 70 پر ہمارے ساتھ۔راستے کا پتہ نہیں۔ساڑھے چار بج گئے۔صبح کے چائے بسکٹ پر گزارا۔ہم نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ ہمارا بلاوا نہیں آیا تھا۔وہ چار ایک بائیک پر پیر ابراہیم چل دئیے اور ہم خضدار واپس آگئے۔

خضدار پر ہوسٹل کے طلبا  نے چکن کڑائی سے ہماری دعوت کی بہت شاندار مزیدار کھانا تھا۔صبح فراز نے ہمیں مین روڈ پر چھوڑا۔اس کی یونیورسٹی کھل گئی تھی۔اب میں اورامین بلوچ اپنی اپنی بائک پر صبح سوا چھ بجے نکلے تو سردی سے اَکڑ گئے۔ میرے تو ہاتھ ہی سُن ہو گئے۔وڈھ پر گرم پراٹھا پکڑا تو پتہ ہی نہیں چلا کہ گرم ہے۔ امین بلوچ کے دستانے لے کر گزارہ کیا۔وڈھ سے آگے سے کچھ شہد خریدا۔ شہر غاراں دیکھنے کا ارادہ کیا۔ میری بائک اسٹاپ پر چھوڑی اور شہرغاراں کی سیر کی۔ نہ  معلوم کس قوم نے بنائے تھے جنات اور پریوں نے یا بھکشوؤں نے۔۔ اللہ جانے۔

واپسی پر بیلہ میں کھانا کھایا ،وندر کے بائیکو پمپ پر استاد کریم سے ملاقات کی ۔شام ساڑھے پانچ بجے تک ہم اپنے گھر پہنچ گئے۔جاتے اور آتےہر جگہ جہاں پیٹ نے کچھ کہا ہم نے نمکو نکال کر اسے چپ کر دیا۔۔

کل سفر 1110 کلو میٹر کیا۔ایرانی پٹرول سب جگہ 220 یا 230 روپے لٹر ملا۔ میری جی ڈی 110 نے 37 کلو میٹر فی لیٹر کا ایوریج دیا۔30.5 لٹر پٹرول خرچ ہوا۔ہمارے سپانسر امین بلوچ کے بھائی نذیر بلوچ زبردستی ہو گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors

حاصل ِ سفر یہ کہ ایسے مقامات پر اگر عید تہوار کے دنوں میں جائیں تو بہت اچھا ہے ہر بائک والا ایک دوسرے کی مدد کرتا ہے۔ راستہ بھولنے کا چانس کم ہوتا ہے۔میلے ٹھیلے میں مزہ آتا ہے۔کھانے کا اپنا بندوبست ہونا چاہیے۔بلوچستان کے پانی بہت خوبصورت ہیں۔لوگ بہت ملنسار اور ہنس مکھ ہیں۔مہمان نوازی کی تو بات ہی کیا ہے۔ ہر شخص کھانے کی دعوت دے رہا تھا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ محبتیں قائم رکھے۔ نوجوانوں کو سلام ہے جنہوں نے اس 76 سالہ کو ہر جگہ سنبھالا !

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply