• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • معاہدہ کراچی،اقوام متحدہ کی قراردادیں اور گلگت بلتستان کا نوحہ/شیر علی انجم

معاہدہ کراچی،اقوام متحدہ کی قراردادیں اور گلگت بلتستان کا نوحہ/شیر علی انجم

معاہدہ کراچی  ایک اہم قانونی دستاویز ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کا ریاست جموں کشمیر کی ایک اکائی کے طور پرانتظامی کنٹرول حکومت پاکستان نے حکومت آزاد کشمیر سے 28 اپریل 1949میں حاصل  کیا، جس میں خطے  کے کسی سٹیک ہولڈر کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خطے کے عوام آج بھی اس معاہدے کو یکطرفہ قرار دیکر  لاتعلقی کا اظہار کرتے ہیں۔اگرچہ معاہدہ کراچی سے پہلے سلامتی کونسل کی  قرارداد  13 اگست 1948 پر عمل درآمد ہونا باقی تھا جس کے تحت گلگت اور مظفر آباد میں اقوام متحدہ کی نگرانی میں لوکل اتھارٹی گورنمنٹ قائم کرنا تھا۔لیکن گلگت بلتستان میں اس قرارداد پر عمل درآمد نہیں کیا گیا ، جبکہ آزاد کشمیر کی موجودہ جداگانہ حیثیت اُس قرارداد کی مرہون منت ہے۔

تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو تقسیم برصغیر کے بعد تک گلگت بلتستان مہاراجہ کشمیر کے زیرنگین تھے لیکن جب مہاراجہ نے عوام سے کسی قسم کی رائے لئے بغیر ریاست جموں کشمیر کا بھارت کیساتھ عبوری الحاق کیا تو کہیں خاموشی تو کہیں مزاحمت دیکھنے کو ملی۔موجودہ آزاد کشمیر کو پاکستان کے قبائلوں نے ڈوگروں سے آزاد کرواکے مقامی لوگوں کے حوالے کیا تو دوسری طرف گلگت اورلداخ کے عوام نے بغیر کسی غیر مقامی عسکری امداد کے ڈوگروں کے خلاف بغاوت کا عَلم بلند کیا، جس کے نتیجے میں یکم نومبر1947 کو کرنل مرزا حسن خان کی قیادت میں کپٹن بابر خان کے ہاتھوں گلگت لداخ کے گورنر گھنسار سنگھ کی گرفتاری کے بعد گلگت لداخ سے بھی مہاراجہ کی حکومت ختم ہوگئی اورجمہوریہ گلگت کے نام سے ایک آزادریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان ہوگیا۔لیکن بدقسمتی سے اس نومولودریاست کے قائدین کی جانب سے مستقبل کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ کالے، گورے اور راجاؤں،میروں کی سازشوں اور غداری کے ساتھ عوامی لاشعور  نے ریاست کے منتخب صدر کو سرینڈر کرکے راشن ڈپو کو انچارج بننے پر مجبور کیا اور ایک غیر مقامی پولیٹیکل ایجنٹ کو اپنے اوپر مسلط کروایااور پورے خطے  میں پاکستانی قوانین رائج کرنےکے بجائے یہاں سرحدی قوانین ایف سی آر ( فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز)نافذ کرکردیا ۔

اس درمیانی عرصے میں ہندوستان مسئلہ  کشمیر کا مقدمہ اقوام متحدہ لے گیا اور گلگت لداخ کی آزادی کو تسلیم کئے بغیرخطے کو باقاعدہ طور پر کو تنازع  کشمیر سے نتھی کرلیا ۔پس آزاد کشمیر کے حکمرانوں سردار ابراہیم، سردار غلام عباس اور وزیر بے محکمہ مشتاق گورمانی نے اقوام متحدہ کی  قراردادوں کو پست پشت ڈال کر 28اپریل 1949کو معاہدہ کرکے عوامی رائے لئے بغیر گلگت بلتستان کا مکمل کنٹرول پاکستان کے حوالے کیا۔ یوں 1971  میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو بر سرِ اقتدار آ یا تو اُنہوں نے 1974میں ایف سی آر کا خاتمہ کرکے تمام چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور راجگیری نظام کو ختم کرنے کے ساتھ قانون  باشندہ ریاست جموں کشمیر سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی سنگین خلاف ورزی شروع کی جو کہ سلامتی کونسل کی  قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی تھی۔سٹیٹ سبجیکٹ رول وہ قانون ہے جسے مہاراجہ ہری سنگھ نے 1927 میں متعارف کرایاتھاجوکہ باشندگان ریاست کو بنیادی طور پر شہریت اور شہری حقوق کا قانون ہے۔

مذکورہ قانون ریاستی عوام کی شہریت اور ریاستی عوام کے حقوق کی ضمانت میں اپنی مثال آپ ہے۔ باشندہ ریاست قانون کے مطابق ریاستی باشندگان کو چار اہم حصوں پر مشتمل قرار دیا گیا، پہلے دو میں ان ادوار کا ذکر ہے کہ جن میں یہاں مستقل آباد ہونے والوں کو شہری قرار دیا گیا۔ تیسرے درجے میں جدید شہریت کے تقا ضوں کے تحت دس سالہ مستقل سکونت کے بعد اجازت اور رعائت نامہ کے ذریعے سکونت میں توسیع یا شہریت کے حصول کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ چوتھے درجہ میں ان صنعتی وکاروباری مراکزجو ریاست و ریاستی عوام کیلئے مفید ہوں ان مراکز کو بھی تحفظ اور شہری حیثیت دی گئی تھی اسکے علاوہ کئی اور اہم شقات ہیں ، جو سابق ریاست جموں کشمیر کے تمام خِطوں کو مکمل قانونی تحفظ فراہم کرتی ہیں ۔ یعنی اس قانون کو آج بھی ایک محافظ کی حیثیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست 2019 تک اور آزاد کشمیر میں آج بھی باشندہ ریاست قانون (SSR۔1927) مقامی دستور کا حصہ ہے۔ یہی تو وہ قانون ہے جس نے انڈیا اور جموں کشمیر کے درمیان قانونی دیوار جموں کشمیر آئین اور انڈین آئین میں آرٹیکل 370 کی شکل میں ریاست کی خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص  5   اگست 2019 تک بحال رکھا ہواتھاجس کی نریندر مودی نے خلاف ورزی کی ،ذرائع ابلاغ پر جاری خبروں کے مطابق مودی نے پاکستان کے مقتدر اداروں کے سربراہ کوباقاعدہ اعتماد میں لیکر یہ کام سرانجام دیا تھا ۔یہ باشندہ ریاست قانون ہی ہے جس نے پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر میں کاروبار پر حاوی غیر ریاستی سرمایہ دار طبقہ کو جائیداد کے  مالکانہ حقوق سے دور رکھا ہوا ہے۔مگر بدقسمتی سے گلگت بلتستان میں اس قانون کو معطل کرتے وقت کسی کشمیری حکمران کو یہ تو فیق نہیں ہوئی کہ وہ بھٹو حکومت سے کہیں کہ مسئلہ کشمیر کے کسی بھی متاثر خطے میں ریاست جموں کشمیر میں رائج قانون کے حوالے سے کوئی ردّو بدل کرنے کا انہیں حق نہیں تھا۔  اس وقت گلگت بلتستان کا سب سے اہم مسئلہ اس خطے کو بطور مکمل پاکستانی یا متنازع  حیثیت کی بنیاد پر سیاسی معاشی حقوق کا نہ ملنا ہے۔

سال  2009ء میں پاکستان پیپلزپارٹی نے گلگت بلتستان سیلف گورنمنٹ آرڈیننس کے نام سے ایک پیکج دیا، جس کا مقصد اس خطے کی محرومیوں کو کم کرنا اور اس خطے کی شناخت کو بحال کرنا تھا اُس پیکج کے نتیجے میں تاریخ میں پہلی بار گلگت بلتستان کا  نام دیا گیا اور یہاں صوبائی طرز پر ایک انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا گیا، جس میں کچھ اختیارات امور کشمیر اور وفاق سے لیکر گلگت بلتستان اسمبلی کو تفویض کئے۔ لیکن  گلگت بلتستان کے عوام کا آج بھی مطالبہ ہے کہ پیکجز میں مسلسل ردوبدل کے بجائے اس خطے کے  قومی تشخص کو بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں بحال کرائیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ریاستی موقف ،آئین کے آرٹیکل 257 ،سلامتی کونسل کے متفقہ قراردادوں اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے معتدد فیصلوں کی  پاسداری کرتے ہوئے28000 مربع میل اور30 لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس خطے میں معطل سٹیٹ سبجیکٹ کے قانون کوبحال کریں ،نام نہاد معاہدہ کراچی کو ختم کریں سلامتی کونسل کی قرارداد 13 اگست 1948 پر عمل درآمد کرکےآئین ساز اسمبلی کے  قیام کو عمل میں لاکر مسئلہ کشمیر کے  حل تک کیلئے اس خطے کے ساتھ عمرانی معاہدہ کریں تاکہ اس خطے کے وسائل،معدنیات ،  ڈرائی پورٹ کی آمدنی ،دیامر بھاشا ڈیم کی رائلٹی اور سی پیک اور گلگت بلتستان کو برابری کے حقوق مل سکیں اور خطے میں بیورو کریسی راج کے بجائے عوامی نمائندوں کو اپنے فیصلے کرنے کا حق ملنے کے ساتھ انسانی  حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں  کا تدارک، قوانین کا غیر قانونی استعمال اور عوامی زمینوں چراگاہوں کی بندر بانٹ اور غیر مقامی لوگوں کو ڈومیسائل جاری کرنے اورخطے کی تیزی سے تبدیل ہوتی ڈیموگرافی رُک سکے۔یہ وہ تمام باتیں ہیں جو پاکستان کے ارباب اختیار ہندوستان سے جموں کشمیر میں مطالبہ کرتے ہیں۔

پس ،

Advertisements
julia rana solicitors

دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بند قبا دیکھ   ۔        ۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply