پارہ نمبر نو کا خلاصہ(3)-افراءعبدالفرید

مضمون نمبر 10
حضرت موسی علیہ السلام کی ایمان افروز دعا155تا156
سورۃ الاعراف کی ایت نمبر 155 سے حضرت موسی علیہ السلام کی ایمان افروز دعا کا ذکر ہے راجہح یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ میقات اس میقات کے علاوہ ہے جو موسی علیہ السلام کو تورات عطا فرمانے کے لیے مقرر ہوا تھا نیز ایات حاضرہ کی ترتیب سے بظاہر مفہوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ گو سالہ پرستی اور سزا یابی کے بعد پیش ایا(33)
لیکن سورہ نسا کی ایت یہ بات زیادہ صفائی سے بتاتی ہے کہ گو سالہ پرستی اس واقعے کے بعد ہوئی واللہ !عالم با لصواب اس واقعے کا خلاصہ سورہ بقرہ میں ربا پارے الم کے بعد گزر چکا ہے بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام سے خود کہا تھا کہ تمہاری باتیں اس وقت تسلیم کر سکتے ہیں جب خدا تعالی سے خود سن لیں حضرت موسی علیہ السلام ان میں سے 70 آدمیوں کو جو سردار تھے منتخب کر کے طور پر لے گئے اخر انہوں نے حق تعالی کا کلام سن لیا کہنے لگے کہ جب تک ہم خدا کو بے حجاب اپنی انکھوں سے دیکھ نہ لیں ہم کو یقین نہیں ا سکتا اس گستاخی پر نیچے سے سخت بھونچال ایا اور اوپر سے بجلی کی کڑک ہوئی اخر کانپ کر مر گئے یا مردوں کی سی حالت کو پہنچ گئے حضرت موسی علیہ السلام نے اپنے آپ کو ان کے ساتھ نتھی کر کے نہایت موثر انداز میں دعا کی جس کا حاصل یہ تھا کہ خداوند اگر تو ہلاک کرنا ہی چاہتا تو ان کے سب کو بلکہ ان کے ساتھ مجھ کو بھی کہ میں ہی انہیں لے کر ایا یہاں بلانے اور کلام سنانے سے پہلے ہی ہلاک کر دیتا کسی کی مجال تھی کہ آپ کی مشیت کو روک سکتا ؟جب آپ نے ایسا نہیں چاہا بلکہ مجھے لانے اور ان کو کلام الہی سننے کے لیے یہاں آنے کی اجازت دی تو یہ کیسے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اپ یہاں بلا کر محض بعض بے وقوفوں کی حماقت کی سزا میں ہم سب کو ہلاک کر دینا چاہیں یقینا یہ (رجفہ و سائقہ کا) منظر سب آپ کی طرف سے ہماری ازمائش و امتحان ہیں اور ایسے سخت امتحانات میں ثابت قدم رکھنا یا نہ رکھنا بھی آپ ہی کے قبضے میں ہے اس قوم کے خطرناک اور مزلت الاقدام مواقع میں آپ ہی ہمارے تھامنے اور دستگیری کرنے والے ہیں اور صرف آپ ہی کی ذات منور خیرات سے یہ امید ہو سکتی ہے کہ ہم سب کو گزشتہ تقصیرات اور بے اعتدالیوں سے درگزر فرمائیں اور آئندہ اپنی رحمت سے ایسی خطاؤں اور غلطیوں کا شکار نہ ہونے دیں حضرت موسی علیہ السلام کی اس دعا پر وہ لوگ بخشے گئے اور خدا نے ان کو از سر نو زندگی مرحمت فرمائی(34)

مضمون نمبر 11
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی عمومیت157تا159
سورۃ الاعراف کی ایت نمبر 157 سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی عمومیت کا ذکر ہے رحمت کے مستحق متقی اور اہل ایمان ہیں حضرت موسی علیہ السلام کی امت میں جو اہل ایمان تھے اور اب جو اہل ایمان ہیں ان لوگوں کے لیے اللہ تعالی رحمت دائمہ لکھ دے گا, اب اہل ایمان وہ لوگ ہیں جو نبی امی آخر الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں جو لوگ ان کے رسالت کے منکر ہیں وہ کیسا ہی ایمان کا دعوی کریں اللہ کے نزدیک ان کا ایمان معتبر نہیں (35)
“امی” یا تو” ام “(بمعنی والدہ ) کی طرف منسوب ہے جس طرح بچہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے اور کسی کا شاگرد نہیں ہوتا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ساری عمر کسی مخلوق کے سامنے زانوئے تلمذہ نہیں کیا اس پر کمال یہ ہے کہ جن علوم و معارف اور حقائق کو اسرار کا اپ نے اضافہ فرمایا کسی مخلوق کا حوصلہ نہیں ہے کہ اس کا عشر عشیر پیش کر سکے بس نبی امی کا لقب اس حیثیت سے اپ کے لیے مایہ صدا فتخار ہے اور یا “امی ” کی نسبت” ام القری” کی طرف سے ہو جو “مکہ معظمہ ” کا لقب ہے جو اپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا مولد شریف تھا (تفسیر عثمانی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری ساری امت جنت میں جائے گی سوائے اس کے جس نے انکار کیا عرض کیا گیا انکار کس نے کیا امت میں منکر کون ہو سکتا ہے فرمایا جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے نافرمانی کی اس نے انکار کیا( البخاری) ابن حبان نے حضرت انس کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن ہر کسی کے لیے نور کا ایک ممبر ہوگا اور میں سب سے اونچے اورمیں سب سے زیادہ نور والے ممبر پر متمکن ہوں گا کہ ایک منادی ندا دیگا کہ نبی امی کہاں ہیں انبیاء کہیں گے ہم میں سے ہر ایک نبی امی ہے یعنی( امت والا ہے) پھر کسی کے پاس پیام ایا ہے منادی دوبارہ لوٹ کر ائے گا اور جنت کے دروازے پر پہنچ کر دروازہ کھٹکھٹائے گا دریافت کیا جائے گا کون ہے جواب ملے گا محمد صلی اللہ علیہ ہ وسلم اور احمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم دریاف کیا جائے گا کیا بلایا گیا تھا جواب ملے گا ہاں دروازہ کھول دیا جائے گا تجلی پڑھتے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گر پڑے گا اور اس طرح سے اللہ کی حمد کرے گا کہ کسی نے نہ کی ہوئی حکم ہوگا سر اٹھابات کر اور شفاعت (36)
تیری شفاعت قبول کی جائے گی اس حدیث میں معلوم ہوتا ہے کہ امی کا لفظ امت کی طرف منسوب ہے اسی لیے ہر پیغمبر اپنے اپ کو امی کہے گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے لیے لفظ امی کی خصوصیت اس لیے ہوگی کہ اپ کی امت ہر پیغمبر کی امت سے زیادہ ہے بڑی امت والا پچھلی ایات میں حضرت موسی علیہ السلام کی دعا کے جواب میں اللہ نے ارشاد فرمایا تھا کہ میری رحمت شفقت اور کرم ہر چیز پر چھایا ہوا ہے میں اپنے رحم و کرم کو ان کے حصے میں ڈال دوں گا جو تقوی رکھتے ہیں زکوۃ دیتے ہیں اور ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں ایت نمبر 157 میں اللہ تعالی نے 4صفت بھی ارشاد فرما دی ہے چوتھی شرط یہ ہے کہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل اطاعت و فرمانبرداری کی جائے جن کا ذکر تورات و انجیل میں موجود ہے یعنی ہر چند کی یہ نبی امی صلی اللہ علیہ ہ وسلم حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہ السلام کے بعد ائے ہیں مگر ان کے انے سے پہلے ہر نبی ان کے انے کی اطلاع دیتے رہے ہیں اور فرمایا کے تورات اور انجیل میں اپ کی تمام نشانیاں موجود ہیں یہ صحیح ہے کہ موجود تورات اور انجیل میں بہت سی تحریفات اور تبدیلیاں ہو چکی ہیں اور ہوتی رہیں گی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان نبوت کے متعلق جو ایات تھیں یا تو ان کو بالکل بدل دیا گیا ہے یا نکال دیا گیا ہے مگر اللہ کی شان کے تورات اور انجیل میں ابھی بھی نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بہت سی ایات اور شناختیں ملتی ہیں اگر حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانے میں یہ ایات اور شناختیں توریت اور انجیل میں نہ پائی جاتی تو یہود و نصاری کے ہاتھ میں قران کریم کو بدنام کرنے اور جھٹلانے کا ایک بہت بڑا ہتھیار مل جاتا اور وہ صاف کہہ دیتے کہ اس میں کوئی ذکر نہیں ہے لیکن ہزار مخالفتوں کے باوجود کسی نے ایسی بات نہ کہی حضور صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد یہود و نصاری نے اسلام قبول کیا ان میں سے چند سال بھر سربرا سربراوردہ لوگوں کی تصدیقیں سیرت و حدیث کی کتابوں میں درج ہیں ان کی تصدیقات سے پتہ چلتا ہے کہ تورات و انجیل میں ناصرف اپکی صفات کا تفصیلی تذکرہ تھا بلکہ اپ کے پیغام کا بھی اپ کے بدن اور پیدائش کا بھی اپ کے وطن میں ہجرت کا بھی اور سب سے بڑھ کر اپ کے حلیہ مبارک کا بھی ذکر موجود تھا سورہ صف میں ذکر ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے یہ بھی بتایا کہ اپ کا نام احمد ہوگا تورات اور انجیل میں کیا کیا شناختیں دی گئی تھیں ان کو قران سب سے بڑے کریم نے اس جگہ دہرایا ہے سب سے بڑی شناخت اس رسول نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ ہوگی کہ وہ امی ہوگا( 38 )دوسری پہچان یہ ہے کہ صدیوں سے ان کا ذکر مبارک ہر اسمانی کتاب میں موجود ہے تیسری پہچان یہ ہے کہ وہ نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم ہر معروف کا حکم دیتے ہیں اور ہر منکر سے لوگوں کو بچاتے ہیں چوتھی پہچان یہ ہے کہ وہ پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں حرام بتائیں گے طیبات یعنی وہ چیزیں حلال ہیں جنہیں اللہ نے پاک کر دیا ہے اس طرح وہ چیزیں جنہیں عقل سلیم اور ذوق سلیم قبول کرے وہ جو صحت و تندرستی شرافت و عزت سے منافی نہ ہو ں (39) پانچویں پہچان یہ ہے کہ وہ نبی ام صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں کو جو سختیوں اور بے بندشوں میں جکڑے ہوئے ہیں وہ ان سے ان کو ازادی دلائیں گے ان کی ایات میں نبی امی کی یہ پانچ پہچانیں بتائی گئی ہیں ان میں پہلی دو پہچانیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے متعلق ہیں اور بقیہ پہچانیں اپ کی شریعت کے متعلق ہیں ان پانچ علامتوں اور پہچانوں کے بعد جو بات اخر میں فرمائی گئی وہ ان تمام باتوں کا خلاصہ ہے فرمایا گیا کہ وہی لوگ فلاح پائیں گے جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر چلیں گے ان کے راستے کو اختیار کریں گے ان کے ساتھ کامیابی تک مل کر پہنچیں گے اور یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہیں جو اس نور کی تابعداری کریں گے جو ان کے ساتھ بھیجا گیا اور اخر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے مبارک سے قیامت تک انے والے سارے انسانوں کے کو بتایا گیا ہے کہ ہر نبی اور رسول جوتشریف لائے ہیں وہ کسی نہ کسی خاص زمان و مکان کے لیے اور علاقے کے لیے تھے اپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول ہوں اور تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں اس اللہ کی طرف سے جو تمام اسمان و زمین اور پوری کائنات کا خالق و مالک ہے زندگی اور موت جس کے ہاتھ میں ہے رب العالمین کی طرف سے فرمایا گیا کہ اے لوگوں اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول امی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لاؤ جو خود بھی اللہ اور اس کے تمام احکامات پر ایمان رکھتے ہیں اور انہی کی پیروی کرو تاکہ تم عنایت حاصل کرو اب اپ کی نبوت اور رسالت قیامت تک کے لیے ہے اپ کے بعد نہ کوئی نبی ائے گا نہ رسول اپ کے بعد نبوت کا جو بھی دعوی کرتا ہے وہ باطل ہے اور ایسا شخص اپ کی ذات اورعظمت کا منکر ہے (40)

مضمون نمبر 12
بنی اسرائیل پر مزید احسانات کا تذکرہ159تا162
سورۃ الاعراف کی ایت نمبر 159 سے بنی اسرائیل پر اللہ کے عطا کردہ احسنات کا تذکرہ ہے اشارہ ہے بنی اسرائیل کی اس تنظیم کی طرف جو سورہ مائدہ ایت 12 میں بیان ہوئی ہے اور جس کی پوری تفصیل بائبل کی کتاب میں ملتی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالی کے حکم سے کوہ سینہ کے بیابان میں بنی اسرائیل کی مردم شماری کرائی پھر ان کے 12 گھرانوں کو جو حضرت یعقوب علیہ السلام کے دس بیٹوں اور حضرت یوسف علیہ السلام کے دو بیٹوں کی نسل سے تھے الگ الگ گروہوں کی شکل میں منظم کیا اور ہر گروہ پر ایک ایک سردار مقرر کیا تاکہ وہ ان میں اخلاقی مذہبی تمدنی و معاشرتی اور فوجی حیثیت سے نظم قائم رکھیں اور احکام میں شریعت کا اجر ا کرتا رہے نیز حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہویں بیٹے لاوی کی اولاد کو جس کی نسل سے حضرت موسی علیہ السلام اور ہارون علیہ السلام تھے ایک الگ جماعت کی شکل میں منظم کیا تاکہ وہ ان سب قبیلوں کے درمیان شمع حق روشن رکھنے کی خدمت انجام دیتی رہے اوپر جس تنظیم کا ذکر کیا گیا ہے وہ من جملہ ان احسانات کی تھی جو اللہ تعالی نے بنی اسرائیل پر کیے اس کے بعد اب مزید تین احسانات کا ذکر فرمایا گیا دوسرا یہ کہ ان کو دھوپ کی تپش سے بچانے کے لیے آسمان پر بادل چھا دیا گیا تیسرا یہ کہ ان کے لیے خوراک کی بہم رسانی کا غیر معمولی انتظام من سلوی کے نزول کی شکل میں کیا گیا ظاہر ہے کہ اگر ان تین اہم ترین ضروریات زندگی کا بندوبست نہ کیا جاتا تو یہ قوم جس کی تعداد کئی لاکھ تک پہنچی ہوئی تھی اس علاقے میں بھوک پیاس سے بالکل ختم ہو جاتی(41 ) آج بھی کوئی شخص وہاں جائے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائے گا کہ اگر یہاں 15 20، لاکھ آدمیوں کا ایک عظیم الشان قافلہ یکایک ا ٹھہرے تو اس کے لیے پانی خوراک اور سایہ کا اخر کیا انتظام ہو سکتا ہے موجودہ زمانے میں پورے جزیرہ نما کی ابادی 55 ہزار سے زیادہ نہیں ہے اور آج اس 21کیسویں صدی میں بھی اگر کوئی سلطنت وہاں پانچ چھ لاکھ فوج لے جانا چاہے تو اس کے مدبروں کو رسد کے انتظام کی فکر میں درد سر لاحق ہو جائے یہی وجہ ہے کہ موجودہ زمانے کےبہت سے محققین نے یہ ماننے سے انکار کر دیا جو نہ کتاب کو مانتے ہیں اور نہ معجزات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بنی اسرائیل جزیرہ نمائے سینہ کے اس حصے سے گزر رہے ہوں گے جس کا ذکر بائبل اور قرآن میں ہوا ہے ان کا گمان ہے کہ شاید یہ واقعات فلسطین کے جنوبی اور عرب کے شمالی حصے میں پیش آئے ہوں گے جزیرہ نمائے سینا کے طبی اور معاشی جغرافیے کو دیکھتے ہوئے وہ اس بات کو بالکل ناقابل تصور سمجھتے ہیں کہ اتنی بڑی قوم یہاں برسوں ایک ایک جگہ پڑاؤ کرتے ہوئے گر سکتی ہے خصوصا جب کہ مصر کی طرف سے اس کی رسد کا راستہ بھی منقطع تھا اور دوسری طرف خود اس جزیرہ نما کے مشرق کو اور شمال میں اعمالقہ قبیلے اس کی مزاحمت پر امادہ تھے ان امور کی پیش نظر رکھنے سے صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان چند مختصر ایاتوں میں اللہ نے بنی اسرائیل پر اپنے جن احسانات کا ذکر فرمایا ہے وہ در حقیقت کتنے بڑے احسانات تھے اور ان کے بعد یہ کتنی بڑی احسان فراموشی تھی کہ اللہ کے فضل و کرم کی ایسی صریح نشانیاں دیکھ لینے پر بھی یہ قوم مسلسل نافرمانیوں اور غداریوں کی مرتکب ہوتی رہی جن سے اس کی تاریخ بھری پڑی ہے تقابل کے لیے ملاحظہ سورۃ البقرہ حواشی( 72٫73٫76)(42)
جب اللہ تعالی نےصحرہ میں پینے کے لیے پانی اور کھانے کے لیے من سلوی سائے کے لیے بادل عطا فرمایا لیکن انہوں نے شکر ادا کرنے کی بجائے ناشکری کی تو اللہ تعالی نے انہیں صحرا نور دی کہ عذاب میں مبتلا کر دیا (43)یعنی صحرہ سینہ میں ان کواس طرح بھٹکا دیا گیا کہ جہاں سے چلتے تھے وہ پھر وہیں پر ہیں اس طرح 40 سال تک وہ اسی میدان میں میدان میں سرگرداں رہے (44 ) 40 سال کے بعد جب قوم بنی اسرائیل پر سے اس عذاب یعنی صحرا نوردی کو ہٹا دیا گیا اور کہا گیا کہ جاؤ سامنے وہ بستی ہے اریحا وہاں تمہیں سب کچھ ملے گا لیکن شرط یہ ہے کہ شور مچاتے اور بدمستی کرتے داخل نہ ہونا بلکہ ادب سے اور جھکے جھکے داخل ہونا اور توبہ کرنا اور شکر کرنا اگر تم نے ادب و احترام کا طریقہ اختیار کیا تو اس سے زیادہ نعمتیں تمہیں ملیں گی 40 سال کی سزا بھٹکنے کے بعد جب یہ قوم بستی میں داخل ہوئی تو اس نے اللہ کے احکامات کو بھلا دیا اور تکبر سے اس بستی میں داخل ہوئے اور زبان پر توبہ کے بجائے دنیا طلبی کے کلمات جاری ہو گئے ان کی اس شہری زندگی کی تمام بدمستیوں کو اختیار کرنا شروع کر دیا اور جب نافرمانی کی حد کو پہنچ گئے تو اللہ نے انہیں طاعون جیسی بیماری میں مبتلا کر دیا جس سے لاکھوں کی تعداد میں بنی اسرائیل مر کھپ گئے(45)
مضمون نمبر 13
سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ163 تا169
سورۃ الاعراف کی ایت نمبر 163 سے سمندر کے کنارے بسنے والوں کا تذکرہ ہے بنی اسرائیل کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر فرمایا جا رہا ہے اسی میں سے یہ ایک واقعہ ہے جو انہیں ایلہ کے مقام پر پیش آیا واقعہ یہ تھا کہ بنی اسرائیل کا ایک قبیلہ جو ایلہ میں آباد تھا اور اس کا گزر بسر مچھلیوں پر تھا اس قوم کو ازمانے کے لیے کہا گیا کہ (46) تم ہر روز مچھلی کا شکار کر سکتے ہو صرف ہفتہ کے دن تمہیں شکار کرنے کی اجازت نہیں ہےتورات کی باز ایات سے اس بات کی طرف شارے ملتے ہیں کہ اس وجہ سے یہودیوں نے ہفتے کے دن ہر طرح کے کام کاج کو اپنے اوپر حرام کر رکھا تھا ان کو مزید آزمانے کے لیے اللہ نے یہ انتظام فرمایا کہ جب ہفتے کا دن ہوتا جس دن شکار کرنا منع تھا تو تہہ کی مچھلیاں بھی پانی کے اوپر آ جاتی اور جب اتوار سے جمعہ تک شکار کرنے کی اجازت تھی تو اوپر کی مچھلیاں میں پانی کی تہہ میں چلی جاتی بنی اسرائیل نے کچھ دن تو برداشت کیا پھر اس کے بعد انہوں نے حیلے بہانے کرنے شروع کر دیے طریقہ یہ اختیار کیا کہ سمندر کے کنارے انہوں نے چھوٹے چھوٹے تالاب بنا کر انہیں چھوٹی چھوٹی نالیوں سے ملا دیا جب ہفتہ کا دن اتا تو وہ ان نالیوں کو کھول دیتے اس طرح وہ بظاہر خود تو شکار نہیں کرتے تھے لیکن پانی کے ریلے کے ساتھ جو مچھلیاں ان کے تالابوں میں جمع ہو جاتی ان کو اتوار کے دن مزے لے کر کھاتے اور کہتے ہم نے ہفتے کے دن تو شکار نہیں کیا بلکہ مچھلیاں تو خود بہہ کر ہمارے تالابوں میں آگئیں (47) یہودیوں کی اس حرکت کے بعد ان کی قوم تین حصوں میں تقسیم ہو گئی پہلا حصہ ان صالحین کا تھا جو گناہ میں شریک نہیں تھے اور وہ روکتے بھی تھے دوسرے وہ لوگ تھے جو گناہ میں شریک تو نہیں تھے لیکن روکتے نہیں تھے تیسرے وہ لوگ تھے جو گناہ میں باقاعدہ آگے بڑھ بڑھ کر حصہ لے رہے تھے تو جو تیسرا گروہ تھا جو منع نہیں کر رہا تھا گناہ سے اس نے صالحین سے کہا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جن کی قسمت میں عذاب الہی ہے ؟ تو صالحین نے جواب میں کہا کہ ہم اس لیے نصیحت کرتے ہیں تاکہ ہماری گرفت نہ ہو تاکہ ہم کہہ سکیں کہ اے اللہ ہم آخری وقت تک انہیں روکتے رہے اور کیا پتہ ہو سکتا ہے ان میں تقوی ہی پیدا ہو جائے (48) تو جو نصیحت کی جا رہی تھی ان گنہگاروں کو انہوں نے نہیں سنی تو ان کی شکلیں ذلیل بندروں میں تبدیل کر دی گئیں اور صالحین عذاب سے محفوظ رہے(49) پھر ایت نمبر 167 اور 168 میں ان دو عظیم سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہے جو بنی اسرائیل کو اس دنیا میں دی گئی یہ سزائیں ان کو اچانک نہیں دی گئیں بلکہ انبیاء کرام علیہ السلام کے ذریعے صدیوں پہلے انہیں مطلع کر دیا گیا تھا پہلی سزا تو یہ ہے کہ رہتی دنیا تک قوم بنی اسرائیل پر ایسے لوگ مسلط ہوتے رہیں گے جو انہیں شدید ترین اذیتیں اور تکلیفیں دیتے رہیں گے دوسری سزا یہ ہے کہ ان کا مستقل کوئی وطن نہ ہوگا وہ ہمیشہ مختلف ملکوں میں منتشر رہیں گے یعنی ان کی کوئی اجتماعی طاقت نہ ہوگی ہمیشہ دوسروں کے سہارے زندہ رہیں گے تاریخ گواہ ہے کہ بخت نصر سے لے کر ہٹلر اور اسٹالن تک صدیوں سے یہودی مقہور محکوم اور مغضوب رہے ہیں ہزاروں سال سے آج تک ان کی کوئی سیاسی طاقت نہ بن سکی اور جب بھی بنی ہے تو اس کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی ہے(50) یہ جو آج کل عربوں کے سینے پر فلسطین میں بڑی طاقتوں کے تحت اسرائیلی ریاست بنا دی گئی ہے اس کے پس پردہ روسی کمیونٹی اور امریکی عیسائیوں کا ہاتھ ہے(51 ) آیت نمبر 169 میں ہے کہ ان کے بعد ایسے ناخلف ائے جنہوں نے نماز تک کو ضائع کر دیا (52)اور اللہ تعالی فرما رہا ہے کہ اور ہم نے ان بدوں کو بھی اپنی عنایت اور تربیت اور اصلاح کے اسباب جمع کرنے سے کبھی مہل نہیں چھوڑا بلکہ ہمیشہ ان کو خوشحالیوں اور بد حالیوں سے اآزماتے رہے( یہ حال تو ان کے سلف کا ہوا ) پھر ان کے بعد ایسے لوگ جانشین ہوئے کہ تورات تو ان سے حاصل کیا لیکن احکام کتاب کے عوض میں دنیا کا مال متاع لے لپتے ہیں اور ایسے ہیں کہ گناہ کو حقیر سمجھتے ہیں کہ ہماری مغفرت ہو جائے گی انہوں نے یہ سب دنیا کے لیے کیا اور کرتے ہیں اخرت والا گھر ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو پرہیزکرتے ہیں (53)

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply