چُھٹکی۔۔عائشہ رانا

چُھٹکی،ایک کتاب ہی نہیں عارف خٹک صاحب کی طرف سے عشق کرنے والوں کے لیے تحفہ اور غیر معیاری بڑھتی ہوئی، چپھتی کتابوں کے لیے  پیغام ہے کہ دل سے جو چیز نکلتی ہے واقعی اثر رکھتی ہے ۔
کتاب کے بارے میں لکھنے سے پہلے مصنف سے ایک چھوٹا سا اظہار معذرت کہ  اس کتاب کو پڑھنے سے پہلے مجھے لگتا تھا کہ عارف خٹک کی پسندیدگی کا واحد پہلو بیباک لکھنا اور لغو زبان کا استعمال ہے پر نہایت شرمندگی سے میں عارف بھائی سے معذرت چاہتے  ہوئے ان کو مبارکباد پیش کرتی ہوں کیونکہ جپسی کے بعد ساری زندگی جو کتاب یاد رہے گی وہ چھٹکی ہے۔
آج کی دنیا میں اس کتاب کی کتنی ضرورت تھی کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد آپ اس کی قیمت کو ثواب کا درجہ بھی دے سکتے ہیں ۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے ذرا  برابر بھی احساس نہیں تھا کہ میں اسکو ایک رات میں ختم کر لوں گی اور ایسے جیسے اپنی زندگی کے کرداروں کو واپس ملتے ہوئے آپکو جلدی ہوتی ہے۔سچ بولوں تو بہت سی کتابیں پچھلے تین چار سال میں ایسی دیکھیں جو تاثیر سے تو دور تعمیر کے مراحل میں لگیں ،دل بے اختیارچاہا  کہ کتاب لکھنے والے کو مل کے اتنی دعائیں دوں،ایسا شخص  جس نے مجھے کتابوں سے دور ہونے سے بچا لیا ،اس کے لیے خصوصی طور پر  “ چھٹکی “ کا شکریہ۔۔
چھٹکی صرف ایک مرد و عورت کی محبت بھری داستان نہیں ایک پرخلوص زندگی سے لبالب بھری ہوئی  دنیا ہے ،دوستوں سے محبت یا اپنی مٹی سے جڑے لوگوں سے محبت، ماں کی ممتا ،باپ کی سختی، اکیلے ہونے کا دکھ ، ہر روپ ہر کردار اور ہر اظہار کی بہترین صورت  ہے چھٹکی ناول۔۔
صائمہ سے چھٹکی تک کا سفر یا ایک آفیسر سے عشق کے جنوں میں مجنوں تک کا سفر، ہر انسانی بت کو توڑتے ہوئے سجدے کروانے کا سفر، سب “چھٹکی” میں بے انتہا ملے گا ۔میں یہ بات یقین سے کہتی ہوں اس کتاب کو پڑھنے والا دنیا کے کسی بھی کونے سے ہو ایک بار پڑھنے کے بعد چھٹکی کی محبت میں گرفتار ضرور ہو جائے گا ۔میں بہت کچھ اس کتاب کے بارے میں کہنا نہیں چاہتی بس چاہتی ہوں کہ ہر انسان جس کا محبت سے تعلق ہے خلوص کا مطلب سمجھتا ہے اس کو ایک بار یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔
وہ اپنی لا مکانی میں رہیں مست
مجھے اتنا بتا دے میں کہاں ہوں
یہ شعر میں نے آخر میں کیوں لکھا کتاب پڑھنے کے بعد یقیناً یہ آپ سمجھ جائیں گے ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply