منکہ ایک منسٹر ہوں/نسرین غوری

ونس اپون زمانہ قبل ا ز ٹائم ایک اخبار ہوتا تھا یا پھر ٹی وی جس سے ہر قسم کی خبریں اور انٹر ٹینمنٹ عوام تک پہنچتی تھی۔( دیگرفورمزبھی ہوتے تھے جیسے سینما لیکن وہ اتنے ارزاں اور ہر ایک کی پہنچ میں نہیں ہوتے تھے اور ریڈیو کی اس دور تک وہ اہمیت نہیں رہی تھی جس دور کی ہم بات کررہے ہیں لیکن زمانہ انیس سو پتھر میں ریڈیو کے صدا کار بھی سلیبرٹی اسٹے ٹس  انجوائے کیا کرتے تھے) اور ان دونوں فورمز پر نظر آنے والے، لکھنے والے، بولنے والے ، اداکاری کرنے والے اور فنکاریاں کرنے والے تمام لوگ عوام کی نظر میں سلیبرٹی ہوتے تھے ۔ جن تک پہنچنا، اپنے رائے پہنچانا ایک کار عظیم ہوا کرتا تھا۔

ٹیلی وژن پر” اپنی بات ” نامی کوئی بیس منٹ کا پروگرام اور اخبارات میں دو کالمی مراسلات والا کالم ان سب تک پہنچنے اور اپنی رائے ، تعریف و تنقید پہنچانے کا واحد ذریعہ ہوا کرتے تھے۔ جس کا خط اپنی بات میں پڑھا جاتا یا جس کا مراسلہ اخبار میں چھپ جاتا وہ اِترایا اِترایا پھرتا تھا کئی دن ۔ اخبار کا تراشہ کاٹ کر محفوظ کرلیا جاتا۔ پسندیدہ فنکار یا کالمسٹ کی جانب سے کوئی فیڈ بیک ملے گا یہ تو سوچنا بھی آؤٹ آف سلیبس تھا۔ روزنامہ جنگ کے سنڈے میگزین میں آج بھی چھٹی آف دی ویک یا اس ہفتے کی چھٹی کا سلسلہ جاری ہے۔

پھر ای میل کا دور آیا جس میں اخبارات کی حد تک پسندیدہ کالمسٹ کو ڈائریکٹ ای میل کرنے کی سہولت تھی ۔ ہم نے تو چاہنے کے باوجود کبھی کسی کو کوئی ای میل نہ کی ، ہمیں لگتا تھا کہ یہ ای میل اخبار کے دفتر میں بیٹھا کوئی اہل کار ہی دیکھتا ہوگا، اصلی بندہ نہیں ۔ اور کسی نے شاید کسی کالمسٹ سے ای میل پر “قلمی” تعلق بھی رکھا ہو ، مطلب دو طرفہ لیکن اس کی ہمیں نہ تو خبر، نہ ہی کوئی تصدیق۔

پھر سوشل میڈیا ماس کمیونیکیش کے شعبے میں ایک انقلاب لے آیا ، جہاں تمام انٹرنیٹ ، ویب سائٹس انٹر ایکٹیو ہوئیں ،وہیں سوشل میڈیا نے اس تعلق کو دو طرفہ اور انسٹنٹ کردیا۔ آج یہاں ایک ڈرامہ نشر یا فلم ریلیز ہوتی ہے اور منٹوں میں لوگ اس چینل ، میڈیا /پروڈکشن ہاؤس، ڈائریکٹر / پروڈیوسر، اور اداکاروں کے پرسنل پروفائل پر فیڈ بیک دےرہے ہوتےہیں اور ان سلیبریٹیز کی اچھی خاصی تعداد ان فیڈ بیک پر رسپا نس بھی کررہی ہوتی ہے، یہی حال کالم نگاروں اور صحافیوں کا ہے ، ادھر ایک پروگرام نشر ہوتا ہے یا ایک کالم شائع ہوتا ہے اُدھر وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوجاتا ہے ۔ اس مواد پر نا  صرف عوام/فینز کا فوری رد ِعمل آنا شروع ہوجاتا ہے بلکہ متعلقہ تخلیق کار کا اس ردِ عمل پر فیڈ بیک بھی نظر آتا ہے۔ گویا اب بات ٹو وے ہوگئی ہے۔ اس انٹر ایکٹیوٹی کے سبب مین اسٹریم میڈیا کے تخلیق کار اب سوشل میڈیا کا رخ کرنے پر مجبور ہیں۔

سوشل میڈیا کے ارتقاء کے ساتھ ساتھ اب تخلیق کاروں کی ایک ایسی کھیپ بھی نظر آنے لگی ہے جن کی تخلیقی پیدائش اور نشو ونما سوشل میڈیا پر ہی ہوئی ہے اوریہیں وہ اوج ِ کمال پر بھی پہنچے ہیں ان میں سوشل میڈیائی صحافی بھی ہیں، کنٹینٹ رائٹرز بھی، کہانی کار بھی، اداکار و گلوکار بھی اور وی لاگرز بھی۔ بہت سی نیوز سائٹس اب ایسی ہیں جو صرف انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں،بہت سے تخلیق کار ایسے ہیں جو مین اسٹریم میڈیا کے بجائے صرف اور صرف سوشل میڈیا پر ہی اپنی تخلیقات پیش کرتےہیں اور نا  صرف تعریف و تنقید بلکہ پیسے بھی کماتے ہیں۔

ان باقاعدہ تخلیق کاروں کے علاوہ بہت سے ایسے تخلیق کار بھی ہیں جو بے قاعدہ ہی سہی لیکن بہت سے باقاعدہ تخلیق کاروں سے زیادہ بہتر مواد تخلیق کررہے ہیں لیکن وہ اس جانب زیادہ سنجیدہ نہیں ہیں۔اور کچھ اپنے تئیں دانشور بھی ہیں جو دانش ور کم اور دانش وڑ زیادہ ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ سوشل ماس میڈیا کی بلڈنگ انہوں نے ہی اپنے کاندھوں پر اٹھائی ہوئی ہے اور قوم کی اصلاح کی ذمہ داری انہیں اس خدا نے تجویز کی ہے جسے وہ مانتے بھی نہیں۔

خیر ہم تو تین میں نہ تیرہ میں کیونکہ ہم صرف ایک شریف سے فالوور ہیں۔ جو کچھ سوشل میڈیا سے سامنے آئے صحافیوں اور دانشوڑان قوم کو فالو کرتےہیں۔ (یہ فالو کرنے کا کام بڑے مزے کا ہے اگر بندہ ہر چیز ہر بات پرسنل لینا چھوڑ دے۔)  اب ہم ٹھہرے” اولڈ اسکول ” لہذا  ہم اپنے تئیں انہیں اسی طرح فالو کرتےہیں جیسے زمانہ قدیم میں ون وے فین فالوئنگ ہوا کرتی تھی۔ جس جس” سلیبرٹی ” کو فالو کرتےہیں اس کی پوسٹیں پڑھ کر لائک مار دیتےہیں، اگر کمنٹس کھلے ہوں تو اپنی رائے بھی دے دیتے ہیں جو زیادہ تر سنجیدہ کے بجائے مسخری رائے ہوتی ہے لیکن اس مسخری میں بھی کوئی لطیف سا نکتہ بہر حال پنہاں ہوتا ہے جو کسی کو سمجھ آجاتا ہے کسی کو نہیں بھی آتا لیکن ان کے ہزاروں فالورز کو تو بالکل بھی سمجھ نہیں آتا۔ جس کے پبلک کمنٹس بند ہوں وہاں ہم صرف پوسٹ کے تاثر کے مطابق انگوٹھا، دل یا ہا ہا ہا کر کے آجاتےہیں۔

اب یہ سوشل ماس میڈیا کی عظیم ہستیاں یہ بھول جاتی ہیں کہ بھئی یہ سلیبریٹیز ہیں اور ہم فالورز ۔ پیچھا کرنا ہمار اکام ہے تمہارا نہیں ، تمہارا کام ہے تخلیق کاری ، اپنی تخلیقات پیش کرو اور خاموشی سے لوگوں کا رسپا نس دیکھو ، تعریف ہو تو انجوائے کرو ، تنقید ہو تو اپنی تخلیقات کو بہتر بنانے پر توجہ دو ۔ ۔ لیکن اپنا اصل کام بھول کر کوئی فرینڈ ریکوئسٹ بھیج دے گا۔ تو کوئی اِن باکس میں آدھمکے گا، کسی کو تفصیلی تعارف درکا رہوگا تو کسی کو فون پر کنفرم کرنا ہوگا کہ ہم فیک آئی ڈی تو نہیں۔ بہت کم ہیں جو سیلبریٹیز کی طرح ڈیسنٹ رویہ اختیار کرتےہیں۔(ایسے ڈیسنٹ افراد میں سے کم از کم تین ہماری پروفائل میں شامل ہیں اور یہ ہمارے لیے فخر کی بات ہے۔ دو سے ہم بالمشافہ مل بھی چکے ہیں۔ کہنے کا مطلب ہے سب ایک جیسے نہیں ہوتے لیکن اکثریت۔۔  آگے راوی کیا کہے)

کسی کو اعتراض ہوگا کہ اپنی آئی ڈی لاک کر کے یا اپنی ڈی پی پر اپنی تصویر کے علاوہ کچھ اور سیٹ کر کے دوسروں کی پروفائلز پر کیوں کمنٹس کیے جارہے ہیں۔ بھائی تم مشہور آدی ہو، تم نے اپنی پروفائل اور کمنٹس پبلک کے لیے اوپن کیے ہیں ۔ اگر تمہیں اپنی پروفائل پر غیر لوگوں کے کمنٹس نہیں پسند تو بند کرلو یا اپنی پروفائل بھی لاک کرلو۔ ہم تو ایک ریڈر اور فالوور ہیں ہم اگر سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہیں بھی ایسا پڑھیں گے جس پر ہماری بھی کوئی رائے ہے تو ہم اپنی رائے دیں گے ، ویسےہی جیسے اخبار پڑھ کر کسی بھی آرٹیکل یا خبر کے بارے میں اپنی ایک رائے قائم کرتےہیں ۔ کیا اب ایک خبر یا آرٹیکل کے صِلے میں رپورٹر یا صحافی کو اپنے گھر میں گھسالیں ، نہیں ناں ۔۔ تو تمہیں کیوں اپنی پروفائل میں راستہ دیں۔ بطور ایک عام آدمی ہمارا یہ حق ہے کہ ہم کسی کو بھی اپنی پروفائل میں نہ گھسنے دیں ۔ بھئی پبلک فگر آپ ہیں ہم نہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایسے تمام سلیبریٹیز کی خدمت میں عرض ہے آپ کی تحاریر اور خیالات معقول لگتے ہیں اور آپ انہیں پبلیکلی پوسٹ بھی اسی لیے کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچیں لہذا  ہم (اور دیگر لوگ بھی )آپ کو فالو کرتے ہیں کبھی کبھار کسی بات پر زبان میں کجھلی ہو رہی ہو اور کمنٹس کی سہولت ہوتو کمنٹ بھی کردیتے ہیں۔ اس سے زیادہ نہ ہم آپ کی پرائیویسی خراب کرنے کے حق میں ہیں نہ اپنی۔ امید ہےاب آپ مائنڈ کرجائیں گے اور اپنی وال سے ہمیں بلاک وغیرہ کھینچ ماریں گے وہ کونسا کنکریٹ کا بلاک ہوگا ہم کسی اور نام سے پیچھا کرنا شروع کردیں گے آپ کو کونسا پتا چلے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply