روشنی۔۔وہاراامباکر

ولیم نورڈہوس سادہ تجربات کی ایک سیریز کر رہے تھے۔ انہوں نے لکڑیوں کو آگ لگائی۔ انسان دسیوں ہزار سال سے لکڑی کاٹ کر جلاتے آئے ہیں لیکن نورڈہوس کے پاس ایک جدید آلہ بھی تھا جو روشنی کی پیمائش کرنے والا میٹر تھا۔ انہوں نے دس کلوگرام لکڑی جلائی۔ یہ نوٹ کیا کہ یہ کتنا وقت لیتی ہے اور اس سے حاصل ہونے والی روشنی کو میٹر سے نوٹ کیا۔
ایک روز نورڈہوس نے چراغ جلایا جو رومی جلایا کرتے تھے۔ اس میں سرسوں کا تیل تھا اور ایک بتی۔ اس میں انہوں نے شعلہ جلا کر تیل جلتے دیکھا اور اپنے میٹر سے اس کی نرم روشنی کی پیمائش کی۔ دس کلوگرام لکڑی تین گھنٹے میں جل گئی تھی لیکن ایک پیالی بھر تیل سے یہ چراغ پورا دن جلتا رہا تھا۔ زیادہ روشن تھا اور اس کو زیادہ آسانی سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔
نورڈہوس کیا کر رہے تھے؟ وہ روشنی کے بلب کی اہمیت سمجھنا چاہ رہے تھے۔ لیکن یہ ایک زیادہ بڑے پراجیکٹ کا حصہ تھا۔ نورڈہوس اس روشنی سے اکانومکس کے ایک مشکل مسئلے پر روشنی ڈالنا چاہ رہے تھے۔ “مہنگائی کی پیمائش کا مطلب کیا ہے؟”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سوال مشکل کیوں ہے؟ اس کے لئے تصور کریں کہ آپ مغلیہ دور میں ہوتے اور حج کرنے جانا چاہتے۔ یہ مہینوں کا مشکل سفر تھا۔ پھر سٹیم شپ آئے، جن کی وجہ سے یہ سفر چند دنوں کا ہو گیا۔ پھر ہوائی جہاز نے یہ سفر گھنٹوں کا کر دیا۔ ٹیکنالوجی ہی وہ بڑی وجہ ہے جس کی وجہ سے اتنی زیادہ تعداد میں آج لوگ حج پر جاتے ہیں۔ یہ تعداد ایک صدی پہلے تک بھی بہت کم تھی۔ اب اس سفر کو کرنے میں مہنگائی کی شرح کی پیمائش کس طرح سے کی جائے؟ سٹیم شپ کے سفر کی قیمت کا موازنہ بھی ہوائی جہاز سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ دو الگ خدمات ہیں۔ وہ اشیا جن کو آپ خرید سکتے ہیں، وہی تبدیل ہو رہی ہیں تو مہنگائی کا تصور کیا ہے؟
اور یہ سوال صرف تکنیکی تجسس نہیں ہے۔ اس کا جواب ہم کیسے دیتے ہیں؟ یہی ہماری ترقی کو دکھانے کا نکتہ نظر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹموتھی ٹیلر اپنی ابتدائی اکانومکس کی کلاس میں اپنے طلبا سے ایک سوال کرتے ہیں۔ کیا آپ پانچ ہزار ڈالر کی آمدنی آج لینا چاہیں گے یا اتنی ہی آمدنی 1900 میں؟ اس سوال کا جواب پہلی نظر میں آسان لگتا ہے۔ 1900 کے پانچ ہزار ڈالر آج کے ڈیڑھ لاکھ ڈالر ہیں۔ اس سے محل، ملازم اور بہت کچھ خریدا جا سکتا ہے۔ شاہانہ زندگی بسر کی جا سکتی ہے۔ کیونکہ 1900 کا ایک ڈالر آج کے ایک ڈالر کے مقابلے میں بہت زیادہ کچھ خرید سکتا ہے۔
یا پھر شاید نہیں۔ آج کے ڈالر سے فون پر بین الاقوامی کال کر کے اپنے کسی عزیز کا حال چال معلوم کیا جا سکتا ہے۔ تیزرفتار انٹرنیٹ پورا دن استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اینٹی بائیوٹک کا کورس کیا جا سکتا ہے۔ 1900 کے امیر ترین شخص کو بھی یہ سہولیات میسر نہیں تھیں۔
اور ٹموتھی ٹیلر کی کلاس کے طلبا اسی وجہ سے آج کی عام آمدنی کو ایک صدی پہلے کے رئیسانہ طرزِ زندگی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اور یہ صرف ہائی ٹیک اشیا نہیں۔ ریفریجریٹر، کیبل ٹیلی ویژن اور فلش والے ٹوائلٹ جیسی اشیا بھی ہیں۔ اگر ہر وقت ملازم موجود نہیں۔ ڈنر پر بکرے کی ران نہیں۔ تو بھی کوئی حرج نہیں۔ مہنگائی کے اعداد و شمار کہتے ہیں کہ 1900 کے پانچ ہزار ڈالر آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ لیکن وہ لوگ جو جدید ٹیکنالوجی کے عادی ہو چکے ہیں، وہ دنیا کو اس نظر سے نہیں دیکھتے۔
کیونکہ اس چیز کا موازنہ کرنے کا طریقہ ہی نہیں کہ آج کے آئی پوڈ کی قیمت کا ایک صدی پہلے گراموفون کی قیمت سے کیسے موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ ایجادات ہمارے انتخابات کو وسیع کر دیتی ہیں۔ ان کی اہمیت کو اعداد و شمار سے دیکھنے کا کوئی معروضی طریقہ اس وقت نہیں۔ اور شاید کبھی بھی نہیں ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن ہم کوشش کر سکتے ہیں اور بل نورڈہوس یہی کر رہے تھے۔ وہ ایک ایسی کوالٹی کی قیمت کی پیمائش کرنا چاہ رہے تھے جو خاموشی سے ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ اور ہم اس کی بہت پرواہ کرتے آئے ہیں۔ یہ روشنی کی قیمت تھی۔ اس کی پیمائش لیومن میں کی جاتی ہے۔ مثلاً ایک موم بتی تیرہ لیومن دیتی ہے۔ بلب اس سے سو گنا زیادہ۔
تصور کریں کہ لکڑی کاٹنے کی سخت محنت جس میں چھ روز تک دس گھنٹے کام کیا جائے۔ ان ساٹھ گھنٹوں کی محنت سے ہمیں ایک ہزار لیومن روشنی ملتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ آگ صرف روشنی کے لئے نہیں جلائی جاتی تھی۔ گرم رہنے، کھانا پکانے اور موذی جانوروں کو دور رکھنے کے لئے بھی تھی۔ لیکن اگر آپ کو روشنی درکار تھی تو یہی وہ واحد ٹیکنالوجی تھی جو ایسا کر سکے۔ یا پھر سورج طلوع ہونے کا انتظار کرنا ہوتا تھا۔
ہزاروں سال پہلے اس سے بہتر طریقے آنے لگے۔ مصر اور کریٹ میں شمع۔ بابل میں چراغ۔ ان کی روشنی زیادہ ہموار تھی لیکن بہت مہنگی تھی۔ مئی 1743 میں ہارورڈ یونیورسٹی کے صدر اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں کہ ان کے گھر کے تمام افراد دو روز تک چربی کے چراغ بناتے رہے اور انہوں نے پینتیس کلوگرام بنا لی۔ چھ مہینے بعد ان کی ڈائری میں لکھا ہے کہ تمام چراغ ختم ہو چکی ہیں۔ (اور یہ گرمیوں کے طویل دن تھے)۔
اور یہ موم سے بنی رومانٹک موم بتی کی روشنی نہیں تھی جو آج نظر آتی ہے۔ امیر ترین لوگ شہد کی مکھی کا موم افورڈ کر سکتے تھے لیکن زیادہ تر لوگ (حتیٰ کہ ہارورڈ کے صدر بھی) چربی استعمال کرتے تھے۔ یہ بدبو اور دھواں دینے والی روشنی تھی۔ ان کو بنانے کے لئے جانور کی چربی کو گرم کر کے پگھلانا ہوتا تھا اور پھر بڑے صبر سے اس کی بتی کو پگھلی ہوئی چربی میں ڈال ڈال کر اس پر چربی کی تہہ چڑھانا آسان نہیں تھا۔
نورڈہوس کی تحقیق کے مطابق اگر آپ پورا سال ساٹھ گھنٹے ان کو بنانے پر لگاتے تو اتنا بنائے جانا ممکن تھا کہ آپ ایک چراغ سال بھر ہر شام کو دو گھنٹے اور بیس منٹ روشن کر سکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں چیزیں بہتر ہونے لگیں۔ یہ مردہ وہیل کی چربی سے بننے لگیں۔ ان کی مضبوط سفید روشنی پسند کی جاتی تھی، “ان کو گرم موسم میں بھی ہاتھ میں پکڑا جا سکتا ہے۔ اس کے قطرے گر کر عام شمع جتنا گند نہیں مچاتے اور یہ زیادہ دیر تک چلتی ہیں”۔ یہ بنجمن فرینکلن نے لکھا تھا۔ یہ خوبصورت تھیں لیکن مہنگی تھیں۔ امریکی صدر جارج واشنگٹن نے حساب لگایا تھا کہ ایک ایسی شمع روز پانچ گھنٹے روشن کرنے کے لئے سالانہ آٹھ پاوٗنڈ کا خرچ آئے گا۔ (یہ آج کے حساب سے تقریباً دو لاکھ روپے ہیں)۔ ان کی کچھ دہائیوں بعد گیس کے لیمپ آئے اور پھر مٹی کے تیل کی لالٹین۔ انہوں نے روشنی کی قیمت بھی کم کی اور وہیل کو معدوم ہونے سے بھی بچا لیا۔ لیکن یہ بھی نہ ہی سستے تھے اور نہ ہی محفوظ۔ ان سے بو بھی آتی تھی۔ تیل ٹپک جاتا تھا۔ گر جاتے تھے اور اشیا کو آگ لگا دیتے تھے۔
اور پھر کچھ بدل گیا۔ یہ تبدیلی روشنی کے بلب کی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھامس ایڈیسن کے کاربن فلامنٹ والے بلب 1900 میں دس روز کی مسلسل روشنی دیتے تھے۔ یہ موم بتی سے سو گنا زیادہ تھی اور اس کی قیمت ساٹھ گھنٹوں کی مزدوری تھی۔ 1920 میں اتنی ہی قیمت میں ٹنگسٹن والے بلب پانچ مہینوں کی روشنی دے دیتے تھے۔ 1990 میں دس سال کی۔ اس سے دو سال بعد فلورسنٹ بلب آئے جو ان سے پانچ گنا زیادہ چلتے تھے۔ اور پھر جدید ایل ای ڈی جن سے یہ روشنی سستی ہوتی گئی۔
روشنی کے بلب کی ایک گھنٹے کی روشنی ہمارے آباء کے لئے ایک ہفتے کی محنت تھی۔ بنجمن فرینکلن کے لئے پوری دوپہر کی۔ لیکن آج کی اکانومی میں اتنی روشنی کی قیمت ناقابلِ ذکر ہے۔ اور ساتھ ہی یہ صاف ہیں۔ محفوظ ہیں اور اپنی مرضی سے جلائے اور بجھائے جا سکتے ہیں۔ نہ ٹمٹاتے ہیں، نہ چربی کی بو دیتے ہیں اور نہ ہی جلنے کا خطرہ رکھتے ہیں۔ آپ ان کے پاس اپنے بچے کو چھوڑ سکتے ہیں۔
اس صورت میں مہنگائی کی پیمائش کیسے کی جائے؟ قیمت کے اعتبار سے محسوس ہوتا ہے کہ روشنی مہنگی ہوتی گئی ہے، لیکن یہ پہلے سے بہت زیادہ سستی ہے۔ انسانیت نے ایک کے بعد اگلی کے بعد اگلی جدت سے روشنی تک رسائی آسان کر دی ہے۔
ان جدتوں نے ہماری سوسائٹی بدل دی ہے۔ ہم کسی بھی وقت کام کر سکتے ہیں، کتاب پڑھ سکتے ہیں۔ کھیل سکتے ہیں، کپڑے سی سکتے ہیں، خواہ باہر اماوس کی رات کا گھپ اندھیرا ہو۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بلب آج نئے آئیڈیا کے لئے استعارے کے طور پر کیا جاتا ہے۔ روشنی کو ہم ترقی اور شعور نشوونما کی استعارے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اور اس بلب کی روشنی کی قیمت ہی ہمیں اپنی ترقی کا بہت دلچسپ پہلو دکھاتی ہے۔ اتنی زیادہ تیزی سے ارزاں ہوئی ہے کہ ہم بدیہی طور پر اس معجزے کو ٹھیک سمجھ ہی نہیں پاتے۔
مصنوعی روشنی ایک وقت میں اس قدر مہنگی شے تھی کہ صرف امراء کا شوق تھا۔ اب اس قدر سستی ہے کہ ہم اسے نوٹ بھی نہیں کرتے۔ کیا ترقی ممکن ہے؟ کیا ٹیکنالوجی نے ہمیں آسانی دی ہے؟ ہماری زندگیوں کو روشن کیا ہے؟ جدید دنیا کی تمام مشکلات اور چیلنجوں کے درمیان، اگر اس کی یاددہانی کی ضرورت پڑے تو اس کا جواب دیکھنے کے لئے روشنی پر روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔

Facebook Comments