ویکسین (3) ۔ نئی ٹیکنالوجی/وہاراامباکر

ویکسین بنانے کے روایتی طریقوں کے بعد حالیہ پیشرفت پلیٹ فارم ٹیکنالوجی میں ہو رہی ہے۔

اس کا مطلب ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کو استعمال کر کے کئی مختلف بیماریوں کے خلاف ویکسین بنائی جا سکے۔ اگر ایک بار ایک پلیٹ فارم کی اچھی طرح سمجھ آ جائے تو اس کی بنیاد پر نئی ویکسین بہت جلد بنائی جا سکتی ہے کیونکہ بہت سا کام پہلے سے ہو چکا ہے۔
ویکسین بنانے کے لئے اصل پیتھوجن کی ضرورت نہیں۔ اینٹی جن کی شناخت کی جاتی ہے (یہ پیتھوجن کا وہ حصہ ہے جس کے خلاف ہمیں ردِعمل درکار ہے)۔ اس کے بعد سنتھیٹک ڈی این اے بنایا جاتا ہے جو اینٹی جن بنانے کی ہدایات رکھتا ہے اور اس کو پلیٹ فارم ٹیکنالوجی میں شامل کر کے خاص ویکسین بنا لی جاتی ہے۔ مندرجہ ذیل مثالیں پلیٹ فارم ٹیکنالوجی کی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
DNA
ڈی این اے ویکسین میں ڈی این اے کی کڑیاں شامل ہوتی ہیں جس میں اینٹی جن بنانے کی ہدایات ہوتی ہیں۔ اس کا پٹھے میں انجیکشن لگایا جاتا ہے جہاں پر کچھ خلیات اس ڈی این اے کو اٹھا لیں گے، اس کی بناید پر پروٹین بنے گی اور امیون ریسپانس شروع ہو گا۔
اگرچہ اس طریقے سے بنی ویکسین کے کلینیکل ٹرائل ہو چکے ہیں لیکن اس وقت کوئی بھی ایسی ویکسین نہیں جس کو لائسنس ملا ہو کیونکہ فی الوقت اس طریقے سے اچھا امیون ریسپانس نہیں ملا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
RNA / mRNA
ہمارے جین ڈی این اے سے بنتے ہیں۔ خلیات کے اندر ڈی این اے پہلے آر این اے میں کاپی ہوتا ہے اور کوئی خاص پروٹین بنانے کی ہدایات اس میں ہوتی ہیں۔ (ایم آر این اے اس کی ایک قسم ہے جس میں آر کا مطلب messenger ہے)۔
جب آر این اے ویکسین ایک خلیے کے اندر جاتی ہے تو یہ خلیے کو بھی ایک خاص پروٹین بنانے کی ہدایت ویسے ہی کرتی ہے۔ آر این اے مستحکم مالیکیول نہیں۔ اس لئے ان کو چربی کے ننھے قطروں میں رکھا جاتا ہے تا کہ یہ مستحکم رہیں اور خلیے میں پہنچ سکیں۔ آر این اے خود قدرتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کر چند روز میں جسم سے خارج ہو جاتا ہے۔ فائزر اور ماڈرینا کی بنائی گئی کووڈ ویکسین اس کی مثال ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Replication-deficient adenoviral vector
یہ ایڈینووائرس سے بنتی ہیں۔ عام حالات میں یہ ضرررساں نہیں۔ (اس کے سب سے “خطرناک” ممبر وائرس پیٹ کی معمولی خرابی یا سانس کی معمولی انفیکشن کر سکتے ہیں)۔ اس میں سے کم از کم ایک جین نکال دیتے ہیں تا کہ یہ جسم میں نہ پھیل سکے۔ اس وجہ سے اس کو replication deficient کہتے ہیں کہ یہ خود کو پھیلا نہیں پاتا۔ اور اس وجہ سے یہ محفوظ ویکسین ہیں۔
اس ایڈینووائرس میں ویکسین کی اینٹی جن کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ اور ویکسین لگوانے کے بعد یہ اینٹی جن جسم پیدا کرتا ہے۔
ایڈینو وائرس کی کئی اقسام ہیں جو انسانوں کو انفیکٹ کرتی ہیں۔ اور جن لوگوں کو ان سے انفیکشن ہوئی ہو، ان میں اس کے خلاف امیون ریسپانس بن چکا ہوتا ہے اور ان پر ویکسین اتنی موثر نہیں رہتی۔ اس سے بچنے کیلئے یا تو نایاب ایڈینووائرس استعمال کیا جاتا ہے یا پھر ایسا، جو کہ انسانوں کو متاثر نہیں کرتا۔
کووڈ ویکسین میں اس طریقے سے کئی بنائی گئی ہیں۔ آسٹرازینیکا ویکسین چمپینزی کو متاثر کرنے والے وائرس کو استعمال کرتی ہے۔ جانسن اینڈ جانسن انسانی ایڈینووائرس 26 سے۔ CanSino انسان کو متاثر کرنے والے ایڈینووائرس 5 سے جبکہ سپوٹنک ویکسین 5 اور 26 دونوں کو استعمال کرتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے علاوہ دو مزید پلیٹ فارم ہیں جو Replication-deficient poxviral vector اور Replication-competent viral vector ہیں۔ ایبولا وائرس کی ویکسین ان طریقوں سے بنائی گئی ہے۔ مرک کی بنائی گئی ایبولا ویکسین VSV وائرس کو استعمال کرتی ہے جبکہ جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین Ad26 کو۔ لیکن یہ دونوں پلیٹ فارم ابھی تجرباتی مراحل میں ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply