سفرِ حجاج؛ اِ ک جہانِ حیرت/انجینئر ظفر اقبال وٹو(قسط2)

خانہ کعبہ پر زندگی کی سب سے پہلی نظر پڑنے کا لمحہ بہت قیمتی ہوتا ہے۔اس لمحے کو سہہ جانا بہت ہمت مانگتا ہے۔انسان اپنے آپ پر کنٹرول کھو بیٹھتا ہے میرے سامنے کئی حجاج چیخ چیخ کر رورہے تھے۔ اس منظر پر میرے اندر جو احساس بیدار ہوا وہ تھا اپنی کم مائیگی اور مالک کی بے پناہ رحمت اور کرم کا۔۔دل سے بے اختیار نکلا “کہاں میں اور کہاں یہ مقام ،اللہ اللہ”۔یہ ایسے ہی تھا جیسے گلی میں دوڑنے بھاگنے والا اولمپک دوڑ کا گولڈمیڈل جیت لے اور اسے پتہ نہ چل رہا ہو کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا ؟اس نے تو کوئی ہمت کوئی کوشش ہی نہ کی تھی۔اس وقت انسان اپنے آپ کو دینا کا عاجز ترین اور سب سے زیادہ نوازا گیا فرد محسوس کررہا ہوتا ہے۔

طواف میں کیا آہ وزاری کی، سعی میں کیا کیا ہُوا، یہ یاد نہیں ۔ جب پہلی دفعہ خانہ کعبہ کا لمس محسوس ہُوا تو اس لمحے میں زمان و مکان کی قید سے باہر نکل گیا اور یوں محسوس ہو ا کہ گویا کعبہ کو چھو کر یا اس سے لپٹ کر میں کائنات کی کسی بلند ترین چوٹی  پر کھڑا ہوں جہان کوئی اور چیز آس پاس نہیں۔

عمرہ سے فارغ ہوکر میں اپنے سکول کے دوست ارشد ہاشمی کی مکہ کی رہائش پر پہنچا جو کہ حرم کے پاس ہی تھی تو باوجود مسلسل سفر اور تھکاوٹ کے خود کو بہت ہلکا پھلکا محسوس کررہا تھا۔اب مدینہ میں روضہ رسول ﷺ پر حاضری کا سوچ رہا تھا جس کی ارشد ہاشمی مخالفت کررہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ میں خوش قسمتی سے بغیر حج ویزہ یا اقامہ مکہ کے  شہر پہنچ تو گیا ہوں لیکن اگر میں مکہ سے باہر جاتا ہوں تو دوبارہ مکہ میں داخلہ ممکن نہیں ہوسکے گا۔

ادھر میں سوچ رہا تھا کہ مکہ پہنچ کر مدینہ حاضری نہیں ہوتی تو سفر ادھورا رہ جائے گا اور پھر آئندہ آنے کا موقع کب ملے یا شاید نہ ملےلہذا مدینہ شریف کی حاضری کسی بھی قیمت پر کرنی ہے، چاہے واپسی پر مکہ داخل نہ بھی ہو  سکوں۔بالآخر ارشد نے میرے جنون کے سامنے ہتھیار ڈال دیے،لیکن ساتھ ہی مشورہ دیا کہ اس وقت رات زیادہ ہورہی ہےصبح فجر بیت اللہ میں ادا کرکے ٹیکسی پر نکل جانا لیکن مدینہ سے مکہ واپسی گورنمنٹ پبلک ٹرانسپورٹ کی بس میں کرنا جس کی اتنی چیکنگ نہیں ہوتی۔

موٹر وے پر جیسے ہی مدینہ شریف داخلے کا بورڈ نظر آیا تو دل اچھل اچھل کر حلق میں آنا شروع ہوگیا جسے میں کسی کارٹون کی طرح پکڑ پکڑ کر واپس جسم کے اندر ڈالتا تھا۔ کیا یہ حقیر انسان اس قابل تھا کہ اس مقدس شہر میں داخل ہوسکے جس کی فضاؤں میں کبھی سرکارﷺ  سانس لیتے تھے۔آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور زبان پر درودشریف کا ورد۔

مسجدِ  نبوی میں ظہر کی اذان ہورہی تھی اور میرے لبوں پر جاری تھا “یا رسول اللہﷺ  ۔ تیرے در کی فضاؤں کو سلام”۔ روضہ رسول ﷺ پر جالی کے سامنے سلام کا مرحلہ بہت جان کن تھا۔ یہ وہ جگہ تھی جہاں میں اس دنیا میں حضور کے جسم اطہر کے سب سے قریب ترین تھااور سرکار کے جسم اطہر اور میرے درمیان صرف دس سے پندرہ فٹ کا فاصلہ تھا۔اور قربت کا یہ احساس میری جان لئے جا رہا تھا۔کیا مجھ جیسا دنیا دار بندہ اتنی قربت کا اہل تھا۔میں اپنا کون سا عمل لے کر سرکار کے حضور پیش کرنے جارہا ہوں ؟

مدینہ شریف میں دن کی حاضری کے بعد رات کو میں سرکاری بس سروس ٹرمینل پر مکہ واپس جانے والی بس میں بیٹھ چکا تھا کیونکہ کل میرے تین روزہ ٹرانزٹ ویزہ کا آخری دن تھا اور میں مدینہ سے مکہ جا کر ایک بڑے عمرے کی سعادت لینا چاہتا تھا۔ رات دس بجے سے اوپر کا ٹائم تھا جب چلتی بس میں ایک شرطہ سوار ہوا اور سب کے اقامے اور ویزے چیک کرنے لگا۔میرے پاسپورٹ کو دیکھتے ہی اس نے مجھے بس سے نیچے اتار دیا کہ میں اس پر حج سیزن میں مکہ نہیں جا سکتا۔

میں مسکرا کر نیچے اترا قریب ہی ایک ٹیکسی سٹینڈ سے ٹیکسی پر پہنچا، جہاں کوئی بھی ٹیکسی والا مجھے ٹرانزٹ ویزہ پر مکہ لے جانے کے لئے تیار نہ تھا۔ کافی جستجو کے بعد ایک نوجوان بدو کے ساتھ زیادہ معاوضے اور مکہ داخل نہ ہوسکنے کی صورت میں جدہ ائیرپورٹ ڈراپ کا طے کرنے کے بعد مدینہ سے دوبارہ حاضری کی درخواست کے ساتھ روانگی پکڑی۔حجاج کرام نے مدینہ شریف اور سارے راستے میں خوب رونق لگائی ہوئی تھی۔

صبح صادق سے کچھ پہلے جب ہم مکہ کے داخلی چیک پوائنٹ پر پہنچے تو وہاں سخت چیکنگ ہورہی تھی ۔ٹیکسی والا تھوڑا سا پریشان ہوا لیکن میں نے اسے سکون سے آگے بڑھنے کو کہا اور خود آنکھیں بند کر کے درود شریف پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ خلاف توقع ہمیں معمولی جانچ سے بھی نہیں گزرنا پڑا اور ہم مکہ میں داخل ہوگئے۔

بیت اللہ میں اذان فجر ہورہی تھی جب میں ارشد ہاشمی کو مکہ میں واپس داخلے اور دوسرا عمرہ شروع کرنے کا فون پر بتا رہا تھا۔ اس کے لئے یہ سب ناقابل یقین تھا جب کہ میرے لئے عین الیقین۔ یہ دن مکہ گزارنے کے بعد اگلی صبح جدہ سے لاہور کے لئے واپسی تھی۔ارشد ہاشمی اور دیگر دوست مجھے اب یہاں رک کر حج مکمل کرکے ہی واپسی کے مشورے دے رہے تھے لیکن میں نے رب کے وعدے پر واپس جانا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جب حاجی کچھ دن بعد منی میں جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے تو میں جدہ ائیر پورٹ کی امیگریشن پر لاہور کی فلائیٹ پر چیک اِن ہونے کے لئے لائن میں لگا ہوا تھا۔ ائیر پورٹ پر دنیا بھر سے حجاج کے قافلے امنگ بھرے چہروں کے ساتھ ائیرپورٹ پر ہر طرف گھومتے پھر رہے تھے اور مجھے للچا رہے تھے لیکن مجھے تو واپس جانا تھا۔ مجھےاس وقت پتہ نہیں تھا کہ اگلے سال (2012)میں بھی اسی طرح ان حاجیوں کے قافلوں میں شامل ہوکر جدہ ائیرپورٹ پر پھراُتر رہا ہوں گا؟ رب کا وعدہ کتنا سچا تھا۔ کھٹمنڈو سے واپسی کی فلائٹ میں کئے گئے اعتراف حقیقت اور اظہار طلب کے دوسال سے بھی کم عرصے میں میں حج کر چکا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply