عتیق کا نہیں، قانون کا خون ہُواہے/ابھے کمار

میڈیا نے عتیق احمد کے بارے میں جو شبیہ بنائی تھی، ہم بھی اس سے متاثر ہوئے  بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ان کی اِمیج ایک گینگسٹر کی تھی۔کہا گیا کہ ان کے تار بڑے بڑے سیاست دانوں سے جُڑے  تھے۔الزام تھا کہ تشدد کے کئی معاملوں میں بھی اس کا رول تھا۔سچائی جو بھی ہو، قانوں سےبڑا کوئی نہیں ہے۔جو بھی قانون توڑے اس کے خلاف کارروائی ضرور ہونی چاہیے۔ عتیق احمد بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھے اور عدالتیں اس کے خلاف مقدموں کی سماعت کر رہی تھیں۔مگر غم و غصہ کی بات یہ ہے کہ عدات کے فیصلے کا انتظار کیے بغیر، عتیق اور اس کے بھائی اشرف کا بہیمانہ طریقہ سے قتل کر دیا گیا ہے اور ان کے بیٹے اسد احمد کا انکاؤنٹر کچھ روز قبل کر دیا گیا تھا۔ حملہ آوروں نے گولی چلانے کے بعد “جے شری رام” کے نعرے بھی لگائے۔سوشل میڈیا پر فرقہ پرست طاقتیں اس وحشیانہ قتل کا جشن منا رہی ہیں،مگر افسوس کہ جمہوریت کا ستون میڈیا بھی قتل اور انکاؤنٹر کلچر کو ڈھکی چھپی زبان میں صحیح ٹھہرا رہا ہے۔مباحثہ میں انسانی حقوق کی پامالی اور بدامنی کی صورت حال پر بات نہیں ہو رہی ہے، بلکہ میڈیا اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے رہا ہے۔یہ سب دیکھ کر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گولیاں بھلے ہی عتیق اور ان کے بھائی پر چلی تھیں، مگر خون قانون کا بہا ہے۔

یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ پولیس کی تحویل میں موجود عتیق اور ان کے بھائی پرحملے ہوئے۔جب اُتر پردیش پولیس کی موجوگی میں کوئی محفوظ نہیں ہے، تو ریاست میں نظم و ضبط کے کیا حالات ہوں گے؟ قومی میڈیا کے کیمرے کے سامنے گولی چلائی گئی اور فائرنگ کی  ویڈیو کیمرے میں قید ہوئی ۔اب یہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئی  ہے۔قتل کی واردات پہلے بھی ہوئی تھی، مگر اس بار فرق یہ ہے کہ اس خوفناک منظر پر جشن منایا جا رہا ہے۔دنیا کی سب سے  بڑی جمہوریت میں انکاؤنٹر کی تعریف ہو رہی ہے۔پل بھر میں انصاف دینےکی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے۔ ایسی دلیل دینے والے کبھی یہ نہیں سوچتے کہ اگر ایسا رواج چل پڑا ، تو پھر عدالتیں کیا کریں گی؟ جب عدالت بند ہو جائیں گے، تو پھر جمہوریت زندہ رہ پائے گی؟

آخر کیوں حملہ آوروں نے گولی چلانے کی بعد جئے شری رام کے نعرے  کیوں  لگائے ؟ پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے بھگوان کا نام اپنی گندی زبان سے لے کر ان کی بے حرمتی کی۔مگر جب ہم سوچتے ہیں، تو ایسا لگتا ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں نے یہ سب کچھ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انجام دیا ہے۔عتیق ایک مسلمان تھا اور اس کے تعلقات غیر بی جے پی پارٹیوں سے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر گولی چلانے کے بعد  قاتلوں نے مذہبی نعرے  لگائے ۔ وہ شدت پسندوں تک یہ پیغام دینا چاہتے تھے کہ ایک “مسلم” جرائم پیشہ شخص  کو مار دیا گیا ہے اور اس طرح ہندو سماج کے در پیش خطرے کو ختم کر دیا گیا ہے ۔ بار بار بی جے پی خود کو ہندو سماج کی واحد نمائدہ کہتی ہے اور اپنی حریف پارٹیوں کو “مسلمانوں کی جماعت” کہہ کر ہندوؤں کی نظروں میں بدنام کرنے کی کوشش کرتی ہے۔عتیق کے کیس میں بھی سماجوادی پارٹی پر خوب حملہ کیا جا رہا ہے۔فرقہ پرست طاقتیں یہ افواہ پھیلا رہی ہیں کہ عتیق کو بچانے میں سابقہ سیکولر جماعتوں کا بڑا رول   رہا ہے، جبکہ موجودہ حکومت نے اس کو سزا دی ہے۔اس طرح سے عتیق کے خاندان والوں کو انصاف دینے کی جگہ، پورے معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دے دیا گیا ہے۔شاید اس کا مقصد اگلے سال ہونے والے عام انتخابات بھی ہیں، جس سے عین قبل شدت پسند عناصر کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے  کہ حکومت ہندتو کے منصوبے کو تیزی سے نافذ کر رہی ہے۔ خود بھاجپا سرکار جانتی ہے کہ وہ فلاحی کاموں کو انجام دینے میں ناکام رہی ہے۔ اس لیے اس کی یہ مجبوری ہے کہ وہ فرقہ واریت کی آگ کو  بُجھنے نہ دے ۔

بہت سارے سیاسی مبصرین نے عتیق قتل کی ٹائمنگ پر بھی سوالات اٹھائے ہیں۔قتل کے ایک ہی روز قبل جموں اور کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے بزرگ صحافی کرن تھاپر کو ایک انٹرویو دیا تھا، جس میں انہوں نے ۲۰۱۹ کے پلوامہ حملہ سے متعلق اہم بات کہی تھی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ حکومت کی ناکامی کی وجہ سے ہُوا تھا۔ سابق گورنر نے مزید کہا کہ وزیر اعظم نریند مودی کو بدعنوانی سے نفرت نہیں ہے۔

مبصرین کا دعویٰ ہے کہ اپنے ہی گورنر کے بیان سے مودی سرکار گھبراہٹ میں تھی اور اس کا  چہرپ  لال ہو گیا  تھا ۔ اس سنسنی خیز انکشاف کو حکومت ہرحال میں عوام کی نظروں سے دور لے جانا چاہتی تھا۔ ایسا محسوس بھی ہو رہا ہے کہ عتیق قتل کے شور میں ستیہ پال ملک کا بیان ایک حد تک دب کر رہ گیا ہے۔ مین اسٹریم میڈیا پہلے ہی اس انٹرویو پر خاموشی اختیار کیے ہوئے  تھا۔

عتیق اور ان کے بھائی کے قتل کا خوفناک منظر محکوم طبقات اور اقلیتوں کے دلوں میں زبردست ناراضگی اور غصہ بھر چکا ہے۔ آج وہ خود کو اپنے ہی ملک میں تنہا محسوس کر رہے ہیں۔انہیں اپنی جان و مال کی فکر بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ہر ماں اور باپ دروازے پر نظر جمائے بیٹھے ہیں کہ کب ان کی بیٹی اور بیٹا سلامتی کے ساتھ گھر لوٹ آئے گا۔ قتل بھلے ہی عتیق اور اس کے بھائی اور بیٹے کا ہوا ہے، مگر گولی کی آواز اور مقتول کی چیخ ہر طرف گونج رہی ہے۔ یہ کسی بھی حکومت کی بڑی ناکامی ہے کہ شہری اپنی جان اور زندگی کو لے کر ہر وقت فکرمند رہیں۔اگر کوئی فرد اپنی زندگی کو لے کر اس قدر خوفزدہ رہے گا، تو وہ کیسے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنی خدمات ادا کر پائے گا؟

خوف کی وجہ اتر پردیش میں موجود “بلڈوزر راج”ہے، جس کی مذمت کرنے کی جگہ اس پر جشن منایا جا رہا   ہے۔ملک کے بیشتر لوگ اپنی پوری زندگی  میں ایک چھت نہیں بنا پاتے ہیں، مگر اُتر پردیش کے وزیر عالیٰ یوگی ادتیہ ناتھ کے راج میں کمزورں کا گھر مسلسل گرایا جا رہا ہے۔المیہ یہ ہےکہ اُتر پردیش کے وزیر اعلیٰ کو ان کے بھکت “بلڈوجر بابا” کہہ کے خطاب کر تے ہیں۔ بلڈوجر کسی مکان کو توڑ سکتا ہے، بنا نہیں سکتا ہے۔یعنی ریاست کے سب سے بڑے لیڈر کی پہچان گھر توڑنے والے شخص کی بنتی جا رہی ہے اور اس پر خوشی کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔کیا یہ سچ نہیں ہے کہ اُتر پردیش میں ذات اور مذہب دیکھ کر بلڈوزر چلتا ہے؟جہاں پولیس کمزور طبقات کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہے، وہیں ایک خاص ذات اور دھرم سے تعلق رکھنے والے مافیا، دنگا کرنیوالے  اور جرائم پیشہ افراد کو اقتدار کی سرپرستی حاصل ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ریاست میں انسانی حقوق کی مسلسل پامالی ہو رہی ہے۔ایک خاص مذہب میں پیدا ہونے والے لوگوں کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہے اور ان کے خلاف ہو رہے انکاؤنٹر پر تالیاں بجائی جا رہی ہیں ۔ یہ جمہوریت کے لیے مضر ہے کہ عاملہ بے لگام ہو جائے، اور شہری حقوق کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری کوعدالتیں نبھانے میں ناکام ہو جائیں ۔میڈیا کا حال تو اور بھی بُرا ہے۔ایسا لگ رہا ہے کہ “گودی میڈیا” اب “گولی میڈیا” بنتا جا رہا ہے۔ٹی وی چینل کا اسٹوڈیو “کینگرو کورٹ” میں بدل چکا ہے۔حزب اختلاف کی اس بات میں دم ہے کہ ہندوستانی سیاست شاید آزاد بھارت میں اپنے بُرے دور سے گزر رہی ہے۔ جہاں قانون یہ کہتا ہے کہ جب تک کسی ملزم کے خلاف کوئی جرم ثابت نہ ہو جائے، تب تک اسے قصوروار نہیں سمجھا جا سکتا ہے، وہیں سزا ملنے سے پہلے ہی انکاؤنٹر  کر دیا جا رہا ہے۔

مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کے خلاف بھی مقدمہ چلا، پھر ان کو سزا ملی۔ان کا انکاؤنٹر نہیں کیا گیا تھا۔ مگر اُترپردیش کے بلڈوجر راج میں عدالت اور قانون کو بائی پاس کیا جا رہا ہے۔ ریاست کا سب سے بڑا لیڈر، جس نے آئینی منصب پر بیٹھتے وقت، آئین کی قسمیں لی ہیں، وہ مافیا کو مٹی میں ملا دینے کی بات کہہ کر انکاؤنٹر کلچر کو جانے انجانے بڑھاوا دے رہا ہے۔ کیا ان کو یہ بات معلوم نہیں ہے کہ خود ان کی پارٹی کے اندر بڑی تعداد میں “مجرمانہ شبیہ” کے لیڈر موجود ہیں؟کیا وہ ان کو بھی مٹی میں ملانے کے  لیے تیار ہیں؟ مگر ملک کا شہری کسی کے خلاف غیر قانونی کارروائی کی حمایت نہیں کرتا ہے۔انکاؤنٹر کلچر کا تو ہرگز بھی نہیں، خواہ اس کا استعمال کسی کے خلاف ہو۔یاد رہےکہ انکاؤنٹر کلچر جمہورت کو لاقانونیت، بربریت اور آمریت کی طرف لے جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مضمون نگار جے این یو سے تاریخ میں پی ایچ ڈی ہیں۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply