غیر یقینی اور عدم اعتماد /ڈاکٹر مختیارملغانی

مقصد کی جدوجہد میں آپ کے راستے کی واحد رکاوٹ آپ خود ہیں،زیادہ واضح طور پر کہا جائے تو آپ کے اندر اعتماد اور یقین کی کمی ہی بدترین دشمن ہے، یہ دشمن آپ کے اندرونی ارادوں کو بے اثر اور بیرونی ارادوں کو ناممکن بنا کے رکھ دیتا ہے، بے یقینی کی کیفیت میں جو کچھ بھی کیا جائےگا ،خاطر خواہ نتائج حاصل نہ ہوں گے، کچھ کر گزرنے کی خواہش کا دباؤ جتنا شدید ہوگا، نتیجہ اتنا ہی بُرا آئے گا، اپنی قابلیتوں پر شک اور سماج کے آپ کی ذات سے جڑے خواب آپ کی روح اور جسم کو جکڑتے ہوئے شل کر کے رکھ دیتے ہیں، شل کر دینے کی فطرت یہ ہے کہ آگ میں جلتے پلاسٹک کی طرح آپ جکڑتے اور سکڑتے چلے جاتے ہیں۔

مقصد کو پانے کا بیرونی دباؤ آپ کی اندرونی خواہش کو مزید بھڑکاتا ہے، جبکہ آپ کی ذات کا اندرونی دباؤ آپ کی صلاحیتوں پر شکوک کو جنم دیتا ہے، اور یہ مل کر بے یقینی کی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ بے یقینی کی یہی کیفیت اندرونی ارادوں کو اپنی جکڑ میں ایسے لیتی ہے کہ ان ارادوں کی نیک نیتی اور آپ کی محنت کے باوجود شکست ہی مقدر ٹھہرتی ہے، ایسے میں بد ترین حادثہ جو فرد کے ساتھ پیش آسکتا ہے ، وہ یہ کہ فرد کی پوری انرجی انہی الجھنوں پر قابو پانے میں صرف ہوتی ہے اور فرد خود کو ناکام، بے آسرا اور زنجیروں میں بند محسوس کرتا ہے، طبیعت میں بے اعتمادی ، کھچاؤ اور اضطراب پیدا ہوتا ہے ، ایسے جیسے کسی غائبی طاقت کی آہنی گرفت آپ کو اپنے قابو میں لئے جاتی ہو، اس کیفیت کا تسلسل فرد کو گویا کہ سکتے میں لے جاتا ہے جہاں کچھ سمجھنا اور سمجھانا اس کیلئے ممکن نہیں رہتا۔

اس پوری صورتحال میں ، سونے پہ سہاگا ،مطابق احساسِ ندامت کا حملہ انسان کو مکمل طور پر نچوڑ کے رکھ دیتا ہے، ندامت کا یہ احساس اور اس سے جڑے تمام منفی احساسات انسان کیلئے انرجی کے تمام دروازوں کو بند کر کے رکھ دیتے ہیں، نتیجے میں قوت فیصلہ دفن ہو کر رہ جاتی ہے، اس کا دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ ایسی صورتحال میں آپ کے گرد موجود انرجی چوسنے والی بلائیں اس تعفن زدہ لاش کی بو سونگھتے ہوئے ایسے حملہ آور ہوتے ہیں جیسے پروانے شمع کو دوڑتے ہیں ۔ وہ آپ کے کمزور احساسات کو لے کر آپ کو اپنی انگلیوں پر نچاتے ہیں اور آپ کے پاس وضاحتیں گھڑنے کے علاوہ کوئی دوسری تدبیر نہیں ہوتی، یہ فضول وضاحتیں اور غیر منطقی تدبیریں قوت اعتماد پر چوٹ کرتی رہتی ہیں۔

اس رقت انگیز کیفیت پر قابو پانے کیلئے بعض اوقات انسان دوسروں پر حملہ آور ہوتے ہوئے خود کو ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے، گویا کہ یہ جارحیت اس کے خود پر یقین کی دیواروں کو بلند کرے گی ، ایسا رویہ ایک طرف بہت زیادہ توانائی کا متقاضی ہوتے ہوئے فرد کو مزید تھکا دیتا ہے اور دوسری طرف مصنوعی اور بناوٹی کردار صرف جگ ہنسائی کا باعث بنتا ہے۔
اس کا حل کیا ہے ؟

پہلی چیز جو اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے وہ یہ کہ یقین و اعتماد کے فقدان سے جدوجہد کرنا بالکل بیکار ہے، اسے کسی بھی لبادے میں چھپانا ممکن نہیں، بعض اوقات بتایا جاتا ہے کہ آپ اپنے عمل سے ، اپنی محنت سے خود کو مضبوط بنائیں ، اس سے آپ کے اندر خود بخود اعتماد پیدا ہوگا، یہ بات درست نہیں، محنت اور عمل سے آپ کے اندرونی ارادوں کی انرجی کو راستہ ضرور ملتا ہے جو وقتی سکون و تسلی کا کام دیتا ہے لیکن اس سے خود اعتمادی حاصل نہیں کی جا سکتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بے یقینی اور بے اعتمادی سے نکلنے کا واحد نسخہ یہ ہے کہ کسی بھی معاملے ، چیز، فرد یا تعلق کو غیر ضروری اہمیت نہ دی جائے، غیر ضروری اہمیت ایسا بوجھ ہے جو آپ کی شخصیت کے تمام مثبت پہلوؤں کو دباؤ میں رکھتا ہے، غیر یقینی دو وجوہات سے پیدا ہوتی ہے، پہلی وجہ اندرونی ہے، آپ اپنے ذاتی خواص کو لے کر سراسر غیر متعلقہ فکر پالتے رہتے ہیں، یہیں سے تمام پیچیدگیاں اور احساسِ کمتری جنم لیتا ہے، دوسری وجہ بیرونی ہے جس میں بیرونی عوامل کو حد سے زیادہ اہمیت دینا اور ان پر انرجی خرچ کرنا ہے، اس کیٹاگری میں کیریئر اور سماجی سٹیٹس آتے ہیں ، ان دو وجوہات کے نتیجے میں بے چینی اور بے قراری سامنے آتی ہے، جہاں ایک طرف اپنے پوٹینشل کو کم سمجھنا اور دوسری طرف بیرونی تقاضوں کو زیادہ جاننا ہے ۔ اگر غیر ضروری اہمیت کی دیواریں بلند ہیں تو آپ کسی طرح بھی اس دلدل سے باہر نہیں آسکتے، اچھی طرح جان لیجئے کہ شک وہیں پیدا ہوتا ہے جہاں یقین موجود ہو، ہچکچاہٹ اور تردد تب ہی سامنے آتے ہیں جب آپ خود پر اعتماد رکھتے ہیں۔ شک، ہچکچاہٹ ، تردد، جھنجھلاہٹ وغیرہ ہر اس شخص میں پائے جائیں گے جس کے اندر یقین اور اعتماد کا عنصر موجود ہوگا، ان شکوک و پریشانیوں سے صرف وہ انسان آزاد ہے جو یقین و اعتماد سے مکمل محروم ہے، اوور کونفیڈینس اور خودسری دراصل عدم اعتماد ہی کی شکل ہے اس فرق کے ساتھ کہ اس کا سر کندھوں پر نہیں بلکہ ٹانگوں کے بیچ رکھا ہے ۔ لہذا ان تمام فضولیات کو سر سے اتار پھینکنے میں ہی بھلائی ہے، آپ جیسے ہیں ویسے ہی بہتر اور مؤثر ہیں، جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ آپ جیسا پوری کائنات میں دوسرا کوئی نہیں، یہی انفرادیت ہی آپ کی اصل طاقت ہے۔
( اندرونی اور بیرونی ارادوں کے حوالے سے راقم الحروف کی وال پر علیحدہ سے مضامین موجود ہیں، اگر کوئی دوست دلچسپی رکھتا ہوتو)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply