• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • لاک ڈاؤن میں نرمی، شہر کراچی کا آنکھوں دیکھا حال۔۔درخشاں صالح

لاک ڈاؤن میں نرمی، شہر کراچی کا آنکھوں دیکھا حال۔۔درخشاں صالح

بارہ مئی بروز پیر Covid-19 Pandemic کے
لاک ڈاون میں وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت سندھ کی طرف سے نرمی کا اعلان کیا گیا۔
سندھ حکومت کی SOPs کے مطابق صبح چھ بجے سے شام چار بجے تک کاروبار کھولا جاسکتا ہے۔ کاروبار ہفتے میں صرف چار دن کھلے گا۔ SOPs کے مطابق پیر سے جمعرات دکانیں کھولنے کی اجازت ہوگی۔
عام عوام کا شام پانچ بجے سے صبح چھ بجے تک غیر ضروری طور باہر نکلنا منع ہے۔

آج لاک ڈاؤن میں نرمی کے پہلے ہی دن عوام ان SOPs کی دھجیاں اڑاتی نظر آئی۔ میں ایک سماجی کارکن ہوں اور اس مشکل وقت میں لوگوں کی خدمت کے لیے مجھے گھر سے نکلنا پڑرہا ہے۔ آج دوپہر 3 بجے کے قریب میں اپنے گھر “عائشہ منزل” سے “دو منٹ چورنگی” تک اپنے بھائی کے ساتھ گئی۔ راستے میں آنے والی تمام دوکانوں کو کھلا دیکھا، جن میں اشیاء ضرورت کے علاوہ موٹر مکینک کی دوکانیں، درزی، فاسٹ فوڈ، بریانی، ریسٹورینٹ اور پکوان کی دوکانیں  شامل ہیں ۔ ان سب دوکانوں پر لوگوں کا ہجوم دیکھ کر کہیں سے ایسا نہیں لگا کہ  COVID-19 ہے اور لاک ڈاؤن ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں نرمی کی گئی ہے۔

پھلوں اور سبزیوں کے ٹھیلوں پر لوگ ایسے ٹوٹے تھے کہ جیسے شہد پر مکھیاں اور تو اور چھوٹے شاپنگ مالز بھی کھلے نظر آئے، ان شاپنگ مالز میں خواتین کی بڑی تعداد، اپنے شوہروں، بھائیوں اور والد صاحب کی جیبیں خالی کراتیں نظر آئیں۔ اُن خواتین کے ہاتھوں میں موجود شاپنگ بیگز دیکھ کر کہیں سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ قوم ایسی مشکل میں گھری ہے جہاں اُسے   راشن نہیں مل رہا،  کپڑے اور جوتے، وافر مقدر میں موجود ہیں اور خریدے جا رہے ہیں۔

شاپنگ مال سے ذرا آگے چلیں تو پان کا کیبن نظر آیا، جہاں لوگ پان کھاتے، سگریٹ پیتے، اور نسوار لیتے نظر آئے۔ دوسری طرف سڑکوں پہ رش کا یہ عالم تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ  دے۔ صرف پبلک بسیں سڑکوں پر نہیں تھیں، باقی رکشہ اور چنگچی بھی  اپنی آب و تاب کے ساتھ رواں دواں تھے۔

سڑکوں پر موجود لوگوں کو دیکھ کر ایسا لگا کہ کررونا وائرس کا سراسر کوئی وجود  ہے   ہی نہیں ۔ کیونکہ کوئی احتیاطی تدابیر اختیار کرتا نظر نہیں آیا، نہ  ہی ماسک لگے تھے، نہ  ہی لوگوں نے میڈیکل دستانے پہنے ہوئے تھے۔ سماجی دوری کا عالم یہ تھا کہ ایک موٹر سائیکل پر پانچ، پانچ لوگ موجود تھے۔ میاں، بیوی، تین بچے، ایک بچہ گود میں، ایک بیچ میں اور ایک ٹنکی پر بیٹھا تھا۔ یہاں تک کہ ایک صاحب نے اپنے ساتھ دو خواتین کو بٹھایا ہوا تھا۔ رہی بات چنگچی کی تو اس میں نو مختلف لوگ بیٹھتے ہیں جو کسی ایک خاندان سے بھی نہیں ہوتے۔ کہاں گئی سماجی دوری اور گھر پر رہیں اور محفوظ رہیں والی کہانی۔۔۔ اور کہاں گئی سندھ پولیس جس نے ان SOPs پر عمل درآمد کروانا ہے۔؟

اب چلتے ہیں افطار کے بعد کے مناظر پر، رات تقریبا ًنو بجے، میں اپنے بھائی کے ساتھ اپنے گھر عائشہ منزل سے ملیر، قائد آباد، اور لانڈھی کے علاقوں کی طرف گئی، واضح رہے کہ یہ وقت لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد کا ہے۔ سڑکوں کا وہی عالم، ٹریفک اپنی رفتار سے رواں دواں۔۔۔
بس ایک منظر مختلف  تھا کہ بیشتر دوکانیں بند نظر آئیں، کچھ دوکانیں کھلی ہوئیں تھیں، جن میں فاسٹ فوڈ، اور دودھ دہی کی دوکانیں شامل ہیں۔ کچھ دوکانیں آدھا شٹر گرا کر کھلی ہوئیں تھیں، ان علاقوں میں لوگ اپنی سماجی تفریحات کرتے بھی نظر آئے۔ کہیں میوزک کی تیز آواز کہیں بچے کرکٹ کھیل رہے ہیں  اور کہیں گھر کے دروازوں کے باہر گلی میں چادریں بچھائے، لوگ محفل جمائے بیٹھے تھے۔ ساتھ ساتھ گھر کے بچوں کا کھیل جاری تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

قصہ مختصر کہ لوگ یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کرونا وائرس کا وجود ہے۔ اسی لیے عوام تمام تر احتیاطی تدابیر کو بالائے تاک رکھ کر اپنے روز مرہ زندگی کے معمولات پر گامزن ہیں۔انتظامیہ  خاموش تماشائی بنی سب دیکھ رہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ لوگوں میں شعور بیدار کیا جائے۔۔۔ انکے لیے بروقت حفاظی اقدامات کیے جائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply