پندرہویں پارے کا خلاصہ

اس پارے میں سورہ بنی اسرائیل مکمل اور سورہ کہف کا بیشتر حصہ ہے۔ یہ دونوں مکی سورتیں ہیں۔ سورہ بنی اسرائیل مکے کے ابتدائی دور میں نازل ہوئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو سونے سے پہلے اس کی تلاوت کرتے تھے، اور فرماتے تھے کہ یہ میرے قدیم مال میں سے ہے۔
یہ سورت معراج نبوی کے بعد نازل ہوئی اس لیے معراج کے ذکر سے اس کی ابتدا ہوئی۔ اس رات اللہ تعالی نبی کریم کو مکے سے بیت المقدس لے کر گئے، وہاں آپ نے تمام انبیاء کی امامت کی۔ وہاں سے آپ آسمانوں پر تشریف لے گئے جہاں آپ کو اللہ تعالی سے براہ راست ہم کلام ہونے کا موقع ملا، جنت دوزخ کا مشاہدہ کرایا گیا اور بہت سی نشانیاں دکھائ گئیں۔ اسی موقع پر نمازیں فرض کی گئی۔ یہ بہت بڑا معجزہ تھا، لہذا اللہ تعالی کی پاکیزگی کے ذکر کے ساتھ اس کا ذکر کیا گیا۔
پھر بنی اسرائیل کا ذکر کیا گیا کہ ان کی ہدایت کے لیے تورات نازل کی گئی تھی۔ نوح علیہ السلام کا ذکر اس صفت کے ساتھ کیا گیا کہ وہ بہت شکر گزار بندے تھے۔ اس سے شکر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔
پھر بنی اسرائیل کے چند واقعات ذکر کیے گئے کہ ان پر جو سختی آئی وہ ان کے اعمال کی بدولت آئی۔ یہ بنیادی قاعدہ بتایا گیا کہ جب انہوں نے اللہ کے حکم پر عمل کیا تو انعام کے حقدار پائے اور جب سیدھا راستہ چھوڑ کر گمراہ ہوئے تو عذاب اور سختی کے مستحق ٹھہرے۔ تو جو بھی نیکی کرتا ہے وہ اپنے لئے کرتا ہے، اور جو سرکشی کرتا ہے وہ اس کا بدلہ پاتا ہے۔ ہر فرد، قوم، قبیلے اور امت کے لیے یہی اصول ہے۔
قرآن کی آمد کا مقصد بتایا گیا کہ یہ سیدھا راستہ دکھاتا ہے، اس کی ہدایت کے بغیر صحیح راستہ نہیں مل سکتا۔ مومن کے لیے بشارت ہے اور جھٹلانے والوں کے لئے وعید ہے۔ بتایا گیا کہ انسان بھلائی کی جس طرح جلدی کرتا ہے اسی طرح برائی کی بھی جلدی کرتا ہے۔ بد دعائیں کرتا ہے اور یہ انسان کی جلد بازی کی وجہ سے ہے۔ اس کے ذریعے سے ان لوگوں کی مذمت کی گئی جو غصے کی حالت میں بد دعائیں کرتے ہیں۔ اگر قبولیت کا وقت ہو تو بد دعا بھی قبول ہو جاتی ہے۔ جس کے لیے بد دعا کی جا رہی ہو اگر وہ اس کا اہل نہ ہو تو پلٹ کر دینے والے پر آجاتی ہے۔ اس لئے اس عمل سے ہمیشہ بچنا چاہیے، خاص طور پہ اولاد کو کبھی ان کی نافرمانی پہ بد دعا نہیں دینی چاہیے۔
پھر کچھ بات قیامت اور اعمالناموں کی کی گئی۔ فرمایا ہر انسان کا عمل اللہ تعالی نے اس کے گلے میں لٹکا رکھا ہے۔ یہ کتاب کی صورت میں قیامت کے دن ہر کسی کے سامنے آئے گا، حکم دیا جائے گا کہ اب اس کو پڑھو اور اپنے انجام کے بارے میں جان لو۔ اس لیے ضروری ہے کہ اپنا محاسبہ اس حسرت والے دن کے بجائے دنیا میں ہی کر لیا جائے۔ ہدایت قبول کرنے میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے، گمراہی کا وبال بھی انسان خود ہی اٹھائے گا۔ کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ یہ بھی بتا دیا کہ جو دنیا چاہتا ہے اسے دنیا میں ہی بدلہ دے دیا جائے گا۔ یعنی جو دنیا کے فائدے کے لئے عمل کرے گا وہ دنیا میں ہی فائدہ اٹھا لے گا اور آخرت میں اس کے لئے جہنم کی وعید ہے۔ لیکن جو آخرت کے لئے عمل اور کوشش کرے گا اس کی کوشش رائیگاں نہیں جائے گی، لیکن اس کے لئے ایمان شرط ہے۔ اللہ دنیا میں مومن و کافر سب کی مدد کرتا ہے لیکن آخرت کی مدد کے لئے ایمان اور عمل صالح شرط ہے۔ جو آخرت چاہتا ہے اس کے لئے وہاں بڑے درجات ہیں۔
اس سورت میں اللہ تعالی نے چودہ نکات ایسے بیان کیے جن سے مسلم معاشرے کی مہذب شکل وجود میں آتی ہے۔ چنانچہ فرمایا عبادت صرف اللہ کی کرو، اور اس کو اللہ نے اپنے فیصلے سے تعبیر کیا۔ سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ انسان عبادت میں اللہ کے ساتھ شرک کرے۔
اس کے بعد ہدایت کی گئی کہ والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو اور خاص طور سے بڑھاپے کی حالت کا ذکر کیا۔ کیونکہ اس وقت اولاد جوان ہوتی ہے اور والدین کمزور۔ تو بعض اوقات مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اولاد کو اس وقت نرمی سے پیش آنا چاہیے۔ حکم دیا گیا کہ اف بھی نہ کرو۔ اگر اف تک کہنا بھی منع ہے تو پھر بدتمیزی کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔ چناچہ بڑھاپے میں والدین کے ساتھ رحم اور انکساری سے پیش آنا چاہئے، عاجزی کا رویہ رکھنا چاہیے، بحث اور مباحثے سے اجتناب کرنا چاہیے۔ ساتھ یہ بتا دیا کہ جو کچھ دل میں چھپاؤ گے اللہ کو وہ بھی معلوم ہے۔
پھر حکم ہوا کہ رشتہ داروں مسکینوں اور مسافروں کا حق ادا کرو، فضول خرچی سے گریز کرو۔ فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں، اور شیطان اپنے رب کا بہت ناشکرا ہے۔ مال کو خواہشات پر ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا، یا ضروریات پر حد سے زیادہ خرچ کرنا فضول خرچی ہے۔ حدیث کے مطابق مال ضائع کرنے والا اللہ تعالی کو سخت ناپسند ہے۔ یہ ہدایت بھی دی گئی کہ تنگدست کی حاجت اگر پوری نہ کر سکو تو نرمی سے جواب دو بداخلاقی نہ کرو۔ یعنی جھڑکو مت اور نہ ہی بلاوجہ برا بھلا کہو۔ کنجوسی اور فضول خرچی دونوں سے بچتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کرنے کا حکم دیا۔ یہ دونوں صفات نقصان کا سبب ہیں۔ رزق کی تنگی اور کشادگی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
پھر فرمایا اولاد کو مفلسی اور تنگ دستی کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ اولاد کے حقوق کی بھی پوچھ ہوگی۔ زنا کے قریب نہ پھٹکو یہ بے حیائی کا کام ہے۔ بغیر قانونی جواز کے کسی جان کو قتل مت کرو۔ یہ صرف ولی کا اختیار ہے کہ وہ قصاص لے یا فدیہ قبول کرے۔ لیکن اس میں بھی زیادتی سے گریز کرنا چاہیے۔
نیز کہا گیا یتیم کے مال میں بے جا تصرف مت کرو۔ پھر عہد اور قول وقرار کی پابندی کا حکم دیا گیا۔ اس کے بارے میں بھی بازپرس ہوگی۔ وعدہ خلافی منافقت کی نشانی ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی سے منع کیا گیا۔
پھر ایک بہت بڑا اخلاقی ادب سکھایا گیا اور بہت زبردست اصلاح کی گئی کہ جس چیز کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے مت پڑو۔ ساتھ ہی فرمادیا کہ کان آنکھ اور دل سے بھی پوچھ ہوگی۔ اس سے پتہ چلا کہ بغیر علم کے بلاوجہ چیزوں کی بحث میں نہیں پڑنا چاہیے۔
آخری ہدایت یہ دی گئی کہ غرور و تکبر کی چال سے بچو۔ اللہ کے بندوں کی چال ہمیشہ معتدل ہوتی ہے۔ ان سب ہدایات کے آخر میں فرمایا کہ ان سب کاموں کی قباحت اللہ کے نزدیک مسلم ہے۔
پھر شرک کی قباحت بیان کی گئی اور اللہ کی پاکی بیان کی گئی۔ فرمایا آسمان اور زمین میں ہر چیز اللہ کی تسبیح کرتی ہے لیکن انسان کو اس کا ادراک نہیں۔ ان لوگوں اور چیزوں کی کمتری بیان کی گئی جن کی اللہ کے سوا یہ لوگ عبادت کرتے ہیں ل۔
جو لوگ قرآن کا انکار کرتے ہیں اور آخرت کو جھٹلاتے ہیں ان کے باطل خیالات کا انکار کیا گیا۔
امت کو یہ ادب بھی سکھایا کہ میرے بندوں سے کہہ دو کہ اپنی زبان سے وہی بات کہیں جو بہتر ہو۔ حدیث کے مطابق رب کا بہترین بندہ وہی ہوتا ہے جو اپنی زبان کی حفاظت کرے۔ زبان کے ذریعہ سے ہی شیطان لوگوں میں فساد ڈلواتا ہے۔ ہمیشہ زبان کی بے احتیاطی سے ہی آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ لہذا ہمیشہ سوچ سمجھ کر بولنا چاہیے۔
یہ بھی بتا دیا کہ رحمت اور عذاب اللہ کا اختیار ہے وہ علیم اور خبیر ہے۔ جو بستی بھی ہلاک ہوئی اللہ کے غضب کو دعوت دینے کے سبب ہلاک ہوئی۔
پھر آدم اور ابلیس کا ذکر کیا گیا۔ فرمایا کہ ابلیس نے اللہ تعالی سے قیامت تک مہلت مانگی کہ میں اسکے بندوں کو راستے سے روکوں گا۔ چناچہ اس کو مہلت کے ساتھ ہر طرح کی آزادی دے دی گئی۔ ساتھ یہ بھی بتا دیا کہ جو اس کا ساتھ دیں گے جہنم میں جائیں گے، اور جو اللہ کے خالص بندے ہیں ان پر اس کا کوئی اختیار نہیں چلے گا۔
رب کی پہچان کے لئے قدرت کی نشانیاں ذکر کی گئی اور اس کے ذریعے سے توحید کی دعوت دی گئی۔ بنی آدم کی تکریم کا ذکر کیا گیا کہ بنی آدم کو اللہ نے ہر چیز پر فوقیت دی، اور جو کچھ دنیا میں ہے وہ انسان کے لئے ہے، انسان اس کے لئے نہیں۔
یہ بھی بتا دیا گیا کہ قیامت کے دن ہر گروہ اپنے پیشوا کے ساتھ آئے گا۔ امامھم کا لفظ امام سے ہے اور اس سے وہ لوگ مراد ہیں جن کی پیروی کی جائے۔ (اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ قیامت کے دن لوگ اپنی ماں کے نام کے ساتھ اٹھائے جائیں گے۔ یہ محض ایک مہمل بات ہے جو ہمارے معاشرے میں رائج ہوگئی ہے)۔
اس دن جس کا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا وہ خوش قسمت ہو گا۔ کسی کے ساتھ بھی ظلم نہیں ہوگا۔ ہر چیز کا وزن ہوگا۔ جو اس دنیا میں حق کے راستے سے اندھا بنا رہا وہ قیامت کے دن بھی محروم رہے گا۔
پھر اللہ تعالی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلام پر اپنا انعام ذکر کیا کہ آپ کو دین پر یہ ثابت قدمی اللہ نے عطا کی ہے۔ ثابت ہوا کہ دین پر ثابت قدمی اللہ کی طرف سے ہوتی ہے، انسان کا اس میں کوئی کمال نہیں۔ لہذا شکر کرنا چاہیے۔
نماز کا حکم ہوا کہ زوال آفتاب سے رات کے اندھیرے تک نماز کا اہتمام کریں، فجر کے وقت قرآن پڑھیں۔ اس سے فجر کی نماز مراد ہے۔ چنانچہ فجر کی نماز طویل ہونی چاہیے اس وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ حدیث کے مطابق رات اور دن کے فرشتے فجر کے وقت جمع ہوتے ہیں۔ تہجد کا بھی حکم دیا گیا۔ تہجد کی فرضیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ہے۔ امت کے لیے یہ نفل ہے۔ تہجد کی نماز رات کے کسی بھی حصے میں ادا کی جا سکتی ہے لیکن سنت رات کے آخری پہر میں پڑھنا ہے، اور اس کی بہت فضیلت ہے۔
صاف صاف اعلان کردیا گیا کہ حق آگیا باطل مٹ گیا، بے شک باطل مٹنے کے لئے ہی ہے۔
بتایا گیا کہ قرآن میں جو کچھ ہے مومنین کے لیے شفا اور رحمت ہے۔ کافروں اور ظالموں کے لئے خسارہ ہی خسارہ ہے۔ فرمایا گیا کہ سب انسان و جن مل کر بھی ایسا قرآن نہیں بنا سکتے اس میں ہر چیز تفصیل سے سمجھائی گئی ہے۔
انسان کی بعض صفات ذکر کی گئیں کہ اس کو جب نعمت ملتی ہے تو وہ اللہ سے بے وفائی کرتا ہے، جب مشکل آتی ہے تو مایوس ہو جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنی سوچ کے مطابق عمل کرتا ہے۔ اللہ ہی ہدایت یافتہ لوگوں کو جانتا ہے۔
واضح کردیا کہ انسان کو علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا اس لئے وہ روح کا علم اور اس کا ادراک نہیں کر سکتا۔ بس اتنا جاننا کافی ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔
کفار کے نامناسب مطالبات ذکر کیے گئے جو وہ نبی کریم سے کیا کرتے تھے۔ اور فرمایا کہ ان کو بتا دیں کہ میں صرف ایک انسان ہوں اور میرا کام پیغام دینا ہے۔ یہ مطالبات اس لیے نہیں پورے کیے گئے کہ نبی کا کام کرشمہ دکھانا یا مسحور کرنا نہیں ہوتا، بلکہ ہدایت کی طرف بلانا ہوتا ہے۔ ہدایت اور گمراہی اللہ کی طرف سے ہے۔ گمراہ کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ جس کی آگ جب بھی بجھنے لگے گی دوبارہ جلا دی جائے گی۔ یہ مصیبت اللہ کی آیات کے انکار سبب ہوگی۔
انسان کی تنگ دلی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ رب کی رحمت کے خزانے اگر انسان کے پاس ہوتے تو وہ اپنے علاوہ کسی کو نہ دیتا۔
پھر موسی علیہ السلام اور فرعون کا ذکر کیا گیا کہ فرعون اپنی نافرمانی کے سبب ہلاک ہوگیا۔
آخر سورت میں پھر قرآن کا ذکر ہے کہ یہ قرآن حق کے ساتھ بتدریج نازل ہوا۔ جو اہل علم ہیں وہ اس کو سن کر جھک جاتے ہیں، اللہ کی پاکی بیان کرتے ہیں اور رو پڑتے ہیں۔ قرآن ان کے خشوع کو اور بڑھا دیتا ہے۔ ثابت ہوا خشوع، خضوع اور عاجزی اہل علم کی صفات ہیں۔ نبی کریم بھی قرآن کو سن کر رویا کرتے تھے۔ چناچہ قرآن کو سن کر رونا اور اس سے عبرت حاصل کرنا اللہ کو پسند ہے۔ آخر میں ہدایت دی گئی کہ نماز کو نہ تو بہت بلند آواز سے پڑھو، نہ بالکل پست آواز سے بلکہ درمیانی راستہ اختیار کرنا چاہئے۔ اللہ کے سب نام اچھے ہیں جس سے پکارنا چاہو پکارا کرو۔ اللہ ہر قسم کے شرک سے پاک ہے۔
*سورۃ الکہف*
یہ مکی سورت ہے اور نور کا سبب ہے۔ حدیث کے مطابق جو شخص جمعہ کے دن سورۃ کہف پڑھتا ہے تو وہ اگلے جمعہ تک اس کے لئے نور سبب بنتی ہے۔ یہ دجال سے حفاظت کا ذریعہ ہے۔
اللہ کی تعریف اور اس کے ذکر سے اس کی ابتداء ہوئی۔ قرآن کے نزول کا مقصد بتایا گیا کہ یہ بشارت اور وعید کے لئے ہے۔ نبی کریم علیہ الصلاة والسلام کو ہدایت کی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانے کا آپ اتنا غم نہ کریں کہ گویا اپنے آپ کو ہلاک ہی کر ڈالیں۔
نیز بتایا کہ زمین اور اس کا تمام مال ومتاع امتحان کے لیے پیدا کیا گیا۔ یہ سب کچھ قیامت کے روز ختم ہو جائے گا۔
پھر اصحاب کہف کا قصہ بیان کیا گیا۔ یہ چند لوگ تھے جو اپنا دین بچانے کے لئے اللہ کے راستے میں ہجرت کر گئے تھے۔ ان لوگوں کو اللہ نے دنیا کے لئے نشانی بنا دیا تھا۔ ان کے قصے سے یہ ثابت ہوا کہ دین کی حفاظت اور فتنہ سے بچنے کے لیے ہجرت لازمی ہے۔ خلوص نیت سے نیکی کا ارادہ کیا جائے تو اللہ راستے کھول دیتا ہے۔ بلاوجہ بحث مباحثہ کرنا بھی ناپسندیدہ ہے۔
یہود نے کفار مکہ کو نبی کریم سے چند باتیں پوچھنے کو کہا تھا، کہ اگر وہ سچے ہوں گے تو انہیں یہ معلوم ہوگا۔ چنانچہ مشرکین مکہ نے اصحاب کہف کے بارے میں آپ سے پوچھا تھا۔ آپ نے فرمایا کل بتاؤں گا لیکن ساتھ ان شاء اللہ کہنا بھول گئے۔ اللہ تعالی کو یہ چیز پسند نہیں آئی اور پندرہ دن تک وحی نازل نہیں ہوئی۔ مشرکین نے آپ کا مذاق اڑانا شروع کردیا۔ 15 دن بعد پوری کہف نازل ہوئی اور ان تمام واقعات کے بارے میں بتایا گیا جو مشرکین نے پوچھے تھے۔ ساتھ ہی ہدایت کی گئی کہ جب بھی ایسی کوئی بات کریں تو ان شاء اللہ ضرور کہیں۔
پھر فرمایا اللہ کی بات بدلنے کا اختیار کسی کے پاس نہیں۔ اللہ کو یاد کرنے والوں کی صحبت اختیار کرنی چاہیے اور ہدایت حاصل کرنے کے لئے کسی مرشد اور ولی کا ھونا بہت ضروری ھے۔ غافل شخص کی بات نہیں ماننی چاہیے، وہ اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے۔ حق صرف وہی ہے جو اللہ نے نازل کر دیا۔
جہنم کی ہولناکی بیان کی گئی کہ اس میں جو پانی ہوگا وہ پگھلے ہوئے تانبے کی طرح گرم اور چہروں کو بھوننے والا ہوگا۔ جنت کی خوبصورتی یہ کہہ کر بیان کی گئی کہ جنتیوں کو سونے کے کنگن، باریک ریشم اور اطلس کے کپڑے ملیں گے۔ وہ یہ پہن کر اونچی مسندوں پر تکیہ لگا کر بیٹھیں گے۔
دنیا کی بے ثباتی اور اللہ کی قدرت کو مثالوں کے ذریعے سے واضح کیا گیا۔ ہر نعمت پر ماشاء اللہ کہنے کی تلقین ہے۔ بتایا گیا کہ یہ مال دولت اور اولاد زندگی کی رونق ہے اللہ کے پاس نیک عمل ہی کام آئیں گے۔
قیامت کے دن کی منظر کشی کی گئی کہ سب وہاں حاضر ہوں گے، ہر کسی کا نامہ اعمال اس کے سامنے رکھ دیا جائے گا۔ مجرم جب اس کے مندرجات کو دیکھیں گے تو گھبرائیں گے کہ اس نے تو سب کچھ ریکارڈ کر لیا کچھ بھی نہ چھوڑا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ صغیرہ گناہ بھی لکھے جاتے ہیں۔
آدم علیہ السلام اور ابلیس کے ذکر سے ظالموں کو برے انجام سے ڈرایا گیا۔ بتایا گیا کہ یہ مشرک اور ان کے معبود سب جہنم میں جائیں گے۔
قرآن کا ذکر ہے کہ اس میں طرح طرح کی مثالیں بیان کی گئیں تا کہ لوگ سمجھیں۔ لیکن لوگ بحث میں پڑ جاتے ہیں۔ جو نہیں مانتے ان کے لیے عذاب ہے۔ چنانچہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے ناحق بحث کرنا، دین کے بارے میں ہودہ مذاق کرنا اور اللہ کی آیات سے کھیلنا کفار کی صفت ہے۔ سب سے بڑا ظالم وہ ہے جو اللہ کی آیات سے منہ موڑ لے۔ دنیا میں مہلت کا ملنا اللہ کی رحمت کے سبب ہے۔
پھر موسی علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ ہے جو اگلے پارے تک جاتا ہے۔ اس کے ذریعے سے بتایا گیا کہ کائنات کا نظام اللہ کی مشیت اور اس کے مصالح پر قائم ہے۔ اس کا سمجھنا بعض اوقات انسان کے اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ اس قصے کے ذریعے سے علم کی اہمیت اور اس کے حصول لئے سفر کرنا بھی ثابت ہوتا ہے۔ علم کا راستہ بہت صبر طلب ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply