میں بہتر ہوں (دوسری،آخری قسط)۔۔مرزا مدثر نواز

ایک نجومی کو خیال آیا کہ وہ کیوں نہ اس باکمال عالم سے تعلیم حاصل کرے جس کے شاگردوں میں بو علی سینا جیسے معروف افراد شامل تھے۔ وہ اس خواہش کی تکمیل کے لئے سفر پر نکلا اور طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد بو علی سینا کے استاد محترم کی خدمت میں پہنچ گیا۔ یہ نجومی اپنے شعبے میں معمولی سی شدھ بدھ ہی رکھتا تھا مگر اسے غلط فہمی یہ ہو گئی تھی کہ وہ بہت بڑا عالم ہے۔ استاد نے پہلی ہی نظر میں اس کی حقیقت جان لی‘ یہ اندازہ بھی لگا لیا کہ یہ مغرور اور متکبر اور خود پسند بھی ہے۔ استاد نے اسے اس طرح نظر انداز کیا جیسے انہیں اس کے آنے کی خبر ہی نہ ہو۔ نجومی کئی روز تک وہاں کھڑا رہا‘ جب دیکھا کہ یہاں سے اسے کچھ حاصل نہ ہو گاتو وہاں سے رخصت ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ استاد نے مناسب سمجھا کہ اس نجومی پر حقیقت حال واضح کر دی جائے۔ نجومی سے مخاطب ہو کر استاد نے کہا‘ اے نجومی! تو خالی ہاتھ اس لیے واپس جا رہا ہے کہ تیرے دماغ میں یہ غرور بھرا ہوا تھا کہ تو بہت کچھ جانتا ہے‘ تیرے جیسا نجومی دنیا میں کوئی اور نہیں ہے مگر میری بات یاد رکھنا کہ اسی پیالے میں کوئی شے بھری جاسکتی ہے جو خالی ہو‘ ایسے انسان کے دل میں دانائی کی بات کیسے ڈالی جا سکتی ہے جس کے دل کا ظرف خالی نہ ہو۔ آب حیات تو اس ظرف میں اسی وقت ڈالا جا سکتا ہے جب وہ خالی ہو‘ تمہارے دل کا ظرف غرور و تکبر سے بھرا ہوا تھا اس لئے تجھے یہاں سے کچھ حاصل نہ ہوا۔(حکایتِ سعدیؒ)

کبر و غرور کے اسباب بہت سے ہیں لیکن عام طور پر دنیا دار لوگ جن چیزوں پر غرور کرتے ہیں وہ یہ ہیں‘ حسب و نسب‘ حسن و جمال‘ مال و دولت‘ قوت اور اعوان و انصار کی کثرت‘ اسلام نے ان میں سے ہر ایک سبب کی نسبت اپنی قطعی رائے ظاہر کر دی اور بتا دیا ہے کہ ان میں سے کوئی چیز فخر و غرور کا ذریعہ نہیں‘ شرافت و عظمت کی بنیاد حسب و نسب پر نہیں بلکہ روحانی فضائل پر ہے۔ آپﷺ نے اس کی مزید تشریح کی اور فرمایا کہ ”خداوند تعٰالیٰ نے تمہارے جاہلیت کے غرور اور باپ دادا کے اوپر فخر کرنے کے طریقہ کو مٹا دیا‘ اب صرف دو قسم کے آدمی ہیں‘ مومن پرہیز گار اور بدکار بد بخت‘ تم لوگ آدم کے بچے ہو اور آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے‘ لوگ ایسے لوگوں پر فخر کرنا چھوڑ دیں جو جہنم کا کوئلہ ہیں یا اللہ کے نزدیک اس گبریلے (ایک قسم کا کیڑا جو گوبر میں ہوتا ہے) سے بھی زیادہ ذلیل ہیں جو اپنے منہ سے نجاست کو گھسیٹا چلتا ہے“۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اعوان و انصار کی کثرت ہمیشہ سے انسان کے لئے ایک مابہ الامتیاز چیز رہی ہے‘ بالخصوص غیر متمدن قومیں ہمیشہ کثرت مال و کثرت اولاد پر فخر و غرور کرتی ہیں اور اس فخر و غرور کے نشہ میں دوسروں کو حقیر سمجھتی ہیں‘ بلکہ اللہ کو بھلا دیتی ہیں‘ زمانہ سابق میں اسی قسم کا ایک شخص تھا جس کو اپنی دولت اور اعوان و انصار کی کثرت پر بڑا ناز تھا اور اس کا خیال تھا کہ یہ تمام چیزیں ہمیشہ قائم رہیں گی اور قیامت کبھی نہ آئے گی اور اگر آئی بھی تو قیامت میں بھی اس کی یہی شان قائم رہے گی‘ وہ اس حیثیت سے ایک دوسرے شخص کو حقیر سمجھ کر کہتا ہے۔ترجمہ: میں تجھ سے زیادہ مالدار ہوں اور (میرا) جتھا (بھی) بڑا زبردست (جتھا) ہے‘ (کہف‘34)۔ دوسرا شخص نصیحت آمیز الفاظ میں کہتا ہے کہ ایک حقیر انسان کے لیے اس قدر کبر و غرور جائز نہیں۔ ترجمہ: کیا تو اس (پروردگار) کا منکر ہے‘ جس نے تجھ کو (پہلے) مٹی سے پھر نطفے سے پیدا کیا پھر تجھ کو پورا آدمی بنایا‘ (کہف37‘)۔ نتیجہ یہ ہوا کہ عذاب الہیٰ نے اس کی دولت کو ملیا میٹ کر دیا اور اس کا جتھا ٹوٹ گیا اور اس کو معلوم ہو گیا کہ ایسی ناپائدار چیز فخر و غرور کے قابل نہیں‘ اہل عرب کو بھی اس پر بڑا ناز تھا اور وہ قبیلہ کی کثرت پر ہمیشہ فخر کیا کرتے تھے اور زندوں سے گزر کر مردوں کی ذات پر بھی فخر کرتے تھے‘ اس فخر و غرور میں باہم مقابلہ ہوتا تھا اور اس مقابلہ کے لیے ایک خاص لفظ ”تکاثر“ ایجاد ہو گیا تھا جس نے ان کو دینی امور سے غافل و بے پرواہ کر دیا تھا‘ اس لئے اللہ تعٰالیٰ نے ایک خاص سورہ میں انسان کو خطاب کر کے اس پر سرزنش کی۔ ترجمہ: تم کو مال و اولاد کی کثرت میں ایک دوسرے پر بڑھ جانے کی کوشش نے غافل بنا دیاہے‘ یہاں تک کہ تم قبروں سے جاملتے ہو‘ (تکاثرٗ،1-2)۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply