ایک وہ بھی تھا زمانہ، ایک یہ بھی ہے زمانہ۔۔۔سلمان نسیم شاد

کبھی آپ نے سوچا آپ کے پاس پیسہ، مقام، عزت، دولت، اولاد سب کچھ ہونے کے باوجود ایک بے چینی ہے جو آپ محسوس کرتے ہیں۔ بعض دفعہ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے سب کچھ حاصل کرنے کے باوجود آپ کے دل میں ایک انجانی سی خلش ہے جو آپ کو اداس رکھتی ہے۔ اور ایسے میں جب آپ اپنے ماضی میں جھانکتے ہیں تو آپ کو حال کے مقابلے میں اپنا ماضی بہت خوبصورت لگتا ہے۔

اور یوں بھی جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے وہ انسانی قدریں کہیں کھو سی رہی ہیں جن انسانی قدروں سے ہمیں اپنے ارد گرد کا ماحول بہت خوبصورت لگتا تھا۔  80 کی دھائی سے ہی دیکھ لیں جب انسانی قدریں، آپسی محبتیں، اور آپ کے بزرگوں کی تاریخی ثقافتیں زندہ تھیں تو زندگی کتنی حسیں و خوبصورت لگتی تھی۔ اس وقت آپ کے عزیز، رشتہ دار، دوست، محلے دار آپ کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ آپ کا ان سے ایک پیار، محبت، خلوص کا ایک لازوال رشتہ قائم تھا۔

مجھے آج بھی یاد ہیں اپنے بچپن کے وہ سنہرے دن، جہاں زندگی ہر پل حسیں لگتی تھی۔ اس وقت گھر پر ایک کمانے والا ہوتا تھا مگر رزق میں برکت تھی۔ زندگی اتنی لگژری نہیں ہوتی تھی جتنی آج کل ہم لوگوں نے بنا ڈالی ہے۔ صبح سویرے ہمیں اسکول کے لیے اٹھایا جاتا تھا۔ منہ ہاتھ دھونے کے بعد ہم “باورچی خانے” جس کو آج کل “کچن” کہا  جاتا ہے ،سارے بہن بھائی اسی باورچی خانے میں تختے اور پیڑھی پر بیٹھ کر ناشتہ کیا کرتے تھے۔ اس کے بعد ہماری تیاری شروع ہوجایا کرتی تھی ،ہمیں ہماری والدہ اپنے ہاتھ سے تیار کیا کرتی تھیں۔ اور اس کے بعد نیچے اسکول کی وین کے لیے چھوڑنے جایا کرتی تھیں۔

آج جب ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑاتے ہیں تو ہمارے آج کے بچے بہت جلدی بڑے ہوگئے ہیں۔ وہ کیا پہنیں گے کیا کھائیں گے اور کب سوئیں گے یا اٹھیں گے اس کا فیصلہ وہ خود سے کرتے ہیں۔
ہم تو شام میں کھیلنے بھی جایا کرتے تو جیسے ہی کانوں میں مغرب کی اذان کی آواز آئی۔ گیند بلا چھوڑ کر فوراً گھر کی جانب بھاگا کرتے تھے۔ کیونکہ اس وقت والدین اپنے بچوں کو ڈرانے کے لیے ستر بلاوں کی کہانیاں سنایا کرتے تھے کہ مغرب کے بعد ستر بلائیں آجایا کرتی ہیں۔ اس لیے بچوں کو کہا جاتا تھا مغرب کے فوراً بعد گھر کو لوٹ آنا۔ واقعی اس دہائی کے بچے بہت سادہ ہوا کرتے تھے آج آپ کسی بچے کو یہ کہانی سنائیں وہ آپ پر ہنسے گا۔

اس وقت کی خواتین بھی بہت سادہ اور محنتی تھیں جو نا صرف اپنے بچوں کو پالتی تھیں بلکہ تن تنہا گھر کی تمام تر ذمہ داریاں بخوبی انجام دیا کرتی تھیں۔ بہت کم گھروں میں شاذو نادر ہی تندور کی روٹی آتی ہوگی ورنہ خواتین گھر میں ہی روٹیاں بنایا کرتی تھیں۔ اور مزے کی بات  آج کی طرح فریج میں رکھا آٹا استعمال نہیں کرتی تھیں بلکہ صبح دوپہر اور رات تین ٹائم اپنے ہاتھ سے تازہ آٹا گوندھا کرتی تھیں جس سے روٹیاں بھی نرم اور پھولی ہوئی بنا کرتی تھیں۔ مصالحہ جات و چٹنی وغیرہ پیسنے کے لیے گرائنڈر کا استعمال نہیں ہوتا تھا بلکہ سِل بٹے کا استعمال کیا کرتی تھیں۔ جس کا الگ ہی سواد ہوتا تھا۔

جمعہ کی تعطیل والے دن بھی صبح سویرے اٹھنے کی روایت تھی۔ ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ہی نماز جمعہ کی تیاری شروع ہوجایا کرتی تھی۔ گھر کے سربراہ کی ذمہ داری ہوا کرتی تھی وہ اپنے بچوں کو نماز کے لیے مسجد لیکر جائیں۔ اور واپسی پر فروٹ سے بھرے تھیلے لائے جاتے تھے۔ جن کو لاکر یا تو پانی سے بھری بالٹی میں ڈال دیا جاتا تھا۔ یا جہاں فریج ہوتا تھا دھوکر اس میں رکھ دیا کرتے تھے۔ کوئی مہمان کسی کے گھر آجائے تو اس کو کھانا کھلائے بغیر روانہ کرنے کی روایت نہیں تھی۔ اچانک بھی کوئی آجائے تو پہلے سے موجود سالن کے ساتھ قریبی ہوٹل سے نہاری منگوالی جاتی تھی اور گھر میں موجود انڈوں کا آملیٹ بناکر مہمانوں کے سامنے پیش کردیا جاتا تھا۔ بھلے اُس وقت گھر چھوٹے مگر دل بہت بڑے تھے۔ گھر میں کبھی بھی کوئی خاص ڈش پکا کرتی تو خود کھانے سے پہلے پڑوسی کے یہاں بھیجے جانے کی روایت تھی۔

عید تہوار کا اپنا ایک الگ ہی مزہ تھا۔ عید سے پہلے شہر میں جگہ جگہ عید کارڈز کے اسٹال لگا کرتے تھے جہاں سے اپنی پسند کے عید کارڈز خرید کر دوست احباب کو عید کارڈز ارسال کیے جاتے تھے۔ خاندان اور پڑوس میں جب کوئی شادی کی تقریب ہوتی تھی تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہمارے اپنے گھر تقریب منعقد ہورہی ہو۔ عزیز و اقارب آٹھ دس دن پہلے رہنے آجایا کرتے تھے۔ ایک طرف ڈھولک کی تھاپ دوسری طرف گرما گرم گلگلوں کی خوشبو آرہی ہوتی تھی۔ اِس کے برعکس آج شادی بیاہ میں رشتے دار میرج لان پہنچنے کو ترجیح دیتے ہیں اور تقریب ختم ہونےسے قبل ہی واپس اپنے گھر لوٹ جاتے ہیں۔

کبھی آپ نے سوچا ان چھوٹی چھوٹی خوشیوں اور آپ کے بزرگوں کی اس روایت سے آپ کو کتنی خوشیاں ملا کرتی تھیں۔ یہ روایتیں اور یہ تہذیب ہمارے بزرگوں کی تھی جنھوں نے ہم سب کو جوڑے رکھا۔ اور ہم نے ان سے وہ خوشیاں حاصل کریں جن کو یاد کرکے ہم آج بھی خوش ہوتے ہیں۔ آج نہ  وہ روایتیں زندہ رہیں نہ وہ تہذیب آج انٹرنیٹ کی دنیا میں سب  کھو سے گئے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر یوں کہا جائے کہ ٹیکنالوجی نے ہم سے پرانی رسومات چھین لیں تو شاید غلط نہ ہوگا۔۔
ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو پیغام رسانی کے لیے واٹس ایپ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ اور اس میں سرا سر قصور ہمارا ہے۔ کیونکہ ہمارے بزرگوں نے اپنی جس تہذیب و روایت سے ہمیں روشناس کرایا بدقسمتی سے ہم وہ اپنے بچوں کو منتقل نہیں کرپائے۔

دکھ سُکھ تھا ایک سب کا
اپنا ہو ، یا بیگانہ
ایک وہ بھی تھا زمانہ
ایک یہ بھی ہے زمانہ!

Facebook Comments

سلمان نسیم شاد
فری لانس جرنلٹس، رائٹر , بلاگر ، کالمسٹ۔ بائیں بازو کی سوچ اور ترقی پسند خیالات رکھنے والی انقلابی شخصیت ہیں اور ایک علمی و ادبی و صحافتی گھرانے سے وابستگی رکھتے ہیں. پاکستان میں میڈیا اور آزادی صحافت کے لئے ان کے اجداد کی لازوال قربانیاں اور کاوشیں ہیں۔ چی گویرا، لینن، اور کارل مارکس سے متاثر ہیں، دائیں بازو کے سیاسی جماعتوں اور ان کی پالیسی کے شدید ناقد ہیں۔ جبکہ ملک میں سول سپریمیسی اور شخصی آزادی کا حصول ان کا خواب ہے۔ Twitter Account SalmanNasimShad@

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply