• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بلوچستان میں ایرانی تیل کیسے اسمگل ہوتا ہے؟۔۔۔۔ محمد اکبر نوتیزئی/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

بلوچستان میں ایرانی تیل کیسے اسمگل ہوتا ہے؟۔۔۔۔ محمد اکبر نوتیزئی/انگریزی سے ترجمہ: فرید مینگل

مئی میں ماہ رمضان کا چھٹا دن ہے۔ ضلع چاغی کے ہیڈ کوارٹر دالبندین میں خالو ماما نے مجھے ملیشیا چوک پر خوش آمدید کہا۔ خالو ماما کی عمر 26 سال ہے اور وہ اسی نام سے جانے اور پہچانے جانے کی خواہش رکھتے ہیں۔ خالو نے لال رنگ کے پھٹے پرانے کپڑے پہن رکھے ہیں اور اس کی سواری ایک پرانا سی ڈی سیونٹی ہنڈا موٹر سائیکل ہے۔

خالو حال ہی میں گریزر بنا ہے۔ مہینوں کی شدید گرمی و دھوپ نے اس کے چہرے کو مکمل طور پر جلا کر رکھ دیا ہے۔اس کے چہرے پر سیاہ داغ ابھر آئے ہیں مگر اس سے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ بس اپنے گھر کا چولہا جلائے رکھنا چاہتا ہے۔ وہ دالبندین میں اپنی والدہ محترمہ اور بہن بھائیوں کے ساتھ رہتا ہے۔

دالبندین ایک ہموار صحرائی علاقہ ہے۔ جو کوئٹہ سے 340 کلومیٹر دور پہاڑی سلسلے کے عقب میں واقع ہے۔ چاغی مغرب میں ایران اور افغانستان کے ساتھ ایک تکونی بارڈر بنا دیتا ہے۔ اربوں ڈالر کے میگا پروجیکٹس، سیندک و ریکوڈک بھی اسی علاقے میں ہیں۔ بلوچستان میں معدنیات کے میوزیم کی شہرت رکھنے کے باوجود چاغی میں غربت اور بیروزگاری اپنے عروج پر ہے۔ اگرچہ ایریا کے حساب سے چاغی ملک کا سب سے بڑا ضلع ہے مگر اس کی منتشر باضابطہ آبادی فقط 22600 نفوس پر مشتمل ہے۔ خالو جیسے نوجوان بیروزگاری کی وجہ سے قریبی ضلع واشک میں ایران پاکستان بارڈر پر ڈیزل اسمگل کرنے جاتے ہیں۔ تیل گریزروں کی اکثریت کا تعلق دالبندین سے ہے۔

ماضی میں خالو امیر تھا۔ کسی زمانے میں اس کا اپنا ایک مشہور فیس بک پیج تھا، جہاں وہ اپنے اسٹائلش ماڈلنگ کی تصویروں کی تشہیر کیا کرتا تھا۔ مگر اپنے والد کی وفات کے بعد وہ اپنے خاندانی کاروبار کو سنبھال نہیں سکا، جسے اس کے والد نے ترکے میں چھوڑا تھا۔ قرضوں میں ڈوبے رہنے کے باعث اسے اپنے کاروبار کو بند کرنا پڑا۔

اگرچہ خالو بی اے پاس ہے مگر ملازمت کے لیے کئی درخواستیں دینے کے باوجود وہ بیروزگار ہی رہا۔ تب جا کر وہ بھی اپنے علاقے کے باقی نوجوانوں کی طرح ایک تیل اسمگلر بن گیا۔

سبک دلی کے ساتھ اس نے بتایا کہ وہ ایک چھوٹو [کنڈکٹر] ہے۔ اس نے مزید انکشاف کیا کہ اس کا استاد عمران عمر میں اس سے پانچ سال چھوٹا ہے۔ گاڑی چلانے والے کو یہاں استاد کہا جاتا ہے۔

ہم خالو کے موٹر سائیکل پر سفر کر کے عمران کے گھر پہنچے۔ موٹر سائیکل بھی خالو کے مرحوم والد کا ہے۔ ”میرے پاس اس موٹر سائیکل کے علاوہ اب کچھ نہیں بچا، جو میرے والد کی یاد دلاتا ہے“۔ یہ بتاتے ہوئے خالو کی آواز بھر آئی۔

استاد عمران بازار میں ہے اور وہ بہت جلدی میں ہے۔ اس نے خالو کو فون پر ہدایت دی کہ وہ رحیم* کے گیراج پر آئے جو بازار کے بیچ میں ہے۔ گیراج پر سات مزید زمیاد ( zamyad) {زمیاد کو مقامی زبان میں زمباد کہتے ہیں} گاڑیوں کا قافلہ جودار جانے کے لیے کھڑا ہے، ہمیں دالبندین کے علاقے میں بائی پاس پر ان سے ملنا ہے۔

ان گاڑیوں کو تہران میں زمیاد کمپنی تیار کرتی ہے۔ ان گاڑیوں پر کسٹم ادائیگی نہیں کی جاتی۔ رجسٹریشن نہ ہونے کی وجہ سے ان گاڑیوں کی حقیقی تعداد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ بلوچستان میں ہزاروں زمیاد گاڑیاں ہیں جن میں ہر ایک کی قیمت لاکھوں میں ہے۔ ایک پرانی زمیاد دو لاکھ روپے میں خریدی جا سکتی ہے۔ نئے زمیاد کی قیمت دس لاکھ روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ بلوچستان میں ان گاڑیوں سے تیل اسمگلنگ کیا جاتا ہے، جن کے پیچھے نیلے رنگ کے 60 لیٹری ڈرم رکھے ہوتے ہیں۔ انہیں پورے بلوچستان میں دیکھا جا سکتا ہے۔

عمران ابھی کم عمر ہے، اس کی خواہش ہے کہ داڑھی مونچھیں رکھے اور عمر میں بڑا دکھے۔ لیکن اس کی تمام کاوشیں بے کار ہیں۔ پچھلے سال اس نے میٹرک کیا اور پڑھائی مزید جاری رکھنے کی بجائے ایرانی تیل اسمگل کرنے والا ڈرائیور بن گیا۔ اس نے سیاہ رنگ کے کپڑے زیب تن کر رکھے ہیں۔ مجھے اپنی بغل میں بیٹھنے کی ہدایت دے کر سفید چادر سے چہرہ چھپانے کا حکم بھی دیتا ہے، تاکہ دالبندین میں مجھےکوئی نہ پہچان سکے۔

گاڑی کے ٹائر چیک کرنے کے بعد خالو بھی آ کر میری بغل میں بیٹھ گیا۔ ابھی دوپہر ہے اور ہم لندن روڈ پر اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ تو بالکل غیر یقینی نام ہے کہ یہ روڈ پاکستان کو براستہ کوئٹہ، چاغی اور ایران، لندن سے ملاتا ہے۔ رمضان المبارک کی وجہ سے آمدورفت مفقود ہے۔ آسمان پر ہلکے بادل نمودار ہونے کے باوجود درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ کے قریب ہے۔ گوریچ جس کا رخ شمال سے جنوب کی طرف ہے، درجہ حرارت کو مزید بگاڑتی ہے۔ اگر میں زمیاد کے شیشے کو نیچے اتارتا ہوں تو گرم ہوا میرے چہرے کو جلا ڈالتی ہے۔ اور اگر میں اسے نیچے رہنے دوں تو بغیر اے سی کے زمباد گاڑی میں گرمی جان لیوا ہو سکتی ہے۔ لہٰذا میں ہدایات پر عمل کر کے اپنے چہرے کو چادر سے ڈھانپ کر شیشہ نیچے اتار دیتا ہوں۔

ایف سی اور لیویز کے اہلکار حفاظتی چوکیوں پر ان گاڑیوں کو نہیں روکتے۔ خالو ایف سی والوں کی طرف ہاتھ ہلا کر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا، ” ہمارا کاروبار کسی حد تک غیرسرکاری طور پر قابلِ قبول ہے“۔ 60 کلومیٹر سفر کرنے کے بعد ہم کھجور کے درختوں کے گھرے ایک ”مچ“ نامی قصبے میں پہنچے، جہاں لندن روڈ کراس ہوتی ہے۔ یہاں کچھ دکانیں، ہوٹل اور پٹرول پمپ ہیں۔ یہ ہمارا پہلا پڑاؤ ہے۔

کچھ سفید ریش بزرگ روزے سے ہیں، باقی کے خالو جیسے تمام نوجوان روزہ نہیں رکھتے، روزے دار افطاری کے لیے پکوڑا اور شربت خرید رہے ہیں۔ ”ہم کیوں روزہ رکھیں، جب کھانے پینے کو کچھ میسر نہیں“۔ خالو نے شکوہ کیا جو گریزر بننے سے پہلے روزے کا پابند تھا۔ وہ شکایت کرتے ہوئے مزید کہتا ہے کہ ” اب ہم سال بھر روزے سے ہوتے ہیں“۔

ہم واپس لندن روڈ پر آ کر 59 کلومیٹر مزید سفر کر کے ”درہ“ پہنچے جو کہ نوکنڈی سے تقریباً 52 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس سے آگے ہم لندن روڈ کو خیرآباد کر کے مزید مغربی جانب چل پڑے۔ جودار تک پوری سڑک کچی ہے۔ اس کچی، پرپیچ اور 200 کلو میٹر طویل راستے سے آپ ڈرائیور ہو کر ہی واقف ہو سکتے ہیں۔ عمران نے اس وسیع و الگ تھلگ علاقے میں اپنے ڈرائیوری کے تلخ و پُرخطر تجربات سے ہمیں آگاہ کیا۔
”اندازًا ساٹھ لاکھ لیٹر ایرانی تیل روزانہ اسمگل ہوتا ہے۔“

دھند میں افطاری
ڈھائی گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم اپنے اگلے پڑاؤ ”کٹگار“ پہنچے۔ یہ گھوسٹ علاقہ ضلع واشک میں ہے۔ جس کی سرحد ایران کے ساتھ لگتی ہے۔ یہ ماشکیل اور جودار کے درمیان واقع ہے۔ ضلع واشک کے تحصیل ماشکیل کے علاوہ یہاں میلوں میل تک کوئی آبادی نہیں۔ استہزًا یہاں پانی کی وافر مقدار ہے۔ اکثر ساتھی اپنے ساتھ لایا پانی ختم کر چکے۔

میں نے خالو سے استفسار کیا کہ ”کیا کٹگار میں لوگ رہتے ہیں؟“ اس کا جواب نفی میں تھا۔ پلاسٹک کے بورے سے بنی ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خالو نے کہا کہ وہ ازبکی ہوٹل ہے۔ اس ہوٹل کے علاوہ یہاں کوئی رہائش گاہ نہیں۔

اب رمضان کی وجہ سے ہوٹل بند ہے، جو کہ انسانی اسمگلروں کے لیے آرام کی ایک جگہ ہے۔ ایران و افغانستان کے روٹ پر اکثر مہاجرین یہاں قیام کرتے ہیں۔ باقی علاقے میں میسر نہ ہونے کی وجہ سے یہاں چائے اور پانی کی قیمت دگنی وصول کی جاتی ہے۔

گرد آلود طوفان مزید گہرا اور تیز ہوتا جا رہا ہے۔ یہ اتنا تندو تیز ہے کہ باقی کا قافلہ دیکھنا بھی محال ہے۔ ڈرائیوروں نے گاڑیوں کی ہیڈ لائٹس جلا دی ہیں۔ آخر کار ہمیں رک کر طوفان کے تھمنے کا انتظار کرنا پڑا۔ یہ کافی دیر تک اسی رفتار سے چلتا رہا اور ہم گاڑیوں میں محصور رہے۔

غروبِ آفتاب کے وقت روزے دار اپنی گاڑیوں کی پشت پر رکھے ڈرموں پر چڑھ بیٹھےاور دعا مانگی۔ یہاں قرب و جوار میں آبادی نہ ہونے کے سبب کوئی اذان نہیں ہوتی۔ روزے داروں کے پاس صرف شربت کا ایک گلاس ہے، جس سے وہ افطاری کر سکتے ہیں۔

پانچ منٹ کی افطاری کے بعد سب اپنی اپنی گاڑیوں میں جا بیٹھے۔ ایک شخص ہر گاڑی کے شیشے پر دستک دے کر ہر حال میں جودار پہنچنے کا پیغام دیتا ہے، چاہے موسم کتنا ہی خراب کیوں نہ ہو۔

آدھے گھنٹے کے سفر کے دوران ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں خود سے سوال کیا کہ خدانخواستہ کوئی حادثہ پیش آنے کی صورت میں وہ شخص بچ پائے گا؟۔۔۔۔ جواب تھا؛ ہرگز نہیں۔

خوش قسمتی سے گردوغبار کو ایک ہلکی سی بارش نے شانت کر دیا۔ ہمارے روٹ سے چند کلومیٹر دور ایرانی سکیورٹی فورسز کی چوکیاں اب صاف نظر آ رہی ہیں۔ خالو نے منہ میں نسوار ڈالتے ہوئے مجھے بتایا کہ یہ چوکیاں پورے بارڈر پر قائم ہیں۔ ہماری سرحد کے برعکس ایرانی سرحد پر عسکری اہلکار تعینات ہیں۔ اور کہیں کہیں دیوار بھی بنائی گئی ہے۔

تقریباً 300 کلومیٹر سفر کرنے کے بعد ہم جودار چیک پوسٹ پر پہنچے۔ یہاں چند کمروں پر مشتمل ایک چھوٹی سی عمارت ہے۔ اس کی دیوار پر ایف سی ونگ ”73” لکھا ہوا ہے جو کہ فرنٹیئر کارپس کی وضاحت کرتا ہے۔ اس عمارت سے متصل ایک ہیلی پیڈ بھی ہے۔ مگر خالو اور عمران نے یہاں کوئی ہیلی کاپٹر نہیں دیکھا۔

یہاں پہلے سے موجود زمیاد گاڑیوں کی قطار رات گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید لمبی ہوتی جا رہی ہے۔ ان گاڑیوں کو فقط تین گھنٹے صبح 6 بجے سے 9 بجے تک جودار میں داخل ہونے کی اجازت ہے۔ چند ماہ قبل ایف سی والے ہر گاڑی سے 4000 روپے وصول کرتے تھے۔ عمران نے اپنے قافلہ کے ایک گاڑی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے مجھے یہ بات بتائی۔ ایف سی انٹیلیجنس کو جب علم ہوا تو اس نے ایف سی والوں کو پیسہ لینے سے سختی سے منع کیا۔ اسی لیے اب یہ پورا دن چوکی پر ہمیں انتظار کرواتے ہیں۔

یہاں ایک اور راستہ ہے جہاں سے زمیاد اپنی لائٹس بند کر کے خفیہ طور پر جودار میں داخل ہوتے ہیں۔ ایرانی چیک پوسٹوں کے ساتھ وہاں ایف سی کی ایک کروز پک اپ گاڑی بھی گشت کرتی ہے۔ اگر اس دوران بدقسمتی سے کوئی ڈرائیور پکڑا جائے تو ایف سی کے ہاتھوں شدید تشدد کا نشانہ بن سکتا ہے۔

جودار میں اب مکمل اندھیرا چھا گیا ہے۔ ایک زمیاد پر ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ ایف سی کروزر نے لائن توڑنے پر اس گاڑی کا تعاقب کیا۔ خالو کے بقول ایسا اکثر ہوتا رہتا ہے۔ کچھ ڈرائیور سمجھتے ہیں کہ وہ ایف سی کو چکما دے سکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ پکڑے بھی جاتے ہیں، کچھ نکلنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ پکڑے جانے پر کبھی کبھار تشدد کے ساتھ ساتھ گاڑیاں بھی ضبط کی جاتی ہیں۔
پک اپ گاڑیوں کے علاوہ جودار میں کچھ بھی نہیں، یا تو زمیاد گاڑی یا پھر آسمان آپ کی چھت ہوتا ہے۔ میں خالوکے ساتھ اس کے کمبل میں سونے کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر سونے سے پہلے ہی گردوغبار، دھند اور آسمانی بجلی کی چمک کے ساتھ بارش شروع ہوئی۔ یہ سلسلہ پوری رات چلتا رہا اور ہم رات بھر بنا سوئے گاڑیوں میں محصور رہے۔

خالو نے مجھے 6 بجے جگا کر بتایا کہ ایف سی نے چیک پوسٹ کھول دی ہے، اگر ہم نے دیر کر دی تو ہمیں ایک اور دن یہاں انتظار کرنا پڑےگا تاکہ کل اس وقت ہم پھر داخل ہو سکیں۔

اپنے اصل قومی شناختی کارڈ ایک ایک کر کے دکھانے کے بعد بالآخر ہم جودار کی مرکزی سرحد پر پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

جودار جو کسی کا نہیں
جودار جو پاکستان اور ایران کے سرحد پر ایک قصبہ ہے، پاکستانی سرحد کی جانب صرف ایک گاؤں ہے جہاں بلوچ قبیلہ سیانی کے لوگ آباد ہیں۔ جودار کا بڑا بے کار سلسلہ کوہ کہیں دریا کے خشک بہاؤ کی وجہ سے الگ ہوتا ہے۔ یہاں انسان اور حیوان دونوں کے لیے بارش کا ذخیرہ شدہ پانی ایک خاص ذریعہ ہے۔

جودار سرحد سے تیل صوبہ بلوچستان، کراچی کے کچھ علاقوں، شمالی پنجاب اور افغانستان کے کچھ علاقوں کو اسمگل کیا جاتا ہے۔ یہ تین مراکز میں سے ایک مرکز ہے جو ایران اور پاکستان تیل اسمگلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ایف سی سے اجازت پا کر ہم نے اشرف ہوٹل کا رخ کیا جو دراصل ایک جھونپڑی ہے۔ سیکڑوں لوگ ناشتہ کرنے اور دن کا کھانا کھانے یہاں رکتے ہیں۔ آج ہوٹل مالک اشرف روزے سے ہیں۔ وہ ڈرائیوروں سے فی چینک 50 روپے پیشگی وصول کر کے انہیں خود چائے بنانے کو کہتا ہے۔ اشرف نے عمران سے پیسے وصول کیے اور خالو نے ہمارے لیے چائے بنانے کے لیے اسٹوو پر کیٹلی رکھی۔ خالو مزاحیہ انداز میں گلہ کر کے کہنے لگا کہ ”پہلے پیسے بھی دو اور چائے بھی خود بناؤ۔“

9 بجے کے کچھ ہی دیر بعد میں قریبی پہاڑ کی ایک چوٹی پر چڑھ بیٹھا۔ یہاں ماضی میں ایرانی مارٹر گولے سے حملہ ہوا تھا۔ مارٹر گولے نے کالی پہاڑ پر سفید نشان چھوڑے تھے۔ ایران تسلسل سے بلوچستان کے سرحدی علاقوں میں راکٹ گولے داغتا ہے۔ جودار ان قصبوں میں سے ایک قصبہ ہے۔

جودار کی مرکزی سرحد پر گاڑیاں ہر طرف دکھائی دیتی ہیں۔ پہاڑ کی چوٹی سے یہ گاڑیاں رینگتی چیونٹیوں کی طرح دکھائی دیتی ہے۔ ”دماگ“ سے تیل ایرانی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر لایا جاتا ہے۔ ہر گاڑی کی پشت پر ایک پلاسٹک بیگ ہوتا ہے جو کہ 37 سے 45 ڈرم تیل اٹھا سکتا ہے۔ ہر ڈرم میں 60 لیٹر تیل ہوتا ہے۔

ماضی میں تین دن موٹر سائیکل اور تین دن گدھوں پر تیل لایا جاتا تھا۔ نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایرانی انتظامیہ اب گدھوں پر تیل لانے کی اجازت نہیں دیتی۔ مگر خالو کے مطابق ان کے سیٹھ کا مال اب بھی گدھوں پر ہی آتا ہے۔ اس لیے اسے معلوم ہے کہ آج ان کی باری نہیں ہے کیونکہ گدھے ہمیشہ رات کے اندھیرے میں پہنچ جاتے ہیں۔

دوپہر کو جودار نہایت گرم ہوجاتا ہے۔ جھلسا دینے والے سورج سے بچاؤ کے لیے میں اشرف ہوٹل جا بیٹھا اور بہانے کے بطور سائے میں بیٹھے رہنے کے لیے چائے پہ چائے پیتا رہا۔

سلیم اپنی گاڑی ہوٹل میں کھڑی کر چکا ہے اور پچھلے دو دنوں سے جودار میں اپنی گاڑی کے لوڈ ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔ ملک کے اس حصے میں ہر ایک کی الگ داستان ہے۔ کوئی بھی خوشی سے تیل گریزی نہیں کرتا۔ سلیم کے بال بچے ماشکیل میں ہیں اور اس کی آمدنی کا دارومدار ڈیزل اسمگلنگ پر ہے۔ جس سے وہ دہائیوں سے منسلک ہے۔

بارڈر کے بند ہونے سے دوسرے ڈرائیوروں کی طرح سلیم کو بھی خطرہ لاحق ہوتا ہے کہ اس کا خمیازہ اس کے بچے بھگتیں گے۔ سلیم کا کہنا ہے کہ اسے بہت ہی معمولی سی رقم ملتی ہے، “مجھے ہر ٹرپ پر 3000 جب کہ میرے چھوٹو کو صرف 2000 روپے ملتے ہیں۔” سلیم کے بقول ان کے تیل کا کاروبار اب مندی کا شکار ہے۔ وجہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پہلے تقریباً 1200 گاڑیاں روزانہ پاکستانی حدود میں داخل ہو کر ایرانی تیل پہنچاتی تھیں ۔جب کہ اب گریزروں پر ایران کے سختیوں کی وجہ سے یہ تعداد گھٹ کر صرف 400 رہ گئی ہے۔ سلیم معذرت کر کے سونے جاتا ہے، کیونکہ وہ روزے سے ہے۔

جودار پہاڑیوں کی ایرانی جانب بارودی سرنگیں ہیں
واپس جودار چوکی پہنچ کر میں نے ہر کسی کو جتھے کی شکل میں سرگوشی کرتے دیکھا۔ خالو نے شام کے وقت مجھے بتایا کہ صرف 200 گاڑیاں ایران سے تیل لائی ہیں ۔ اس لیے اب وہ تسلی سے گھوڑے بیچ کر سو گیا۔

آسمان پر بادل نہ ہونے کے باوجود اچانک دور پہاڑیوں پر ہمیں بجلی کی ایک چمک دکھائی دی اور ساتھ ہی دھماکہ بھی ہوا۔ کچھ لوگوں نے گاڑیاں اسٹارٹ کیں اور ایف سی چیک پوسٹ کی طرف لپکے۔ ہمیں ایک گھنٹے بعد خبر ملی کہ ایک گدھے نے بارودی سرنگ پر قدم رکھا، جس پر دو ڈرم تیل لادا ہوا تھا۔

خالو نے مجھے بتایا کہ ڈیزل اور تیل سے لوڈ گدھے رات بھر ان پہاڑیوں میں سفر کرتے ہیں۔ تیل گریزی کرنے والے ایرانی بلوچ ان کے پیچھے پیچھے چلتے ہیں۔ کیونکہ وہاں بارودی سرنگیں ہیں، اس لیے وہ گدھوں کو ہانک کر ان کا پیچھا کرتے ہیں۔اگر گدھے کسی بارودی سرنگ پر قدم رکھتے ہیں تو وہ خود کو بچانے کے لیے پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔

دھماکہ اور شورشرابے کے باوجود ہم اتنے تھک چکے تھے کہ بہت جلد کھلے آسمان تلے سوگئے۔ اگلے دن خالو نے مجھے صبح چھ بجے جگایا۔ اشرف ہوٹل پر ناشتہ کرنے کے بعد ہم پھر سے معمول میں مشغول ہو گئے۔ خالو کو یقین ہے کہ اگلے چند دنوں تک ان کا مال نہیں پہنچے گا۔ کیونکہ رات کو حادثاتی طور پر گدھے بارودی سرنگ کا شکار ہو کر مر گئے تھے۔

کالی ٹوڈی 2D کے ساتھ خدا حافظ
کالی ٹوڈی ایک بہترین ڈرائیور ہے۔ اس کی عمر تیس سال سے کچھ ہی زیادہ ہے، ایک عشرے سے وہ گاڑی چلا رہا ہے۔ اس کا نام کالی ٹوڈی اس لیے پڑا کہ وہ رنگت میں سیاہ ہو کر زمیاد گاڑیوں کو ٹویوٹا کرولا ٹوڈی کی طرح چلاتا ہے۔ اپنی گاڑی کی پشت پر ڈیزل کے 60 ڈرم لادنے کے باوجود ہمیشہ وہ سب سے پہلے ہی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔

جودار میں یہ میرے آخری دو دن ہیں۔ خالو اور اس کے استاد کو اب کچھ یقین نہیں کہ گدھوں کے مرنے کی وجہ سے اب کب ان کا مال پہنچ پائے گا۔

بلیک ٹوڈی اور اس کا چھوٹو چیک پوسٹ پر افطاری کی تیاری کر رہے ہیں۔ خالو اور عمران کے برعکس انہوں نے روزہ رکھا ہے۔ ان کے ساتھ افطاری کرنے کے بعد خالو نے ان سے مجھے کل واپس دالبندین لے جانے کی درخواست کی، تاکہ میں وہاں سے کوئٹہ کے لیے نکل سکوں۔ اس نے حامی بھر لی۔ میں نے دوسرے ڈرائیوروں کے ساتھ اس کا مذاق مستی سنا کہ وہ کیسے ایف سی اور ایرانی سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ رات کے اندھیرے میں آنکھ مچولی کھیل کر ان کی ناک کے نیچے سے جودار چیک پوسٹ عبور کر جاتے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ یہ جھوٹ ہے یا سچ۔ کالی ٹوڈی اس بات پر اپنی گفتگو ختم کرتا ہے کہ ”اگر سیٹھ اجازت دے تو ہر روز ایف سی والوں کو دھوکہ دے کر نکل جاؤں، مگر سیٹھ نہیں مانتا“۔

اگلے دن میں بلیک ٹوڈی کے ساتھ دالبندین کے لیے نکل گیا۔ اس کی گاڑی تیل سے لوڈ ہے اور اس نے ہمیں پانچ گھنٹے میں آرام سے دالبندین پہنچا دیا۔ اس نے دالبندین کے بس اسٹاپ پر مجھ سے معذرت کی کہ رمضان کی وجہ سے مجھے دوپہر کا کھانا نہیں کھلا سکا۔ دالبندین پہنچ جانے پر میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور ہم نے ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا۔

چار دن بعد خالو نے مجھے ماشکیل سے فون کیا، جہاں موبائل سہولت میسر ہے۔ میری حیرانی کی انتہا تھی جب اس نے کہا کہ وہ بغیر لوڈ کیے واپس دالبندین جا رہا ہے۔ ان کی باری نہیں آئی۔ وہ صرف 2000 روپے کمانے کے لیے جودار میں ایک ہفتے سے زیادہ رہا، مگر اب وہ خالی ہاتھ واپس لوٹ رہا ہے۔

[شناخت چھپانے کی خاطر ناموں کو بدلا گیا ہے]

حاجی دھرمیندرا کا خوف
مقامی زبان میں ”بھگ“ کہلانے والا ”ھامون ماشکیل“ ضلع واشک کی تحصیل ماشکیل کے ایک بڑے علاقے کا احاطہ کرتے ہوئے ایران تک پھیل جاتا ہے۔ ھامون میں سطحی جھیلیں ہیں جو کہ برف پھگلنے سے ابھر آتی ہیں۔ زمیاد گاڑی ایک گھنٹے کی مسافت سے ماشکیل پہنچ جاتی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ”بھگ“ میں صدیاں قبل ایک ندی تھی جو کہ اب خشک ہو چکی، جس میں قرب و جوار کے دریاؤں کا پانی جمع ہوتا تھا۔

اس کی وسعت کی وجہ سے کئی لوگ اس میں غائب بھی ہوئے ہیں اور پانی کی قلت کی وجہ سے مارے بھی گئے ہیں۔ گریزر اور مقامی لوگ رات کو ماشکیل کا سفر کرنے کا خطرہ مول نہیں لیتے۔ بھگ میں چند ریت کے ٹیلے اور جھاڑیاں ہیں۔

ماشکیل سے جودار کی جانب سفر کے دوران خالو نے ہکلا کر مجھ سے کہا تھا کہ ”اُس جگہ خاچر کی طرف دیکھو، یہ ھامون ماشکیل کے مشہور زمانہ چور و لٹیرا حاجی دھرمیندرا کا علاقہ ہے۔“

ھامون ماشکیل سے سفر کرنے والے اکثر مہاجرین یہاں لوٹ لیے جاتے ہیں۔ اشرف ہوٹل پر ایک اور ڈرائیور نے مجھے بتایا، ”جب میں افغان مہاجرین کو کو ڈک لایا لے جاتا تھا تب ہمیں تین بار ہامون ماشکیل میں لوٹا گیا۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ ڈاکوؤں نے ہمارے جسم پر کپڑے رہنے دیے، باقی سب لے اڑے، حتٰی کہ ہماری گاڑی کے ٹائر بھی کھول کر لے گئے۔“

ہمیں صرف اتنا معلوم ہے کہ حاجی دھرمیندرا ایک مقامی بلوچ ہے، اس کے علاوہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔

اس دوران میری ملاقات ایک اور ڈرائیور سے ہوئی جس نے حاجی دھرمیندرا کے ساتھ اپنی پہلی مڈبھیڑ و سامنا اس طرح بیان کیا۔

سعداللہ ایک بوڑھا شخص ہے جو کہ دو زانو نہیں بیٹھ سکتا، کیونکہ ایک مرتبہ جودار میں داخل ہونے کی کوشش میں ایف سی نے اسے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔ وہ کسی دور میں ایک زمیاد چلاتا تھا جس کی رفتار 40 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ ایک مرتبہ بھگ میں دوران سفر اسے تین ٹویوٹا پک اپ گاڑیوں نے گھیر لیا۔ تیل لوڈ ہونے کی وجہ سے وہ اپنی گاڑی کی رفتار نہیں بڑھا سکا اور مجبوراً اپنی گاڑی روک دی۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ مجھے ریت کے ٹیلوں کے بیچ کاچار لے جایا گیا۔ وہاں چھ ٹویوٹا پک اپ گاڑیاں اور ایک ٹویوٹا پک اپ کروزر تھا، جسے حاجی دھرمیندرا خود چلاتا تھا۔

وہاں حاجی دھرمیندرا ایک چٹائی پر بیٹھا تھا۔ اس نے مجھے خوش آمدید کہا۔ وہ خوش تھا کہ میں نےاس کے آدمیوں سے بھاگنے کی کوشش نہیں کی۔ اس نے مجھے گڑ کے ساتھ چائے پیش کی۔ میرے قبیلہ اور رہائش کے متعلق حال حوال کیا۔ مجھے لگا کہ وہ ایک اچھا آدمی ہے، دیگر زمیاد ڈرائیور اس کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ جیسے ہی میں نے اپنے منہ میں گڑ کا ٹکڑا لے کر چائے کی چسکیاں لینی شروع کیں، حاجی دھرمیندرا نے اپنے مسلح آدمیوں کو میری گاڑی سے 15 ڈرم تیل خالی کرنے کا حکم دیا۔ یہ سن کر گڑ میرے حلق میں اٹک گیا۔ میں نے رونا دھونا شروع کر دیا اور التجا کی کہ اگر میں 15 ڈرم کے بغیر جاؤں گا تو میرا سیٹھ میرا گلا دبا کر مجھے مار ڈالے گا۔ میں نے رحم کی استدعا کی کہ ہم دونوں بلوچ ہیں، اور میں تو آپ سے بھی غریب ہوں۔ میں اپنے سیٹھ کا کام کر کے اپنی گزر بسر کا سامان کر لیتا ہوں۔

حاجی دھرمیندرا نے سعداللہ پر رحم کر کے 10 ڈرم خالی کروائے اور 5 ڈرم کے لیے ادائیگی بھی کر دی۔ سعداللہ سگریٹ کا ایک کش لگا کر اپنی گفتگو اس بات پر ختم کرتا ہے کہ حاجی دھرمیندرا بے ایمانی کے شعبے میں ایک ایماندار شخص ہے۔“

البتہ کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ حاجی دھرمیندرا بہت پہلے مارا گیا تھا، مگر اس کا خوف ابھی تک لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ ڈرائیوروں کے مطابق روزانہ کی بنیاد پر کئی چور ابھرتے ہیں اور حاجی دھرمیندرا کا صرف نام استعمال کرتے ہیں۔ ایک ڈرائیور جسے تقریباً دو سال قبل لوٹ لیا گیا تھا، اشرف ہوٹل پر چائے کی ملاقات پہ یاد کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ”مجھے چمکدار کالی ٹویوٹا پک اپ گاڑی نے روک لیا تھا، گاڑی سے چار مسلح افراد مع اپنے سرغنہ کے نمودار ہوئے، جو کہ خود کو حاجی دھرمیندرا کہتا تھا۔ اس نے مجھ سے موبائل، پیسہ اور پانچ ڈرم ڈیزل لوٹ لیے۔“

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے منت کرتے ہوئے کہا آپ کو معلوم ہے کہ میں ایک عام غریب بلوچ ہوں، آپ مجھے کیوں لوٹتے ہو؟ میں تو محض اپنے گزر بسر کے لیے گاڑی چلاتا ہوں۔ اس نے جواباً کہا ”میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تم عمر رسیدہ غریب بلوچ ہو، مگر میری بیوی کو یہ بات کون سمجھائے؟، جسے عید پر نئے کپڑے چاہئیں۔“

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply