سوویت افغان جنگ اور فلم چارلی ویلسن وار۔۔عبدالولی

چارلی ویلسن وار 2007 کی ایک باہیوگرافیکل وار ڈرامہ فلم ہے۔ جوک Jeorge Crile III کی 2003 میں چھپنے والی مشہور کتاب چارلی ویلسن وار پر بنائی گئی ہے۔
یہ کہانی دراصل ایک عیاش امریکی کانگرس مین Charlie Wilson اور اس کے دو ساتھیوں جن میں سے ایک منحرف CIA ایجنٹ Gust Avrakotos اور ایک ہنس مکھ حسینہ Joanne Herring کی مشترکہ ٹیم کی دنیا کے سب سے بڑے اور ایک غیر معمولی   covert  opretion کی حیرت انگیز اور سچی کہانی ہے۔ کہ جس کے باعث عظیم سپر پاور سویت یونین کی شکست اور سرد جنگ کا خاتمہ ممکن ہو پایا۔

ہر دل عزیز Tom Hanks نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی جاندار اداکاری سے دیکھنے والوں کو متاثر کیا۔ اس کے عللاوہ Julia Roberts اور Philip Seymour Hoffman نے بھی اپنے اپنے کرداروں کے ساتھ خوب انصاف کیا ہے۔ اگرچہ فلم کا بزنس اتنا اچھا نہیں رہا جتنا کہ امید کی جارہی تھی۔ تاہم پھر بھی اپنی لاگت کے دوگنا کمانے میں کامیاب رہی۔ فلم میں افغان جنگ میں چارلی ویلسن اور مختلف بین الاقوامی فریقوں کے کردار اور مفاد پر مبنی منافقت کی سیاست اور سویت یونین کے شکست کے اصل اسباب کے ساتھ ساتھ افغان امور میں دلچسپی رکھنے والے حضرات کے لیے بہت سارا دلچسپی کا سامان بہم موجود ہے۔

تاہم افغانستان میں سوویت یونین کے شکست کے اسباب کو سمجھنے کے لیے چارلی ویلسن کے کردار کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر پس پردہ عوامل کا جاننا بھی ازحد ضروری ہے۔

گورباچوف

سوویت یونین کے ٹوٹنے کی تین بنیادی اور اہم وجوہات تھیں۔ اوّل خود کمیونزم کی ناکامی تھی کہ یہ نظام مزید ڈیلیور کرنے سے قاصر ہوچکا تھا، دوم گورباچوف اور اس کی پالیسیاں۔ اگر گوربا چوف نہیں ہوتے تب بھی یہ نظام کسی نہ کسی طرح چند سال مزید سانسیں بھر سکتا تھا۔ 1985 میں جب گوربا چوف نے اقتدار سنبھالا تو کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ نہیں تھا کہ سویت یونین کا آنے والے پانچ برسوں میں اس طرح شیرازہ بکھر جائے گا۔ اور سوم افغانستان میں سوویت یونین کو امریکی تعاون سے افغان مجاہدین کے ہاتھوں عبرتناک شکست۔

1985 میں جب گوربا چوف سوشلسٹ روس کا صدر منتخب ہوا تو امریکہ سے اسلحہ کی دوڑ اور افغان جنگ کی طوالت کے باعث سوویت معیشت تقریباً تباہی کے دہانے پر تھی۔ چنانچہ اس دوران گورباچوف نےامریکی صدر کے تخفیف اسلحہ کی تجویز کو قبول کیا اور 1987 میں روس اور امریکہ کے مابین تخفیف اسلحہ کا تاریخ ساز معاہدہ طے پایا۔ گورباچوف کا دوسرا اہم اقدام ‘گلاسناٹ یا آزاد معیشت’ کی پالیسی تھی۔ گلاسناٹ کے باعث پہلی بار اول تو سوشلسٹ حکومت پر تنقید اور ساتھ ہی ساتھ رسائل اور جرائد کو سیاسی امور پر بھی بحث کرنے کی پہلی بار مشروط اجازت مل گئی۔ مشرقی یورپ کے اشتراکی ممالک جن پر دوسری جنگ عظیم کے بعد روسی فوجی تسلط تھا جیسے بلغاریہ، رومانیہ، پولینڈ، ہنگری، چیکوسلواکیہ اور مشرقی جرمنی میں اٹھنے والی جمہوری تحریکوں کو پہلی بار سویت یونین نے بزور شمشیر دبانے سے اجتناب برتا جو کہ اس سے پہلے روس کا خاصہ رہا تھا۔ دیوار برلن کے گرانے کے عمل کے دوران باوجود جرمنی میں 350,000 روسی افواج کے گورباچوف نے عدم تشدد کا راستہ اپنایا۔ تیسرا اہم اقدام گورباچوف کا افغانستان سے روسی فوج کے انخلاء کے معاہدہ پر دستخط تھا۔

افغانستان میں روس کو شکست (کیوں، کیسے اور کس نے دی؟)

1979 میں جب سوویت فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو ابتداء میں سوویت افواج کو بھرپور کامیابیاں حاصل ہوئیں اور افغان مجاہدین کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑھا۔ CIA اور ISI کی ساری تدبیریں پے در پے ناکامی سے دوچار ہوتی رہی۔ اگرچہ مجاہدین زمینی محاذ پر تو کابل اور سوویت افواج کا ڈٹ کر اور بھرپور مقابلہ کررہے تھے۔ تاہم وہ بے رحم سوویت فضائیہ کے سامنے بالکل بے بس اور لاچار تھے۔ اسی دوران امریکی کانگرس مین چارلی ولسن میدان عمل میں آئے اور سوویت فضائیہ کی برتری کے  توڑ کے لیے تگ و دو شروع کردی۔ چارلی ولسن نے اس سلسلے میں کانگریس سے مجاہدین کے لیے بھاری فنڈ کی منظوری کروائی۔ مجاہدین کو اسلحہ بہم پہنچانے کے لیے بھرپور کوششیں کی۔ اس سلسلے میں بظاہر تین انتہائی سخت قسم کے مخالفین پاکستان، اسرائیل اور مصر کو روس کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کے لیے باہم یکجا کیا گیا اور مصر سے عرب اسرائیل جنگ کے دوران روس کا فراہم کردہ اسلحہ مجاہدین کے لیے حاصل کیا گیا تاکہ امریکہ کی جنگ میں براہ راست شمولیت کا ثبوت کسی کو نہ مل سکے۔ چارلی کی سب سے بڑی کامیابی امریکی حکومت سے افغان مجاہدین کے لیے اسٹنگر میزائل کا حصول تھا۔ یہ واقعی ایک غیر معمولی کام تھا۔ اس کا مطلب ایک تو امریکہ کی براہ راست جنگ میں شمولیت تھی اور دوسرا امریکی ٹیکنالوجی کا روس کے ہاتھوں لگنے کا بھی شدید خدشہ تھا۔ اسٹنگر نے دراصل افغان جہاد میں کلیدی کردار ادا کیا بلکہ ایک طرح سے اسٹنگر گیم چینجر ثابت ہوا۔ اسٹنگر سے ایک تو سویت فضائیہ کی برتری کا خاتمہ ہوا، دوسرا مجاہدین کے پست حوصلوں میں بھی ایک نئی جان آگئی۔ اس جنگ کے دوران کل 450 سویت جہاز یا تو مار گرائے گئے یا پھر حادثات کا شکار ہوئے بشمول 333 ہیلی کاپٹرز کے۔ تاہم 80 تا 85 فیصد ان میں اسٹنگر کا شکار ہوئے۔ صرف 1987 تا 1989 کے دوران تقریباً 360 سے اوپر جہاز اس میزائل کے زد میں آئے۔ یہی دراصل وہ وجہ تھی جس نے گورباچوف کو اول تو رونلڈ ریگن کے ساتھ کیمپ ڈیویڈ میں تخفیف اسلحہ کے معاہدہ پر مجبور کیا اور دوم افغاستان سے روسی افواج کے انخلاء کی منظوری بھی دے دی۔ یوں افغانستان میں کیپٹلزم نے سوشلزم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منوں مٹی تلے دفن کردیا۔

فاتح کون؟

یہ جنگ سوویت یونین کے خلاف تین بڑے اور بنیادی فریقوں نے باہم مل کر لڑی چنانچہ فتح کا کریڈیٹ بھی تینوں فریقوں کو مشترکہ جاتا ہے۔ تینوں فریق ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزم کی حیثیت رکھتے تھے۔ یعنی کہ کبھی بھی افغان مجاہدین امریکی امداد کے بغیر اتنی طویل جنگ نہیں لڑ سکتے تھے اور نہ ہی افغان مجاہدین کے بغیر کبھی امریکہ سوویت یونین کا شیرازہ اس طرح بکھیر سکتا تھا۔ اسی طرح ISI کے بغیر بھی شاید کبھی مجاہدین اور امریکہ اتنے قریب نہیں آپاتے۔ ISI نے CIA اور افغان مجاہدین کے درمیان ایک طرح سے پل کا کردار ادا کیا۔ افغان مجاہدین کی ٹریننگ, رہائش اور علاج معالجے کا انتظام کیا۔ مختلف مجاہد گروپس کی بنیادیں ڈالیں اور انہیں باہم منظم کیا۔

نقصانات

Advertisements
julia rana solicitors

اس جنگ میں دیکھا جائے تو سب سے زیادہ نقصان افغانستان اور افغانیوں کا ہی ہوا ہے۔ اس کے بعد اگر کسی کا نقصان ہوا ہے تو وہ پاکستان ہے۔ امریکہ نے مقصد کے اصول کے بعد افغانستان اور خطہ کو پس پشت ڈال دیا تھا۔ جبکہ افغان عوام امریکہ اور روس کی اس لڑائی میں بھرپور استعمال ہوئی اور غلطی سے امریکی ڈالر اور اسٹریٹیجی کو اپنی مکمل جیت سمجھ بیٹھے۔ نتیجہ وہ آج تک سپر پاور کی شکست کے گیت گارہے ہیں۔ وہ آج تک روس کی شکست کے شراب کے خمار میں مبتلا ہیں۔ ان میں غرور آگیا وہ ہمہ وقت کسی سے بھی, کہیں بھی اور کبھی بھی لڑنے   مرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ کل روس ان کا نمبر ایک دشمن تھا تو آج خود امریکہ۔ کل ان کی باگ دوڑ کسی اور کے ہاتھوں میں تھی تو آج کسی اور کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ افغانیوں کی اسی روش نے افغانستان کو کنڈر بنا ڈالا۔ اور اگر بات پاکستان کی جائے تو اسے بھی ایک طرح سے اس جیت کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ آج پاکستان میں تعصب, فرقہ پرستی, مذہبی جنونیت کا باہم عروج ہے۔ اس کے علاوہ ہزاروں پاکستانی اس جنگ کے بعد کے حالات کے نظر ہوچکے ہیں۔ ملک کو کھربوں کا معاشی نقصان الگ سے ہوا۔
جنگ دراصل بربادی ہے خاص کر غریب اور معاشی طور پر بد حال ممالک کے لیے تو بھیانک اندھیرا ہے۔ ماضی کی تاریخ کا یہی سبق ہے اور تاریخ سے سیکھا جائے عقل کا یہی تقاضا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply