میاں نواز شریف کی محسن کُش فطرت/عامر حسینی

میاں نواز شریف کی محسن کُش فطرت کی بات چَل نکلی ہے تو مجھے آہستہ آہستہ بہت کچھ یاد آتا جارہا ہے .
میاں نواز شریف جس مسلم لیگ کا حصہ تھے اس مسلم لیگ کے وزیراعظم محمد خان جونیجو تھے, جب ضیاء الحق نے جونیجو صاحب کو چلتا کیا تو نواز شریف نے بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اُس مسلم لیگ کے اندر سے مسلم لیگ فدا برآمد کرلی اور جونیجو صاحب کو چھوڑ دیا۔
1988ء میں اسلامی جمہوری اتحاد بنا تو میاں صاحب نے پنجاب کی چیف منسٹری اپنے پاس رکھی اور مرکز میں اپوزیشن غلام مصطفیٰ  خان جتوئی کے سپرد کردی لیکن جب 1990ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی حکومت بنتی نظر آئی تو اسلامی جمہوری اتحاد کی طرف سے انھوں نے غلام مصطفٰی جتوئی کو مجبور کردیا کہ وہ اُن کے لیے جگہ خالی کردیں ۔

اسلامی جمہوری اتحاد میں اُس وقت جتنی جماعتیں شامل تھیں اُن میں جن کے پاس پنجاب میں بہترین تنظیمی نیٹ ورک تھا اُن میں نواز شریف نے نقب لگائی اور پنجاب میں اُن جماعتوں کو ایک طرح سے سیاسی یتیم بنادیا۔ ان جماعتوں میں جے یو پی نیازی ایک مثال ہے ۔ دوسری مثال جماعت اسلامی ہے، تیسری مثال جمعیت اہل حدیث ہے ۔ قاضی حسین احمد یونہی نواز شریف سے اسقدر برگشتہ نہیں ہوئے تھے کہ اُن کی جماعت کے بہترین کارکن انھوں نے توڑ لیے تھے ۔ مولانا نیازی سے انھوں نے مولانا سرفراز نعیمی فضل کریم، حمید الدین سیالوی اور جمیل شرق پوری توڑے۔نیازی صاحب نے آخری دنوں میں واپس جے یو پی نورانی میں جاکر پناہ لی اور عزت بچائی۔ صاحبزادہ فضل کریم اُن کی سعودی پرستی کی نذر ہوئے جب انھیں رانا ثناء اللہ زیادہ پیارے ہوگئے تھے اور پھر صاحبزادہ فضل کریم کے بیٹے نے نواز شریف پر اپنے والد کو قتل کرنے تک کا الزام لگایا  اور وہ یونہی تو عمران خان کیمپ میں نہیں گئے تھے ۔نواز شریف کی سپاہ صحابہ، طالبان اور القاعدہ اور سعودی عرب سے قربتوں کا خمیازہ اُن کا ساتھ دینے والے بریلوی علما و مشایخ نے خوب بھگتا ۔ سرفراز نعیمی کو سپاہ صحابہ کے مدرسے کے ایک طالب علم نے خوکش بم دھماکے میں اڑایا اور ستم ظریفی دیکھیے کہ اُن کے پہلے عُرس پر شہباز شریف نے طالبان سے ہمدردی جتائی۔ اسی لیے سرفراز نعیمی کے چہیتے شاگرد مفتی گلزار نعیمی اور دیگر کئی شاگرد عمران خان سے جاملے تھے تاکہ شریف خاندان کو سبق سکھایا جاسکے ۔

نواز شریف نے 90ء کی دہائی میں جے یو آئی-ف کی جگہ سپاہ صحابہ کو دلانے میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ مذہبی دایاں بازو سے اُن کا رشتہ نفرت اور محبت کا مجموعہ رہا، انھوں نے تبلیغی جماعت کو بھی نہ بخشا،پنجاب میں بریلوی ووٹ بینک کا ایک سیکشن طاہر القادری سے اُن کے بغض اور محاز آرائی کے سبب الگ ہوا۔ طاہر القادری کو انھوں نے اسقدر زچ کیا کہ وہ پاکستان عوامی تحریک بناکر پیپلزپارٹی کے قریب ہوگئے اور اگر 2000ء میں پی پی پی اے آر ڈی میں نواز لیگ کو شامل نہ کرتی تو طاہر القادری اور حامد ناصر چٹھہ پی پی پی کا ساتھ چھوڑ کر کبھی مشرف کیمپ میں نہ جاتے۔
نواز شریف نے چوہدری شجاعت حسین کے خانوادے کو بھی نہیں بخشا ، ایسے ہی اختر عبدالرحمان اور اعجاز الحق کو بھی زچ کیا جس کے سبب یہ دونوں بھی نواز شریف مخالف کیمپ میں چلے گئے جب مشرف نے تختہ الٹایا۔

مسلم لیگ نواز کے اندر سے ہم خیال گروپ ایک دن میں نہیں ابھرا تھا بلکہ اس گروپ کے قد آور سیاست دانوں کو نواز شریف کی موقع  پرستی اور فرعونیت نے مجبور کردیا تھا کہ وہ نواز شریف کو چھوڑ دیں ، ان میں سے بھاری اکثریت آج عمران خان کے ساتھ کھڑی ہے ۔

اے این پی کو بھی نواز شریف کے ساتھ اتحاد میں انتہائی تلخ تجربہ ہوا اور جب وہ نواز شریف سے الگ ہوئی تب سے وہ نواز شریف سے ذرا فاصلہ بنائے رکھتی ہے۔

نواز شریف سے ٹوٹ کر عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے والے بہت سارے سیاست دان اور اُن کے دھڑے نواز شریف کی انانیت، موقع  پرستی کے حوالے سے اپنی شکایات رکھتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف نے انھیں بیوقوف بنایا  ۔

نوے کی دہائی میں نواز شریف نے پنجاب میں فرقہ وارانہ خون ریزی میں اہم ترین کردار ادا کیا۔ پنجاب میں اُن کی حکومت کی ماتحت پولیس کو یہ ہدایات ملی تھیں کہ وہ سپاہ صحابہ کے مسلح ونگ لشکر جھنگوی کو کھلی چھٹی دیں اور پنجاب میں عمومی طور پر لاہور میں خصوصی طور پر ایسے ممتاز شیعہ افراد کی ٹارگٹ کلنگ کریں جن کی پی پی پی سے وابستگی اَن مٹ تھی ۔اُس زمانے میں جن شیعہ گھرانوں کو ٹارگٹ کیا گیا اُن کی اکثریت پی پی پی کی ووٹر تھی۔ 99ء میں سپاہ صحابہ کے اس دہشت گرد مسلح ونگ کے بڑوں کو جن میں ملک اسحاق، اکرم لاہوری ریاض بسرا، قاری حیات نمایاں تھے کو احساس ہوا کہ انھیں استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیا گیا ہے تو انھوں نواز شریف پر حملہ کیا یہ مشرف کے مارشل لاء سے کچھ ماہ قبل ہوا تھا۔
آج عمران خان کے ساتھ کھڑے ہونے والوں میں اکثر متاثرین نواز شریف ہی ہیں ۔اگرچہ یہ اور بات ہے کہ ان میں سے اکثر وہ ہیں جنھوں نے نواز شریف کی چمک کو اپنے پرانے سیاسی تعلقات پر ترجیح دے کر موقع  پرستی کا مظاہرہ کیا تھا۔

نواز شریف کو سیاست میں اپنے ذاتی وفادار اور غلام درکار رہے ہیں اور پھر وہ وفاداروں سے بھی چالبازی کرتے رہے ہیں۔
سندھ میں غوث بخش مہر، لیاقت جتوئی سمیت ایسے سیاسی گھرانے موجود ہیں جن کے ساتھ نواز شریف نے کئی بار دھوکہ کیا اور اب وہ نواز شریف کا نام سُننا پسند نہیں کرتے۔
مسلم لیگ نواز میں ابھی بھی کئی ایسے سیاسی خانوادے موجود ہیں جنھیں جس دن ٹھیک وقت لگا وہ نواز شریف کو چھوڑ جائیں گے۔

فوجی اسٹبلشمنٹ سے نواز شریف کی لڑائی اس لیے شروع نہیں ہوئی تھی کہ نواز شریف دل داہ ہوگئے تھے بلکہ اس لیے شروع ہوئی کہ انھوں نے سویلین نوکر شاہی اور عدالتی اسٹبلشمنٹ کو مفتوح کرنے کے بعد فوج کو بھی اپنی ذاتی وفادار بنانے کی کوشش کی تھی اور اُن کی مخالف فوجی اسٹبلشمنٹ میں لابی نے اسٹبلشمنٹ کے متوازی نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ کی بیخ کُنی کا پروجیکٹ شروع کیا تب کہیں جاکر رد تشکیل کا عمل شروع ہوا ۔

اسٹبلشمنٹ نواز شریف کی اسٹبلشمنٹ کے بڑھتے ہوئے سائز سے اتنی بوکھلا گئی کہ اُس نے جلد بازی میں ایک ایسے لاڈلے کو سلیکٹ کیا جس نے منحرف ہوکر نواز شریف سے کہیں زیادہ ادارے کو نقصان پہنچایا اب فوجی اسٹبلشمنٹ کی قیادت اپنی فاش غلطی کو سدھارنے کی پوری کوشش کررہی ہے ، لیکن جتنی وہ ڈور کو سلجھاتی ہے ڈور اتنی الجھتی چلی جاتی ہے ۔

فوجی اسٹبلشمنٹ کی موجودہ قیادت سے عمران خان اور اُس کی نوجوان فالونگ /پیروکار یہ سوال پوچھنے میں بالکل حق بجانب ہیں کہ کل تک جو چور، ڈاکو، لیٹرے، غدار اور پاکستان کے تمام بنیادی مسائل کے ذمہ دار تھے جنھیں مکمل کچل ڈالنے کی ہدائیت دی وہ ایک دَم سے معتبر کیسے ہوگئے؟

فوجی اسٹبلشمنٹ نے ففتھ جنریشن وار لڑنے کے لیے جو سوشل میڈیا ٹرولنگ بریگیڈ تیار کرکے عمران خان کے سپرد کیا تھا اُس نے واپس اُن کے پاس آنے سے انکار کردیا ہے۔

ففتھ جنریشن وار کے لیے لاکھوں سوشل آئی ڈیز کا ایک وسیع نیٹ ورک تیار کیا گیا تھا جو دن رات غدار تخلیق کرتا تھا۔ اب یہ نیٹ ورک نئے غدار بنارہا ہے، سب سے بڑا غدار باوجوہ ہے، پھر ندیم انجم ہے، پھر فلاں ہے اور پھر فلاں ہے، ٹرولنگ بریگیڈ سارے کا سارا ففتھ جنریشن وار کی تھیوری گھڑنے والوں کے گلے دبوچنے کی کوشش کررہا ہے۔

کل سے اس ٹرولنگ بریگیڈ نے فوج کی موجودہ قیادت کی تصویریں ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور مشرف کے ساتھ کولاج  میں رکھی ہیں اور عمران خان کی تصویر انھوں نے فاطمہ جناح، بھٹو اور بے نظیر کے ساتھ کولاج  میں رکھی ہوئی ہیں اور ایک کے بعد ایک ٹوئٹ، فیس بُک پوسٹ نمودار ہورہی ہے ۔

عمران خان ایک بھوت کی طرح منڈلارہا ہے ۔

باوجوہ نے ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی ایک پریس کانفرنس کا جو جواب دیا ہے اس کا تصور بھی کبھی انھوں نے نہیں کیا ہوگا۔

وزیرآباد واقعہ کے بعد آج عمران خان کی پریس کانفرنس ایک اور ڈائریکٹ حملہ ہے ۔ عمران خان ہوسکتا ہے آنے والے دنوں میں باوجوہ، ندیم انجم کے استعفے کے مطالبے تک محدود نہ رہے بلکہ وہ عاصم منیر سمیت درجن بھر اور جرنیلوں کے استعفوں کی مانگ کرے ۔ یہ سب اس لیے بھی ہورہا ہے کہ نواز شریف اور اُس کی بیٹی نے پنجاب کا میدان صرف شہباز شریف کو غلط ثابت کرنے کے لیے چھوڑ دیا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نواز شریف شاید یہ سمجھتا ہے کہ بحران جتنا گہرا اور شدید ہوگا اُس سے نکلنے کے لیے اُسے فوجی جرنیل منت ترلے کرکے واپس بلائیں گے، لیکن اس مرحلے پر نواز شریف کی بزدلی عمران خان کو فریکنسٹائن /عفریت میں بدلنے کا سبب بن سکتی ہے جس سے نمٹنا آسان نہیں ہوگا۔

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply