پیالی میں طوفان (63) ۔ موبائل/وہاراامباکر

سینکڑوں لوگ بیک وقت موبائل پر خوش گپیوں میں مشغول ہیں۔ ایک ہی قسم کے فون ہیں۔ وہ ان کی مدد سے باقی دنیا سے لہروں کی مدد سے منسلک ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ٹائٹانک کا ریڈیو کا مواصلاتی رابطہ اس لئے خراب ہو گیا تھا کہ بیس بحری جہاز ایک ہی سگنل بھیجنے کی کوشش میں تھے۔ لیکن آج ایک ہی عمارت سے سو لوگ اپنی اپنی الگ گفتگو کر سکتے ہیں اور کسی کو مسئلہ نہیں ہوتا۔ ہم لہروں کو کس طرح اتنا منظم کر لیتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک آدمی نے سڑک پر چلتے ہوئے اپنے موبائل نکالا۔ ٹچ سکرین سے نمبر ڈائل کر کے فون کام سے لگا لیا۔ فرض کیجئے کہ آپ کو سپرپاور مل گئی ہے اور ریڈیو ویوز کو دیکھ سکتے ہیں اور ان کی الگ ویولینتھ کو الگ رنگوں کے طور پر محسوس کر سکتے ہیں۔ اس آدمی کے فون سے سبز لہریں نکل کر پھیل رہی ہیں۔ فون سے دور جاتے جاتے ماند پڑتی جاتیں ہیں۔ موبائل فون کا بیس سٹیشن 100 میٹر کے فاصلے پر ہے۔ وہ ان کو پکڑ کر پیغام کو ڈی کوڈ کر لیتا ہے۔ اس نمبر کو شناخت کر لیتا ہے جس کو ڈائل کیا گیا۔ پھر بیس سٹیشن اپنا سگنل واپس اس کے فون تک بھیجتا ہے لیکن اس کا رنگ اصل سگنل والے سبز رنگ سے کچھ مختلف شیڈ کا ہے۔ جدید ٹیلی کمیونیکیشن کا یہ پہلا حربہ ہے۔ ہماری ٹیکنالوجی بہت ہی زیادہ پریسائز ہے کہ کونسی ویولینتھ بھیجی اور موصول کی گئی۔ اصل سگنل کی ویولینتھ 13.412 انچ تھی۔ واپسی والے سگنل کی 13.409 انچ۔ یہ بہتگ معمولی سا فرق ہے لیکن یہ لہریں الگ الگ رہتی ہین اور ایک دوسرے میں مداخلت نہیں کرتیں۔ وہ آدمی چلتا جا رہا ہے۔ اس کی سبز لہریں ایک پیٹرن اٹھائے ہوئے ہیں۔ یہ وہ پیغام ہے جو ان پر بھیجا جا رہا ہے۔
ایک اور خاتون بھی اسی سڑک پر ہیں۔ ان کی استعمال ہونے والی ویولینتھ ایک بار پھر معمولی سی مختلف ہے۔ لیکن بیس سٹیشن ان دونوں کے درمیان تمیز کر لیتا ہے۔
آپ یہ سب دیکھ رہے ہیں۔ بہت سے چمکدار نقطے وہ فون ہیں جو لہریں بھیج رہے ہیں۔ یہ عمارتوں سے ٹکراتی ہیں۔ جذب ہوتی ہیں۔ لیکن زیادہ تر بیس سٹیشن تک پہنچ جاتی ہیں۔
آدمی چلتا جا رہا ہے اور بیس سٹیشن سے اس کا فاصلہ بڑھ رہا ہے۔ سبز سگنل فیڈ ہو رہا ہے۔ اگلی والی سڑک پر پہنچ تو یہاں پر اگلے بیس سٹیشن کی نئی فریکونسی کا سرخ سگنل موجود ہے۔ اسے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں ہوا لیکن اس کے فون نے پہلے بیس سٹیشن سے دوسرے تک سوئچ کر لیا ہے۔ یہاں پر سرخ کے بہت سے شیڈ پائے جاتے ہیں۔ اگر وہ چلتا رہے گا تو ہو سکتا ہے کہ وہ نئے علاقوں میں پہنچے جہاں نئے رنگ ہوں جو ہم اپنی سپرہیرو والی صلاحیت سے دیکھ سکتے ہوں۔ کوئی بھی ایسا علاقہ نہیں ہو گا جہاں پر دو رنگ ایک دوسرے کو چھوتے ہوں گے۔ لیکن اگر وہ مزید چلتا جائے تو پھر ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اور علاقے میں داخل ہو جائے جہاں ایک بار پھر سبز رنگ آ جائے۔
یہ موبائل فون نیٹورکس کا دوسرا حربہ ہے۔ دونوں “سبز” سٹیشن کے سگنل اتنے طاقتور نہیں ہوتے کہ ایک دوسرے تک پہنچ سکیں اور اس لئے مداخلت کا کوئی مسئلہ نہیں ہوتا۔
اگر تمام لوگ بھی ایک دوسرے سے بات کر رہے ہوں تو وہ منفرد لہروں کا استعمال ہی کر رہے ہوں گے۔ اور ٹیکنالوجی ان سب کو انتہائی نفاست اور پریسیژن کے ساتھ الگ الگ کر دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم لہروں سے بھری دنیا میں چلتے رہتے ہیں۔ وائی وائی فائی، فون، ریڈیو سٹیشن، سورج، ہیٹر، ریموٹ کنٹرول ۔۔۔ یہ تو روشنی کی لہریں ہیں۔ آوازیں، پھونک مارنے پر چائے کے کپ پر بننے والی لہریں یا سمندر کی۔ زلزلے کی لہر یا موسیقی کی۔ ہماری دنیا لہروں سے بھری ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج ہم سیارے کے دوسری جانب کسی شخص کا فون نمبر ملا کر اس سے گپ لگا سکتے ہیں۔ ہم نہ نظر آنے والی لہروں کی مدد سے رابطے میں رہتے ہیں۔ اور یہ بنیادی طور پر بہت عجیب ہے۔
مارکونی سے لے کر آج تک اس میں ہونے والی ترقی حیران کن ہے۔ اگلی بار، جب آپ کسی کو فون کریں تو اس پر کچھ غور کر لیں۔
لہر ایک سادہ شے ہے۔ لیکن اگر آپ اس بارے میں ہوشیاری سے کام لیں کہ اسے استعمال کرنا کیسے ہے تو یہ دنیا کو سکیڑ دیتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply