کتھارسس/فرزانہ افضل

پہلے روزے کی پہلی افطاری پر کھانے کی میز سجائی تو تین افراد کے کھانے کے لیے گویا تیرہ افراد کے برابر کا سامان سجا تھا۔ اپنے ہی تیارشدہ لوازمات دیکھ کر ایک دم سے شدید ندامت محسوس ہوئی۔ ہمارے مادروطن میں مفت آٹا بٹنے کی قطار میں دھکم پیل کے نتیجے میں چند افراد کی موت کا منظر ذہن کے آسمان پر کڑکتی ہوئی بجلی کی مانند لرز گیا۔ غربت کے ہاتھوں جانوں کے ضیاع کی ان دکھ بھری خبروں نے کلیجہ چھلنی کر دیا ہے۔ اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ ہم لوگ کس قدر نا شکر گزار ہیں اور کتنی زیادہ خوراک ضائع کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں فریج میں پڑا کھانا پہلے دن کے بعد دوسرے روز فوڈ بِن کی نذر ہو جاتا ہے۔ کیونکہ فیملی کے افراد  روزانہ تازہ کھانا کھانا پسند کرتے ہیں اور اگر آپ کا ہاتھ کھلا ہے یا گھر کے ممبران کی تعداد کے مطابق حسب ضرورت کھانے کی مقدار کا اندازہ نہیں ہے تو پھر کھانے کا ضائع ہونا یقینی بات ہے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اتنا ہی کھانا بنائیں جو ایک یا دو وقت کے لئے کافی ہو۔

ذہن میں کتھارسس کا عمل کئی  روز سے چل رہا ہے۔ ہمارے ہاں بچے روٹی کبھی کبھار ہی کھاتے ہیں زیادہ تر انگلش فوڈ یا چاول کو ترجیح دیتے ہیں لہذا جس دن آٹا گوندھا جائے تو اس دن کے بعد آٹا فریج میں پڑا پڑا دو دن میں سیاہ ہو جاتا ہے اور پھر معمول کی طرح بِن میں جاتا ہے ۔ جب کہ ہمارے غریب ملک میں آٹا جو کہ بنیادی درجے کی ضرورت کی خوراک ہے ،کے حصول کے لیے لوگ اپنی جان کی بازی ہار رہے ہیں۔ حتٰی کہ لوگ غربت کے مارے خودکشی کرنے پر بھی مجبور ہو جاتے ہیں ۔ بات صرف کھانے تک ہی محدود نہیں ، ہم لوگ اپنے پہننے اوڑھنے اور لائف سٹائل پر بھی ضرورت سے زیادہ خرچ کرتے ہیں۔ برطانیہ میں اور دوسرے مغربی ملکوں میں رہنے والے ہم اوورسیز پاکستانی  اپنے تئیں نامور خیراتی اداروں کو زکوٰۃ اور چندہ دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کردیا۔ اس بات کی کھوج لگائے بغیر کہ کیا یہ پیسہ مستحقین تک پہنچ رہا ہے یا نہیں، یہ سوچ کر خود کو تسلی دیتے ہیں کہ ہم نے تو اللہ کی راہ میں دے دیا آگے وہ ادارے جس طرح سے بھی خرچ کریں وہ ان کے اعمال ہیں۔ سیلاب اور زلزلہ زدگان کے نام پر بھی بے شمار رقومات اکٹھی کی جاتی ہیں مگر ان کے اس مد میں خرچ کے ثبوت کم ہی نظر آتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

کوشش کیجیے کہ صرف بھروسہ مند خیراتی اداروں کو ہی اپنی حلال کی کمائی سے چندہ دیں ۔ اور ذاتی طور پر مستحق خاندانوں کی امداد کریں۔ رمضان میں ان کے گھروں میں راشن ڈلوانے کے ساتھ ساتھ کسی غریب کی اسکے کاروبار میں مدد کر دیں۔ جہاں مہنگائی سر چڑھ کر بول رہی ہے وہاں سوشل میڈیا پر چھوٹے چھوٹے بچوں کی فٹ پاتھ پر بیٹھ کر چیزیں بیچنے کی تصویریں نظر آتی ہیں تو دل میں دکھ کی ٹیس اٹھتی ہے۔ کسی مستحق خاندان کے بچے کی تعلیم کا خرچہ اپنے ذمے لے لیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ ہم میں سے بیشتر لوگ زندگی کی نعمتوں سے مالا مال ہیں۔ ان نعمتوں میں ضرورت مند افراد کو حصہ دار بنائیے ۔ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کے علمبردار بنیے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply