پاک فوج کا ٹویٹ۔۔جذباتی ردِ عمل یا سوچا سمجھا منصوبہ

پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ کے ڈی۔جی میجر جنرل آصف غفور کی ڈان لیکس کے متعلق ٹویٹ پر ہر طرف ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔ کسی کو جمہوریت خطرے میں نظر آ رہی ہے تو کوئی اس کا خیرمقدم کر رہا ہے۔ بھیڑ چال کی عادی پاکستانی قوم اس مدعے پر بھی اپنے اپنے”گویڑ” مارنے میں مصروف ہے۔صورتحال جو بھی ہو یہ بات طے شدہ ہے کہ جملہ ٹویٹ یا اس میں کم از کم آخری تین الفاظ نہیں ہونے چاہییں تھے جن کی وجہ سے آج دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔بہرحال اگر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ٹویٹ جلدبازی میں یا جذباتی ہو کر کی گئی ہے تو معذرت کے ساتھ ہم احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ پاک فوج ایک ذمہ دار ترین ادارہ ہے۔ اس کا ہر شعبہ مخصوص نظم و ضبط کا پابند ہے جس سے روگردانی کا سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ خصوصاً شعبہ تعلقاتِ عامہ کو انتہائی ذمہ داری سے چلایا جاتا ہے تا کہ پاک افواج کے متعلق عوام میں بہتر رائے قائم رہے۔ جو کہ کسی بھی ملک کی فوج کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس صورت حال میں یہ ممکن ہی نہیں کہ پاکستان کے بہترین ادارے کے ذمہ دارترین شعبہ کا اعلی ترین افسر بلا سوچے سمجھے اس طرح کی ٹویٹ کر کے کسی حکومتی اقدام کو چیلنج کرے۔ اگر صرف تحفظات ظاہر کرنا ہوتے یا ڈکٹیشن ہی دینا مقصود ہوتی تو اس کے لیے دیگر بہت سے ذرائع تھے۔ کھلے عام پبلک میں ایسی ٹویٹ کا مقصد دراصل کچھ اور ہے۔ اگر ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ٹویٹ سے کہاں کہاں اور کس کس کو فائدہ ہوا ہے اور نقصان کسے ہوا ہے تو صورتحال کچھ یوں سامنے آتی ہے۔۔۔
1. ٹویٹ کے فوراً بعد پانامہ فیصلہ اور اس پر بحث پس منظر میں چلی گئی ہے۔ اس وقت زیر بحث ہے تو فقط ڈان لیکس۔
2. ٹویٹ کے بعد اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ آرمی خود کو وزیراعظم کے ماتحت نہیں سمجھتی اور جے۔آئی۔ٹی میں تحقیقات صاف شفاف ہوں گی۔
3. جنرل راحیل شریف کے جانے کے بعد بوٹ چاٹ مافیا سخت مایوسی کا شکار تھا اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ وزیراعظم کی اداروں پر گرفت مضبوط ہو گئی ہے جبکہ اس ٹویٹ کے بعد شخصیت پرست ایک بار پھر سے جاگ اٹھے ہیں اور امیدیں باندھ چکے ہیں کہ جلد یا بدیر” میرے عزیز ہم وطنو” سننے کو ملے گا۔
4. وزیراعظم پاکستان ایک بار پھر مظلومیت اور مسکینیت کا روپ دھار چُکے ہیں۔ جہاں ایک طرف انہیں گرفت کمزور ہونے کے طعنے دیے جا رہے ہیں وہیں دوسری طرف وہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے جمہوری حلقوں سے ہمدردی سمیٹ رہے ہیں۔
5. گزشتہ دنوں وزیراعظم، جندال ملاقات کلبھوشن کو پھانسی اور احسان اللہ احسان کا اعترافی بیان۔ ۔ ۔ ۔ یہ سب معاملات اس وقت سیاسی منظر نامے سے غائب ہو چکے ہیں۔
درجہ بالا نکات کو گہرائی سے پرکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مذکورہ ٹویٹ کا فائدہ حکومت اور اداروں کو یکساں طور پر ہوا ہے۔ وہ کام جو وزیر اعظم کی پریس کانفرنسیں اور آرمی چیف کے ساتھ ملاقاتیں نہیں کر سکتی تھیں وہ ایک ٹویٹ نے کر دیا ہے۔ لہذا یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اسے دونوں فریقین کی مکمل باہمی اتفاق رائے اور صلاح مشورے سے کیا گیا ہے۔ رہے عوام تو انہیں چاہیے کہ جمہوریت خطرے میں ہے۔ ۔ ۔ اور وسیع تر قومی و ملکی مفاد جیسے راگ پر سر دُھنتے رہیں۔ تاوقتیکہ انہیں سارا منظرنامہ سمجھ میں آ جائے۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply