سیاسی اختلافِ رائے (2)-مرزا مدثر نواز

نوّے کی دہائی کے بعد شاید پچھلے کچھ سالوں میں سیاسی رائے کی بنیاد پر عدم برداشت بڑھتی ہی جا رہی ہے اور معاشرہ تقسیم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی عدم برداشت اب تشدد کی شکل میں بہت زیادہ سامنے آ رہی ہے اور معاشرے میں تقسیم بہت واضح ہو گئی ہے۔ اب تو قریبی سماجی رشتوں‘ کاروباری تعلقات اور نوکری میں بھی یہ تناؤ نظر آتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عدم برداشت اور تشدد کی ایک وجہ بڑھتی ہوئی معاشی مشکلات اور مایوسیاں بھی ہیں۔ انسان میں برداشت صرف اس وقت آتا ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوا اور اس کی بنیادی ضروریات پوری ہوں۔

غیرمہذب لوگوں کی مجلس میں تکرار کچھ یوں ہوتی ہے‘ ایک کوئی بات کہتا ہے‘ دوسرا بولتا ہے واہ یوں نہیں یوں ہے‘ وہ کہتا ہے”واہ تم کیا جانو“ وہ بولتا ہے ”تم کیا جانو“ دونوں کی نگاہ بدل جاتی ہے‘ تیوری چڑھ جاتی ہے‘ رخ بدل جاتا ہے‘ آنکھیں ڈراؤنی ہو جاتی ہیں‘ کف  اُڑنے لگتا ہے‘ سانس تیزتر ہوتاہے‘ رگیں تن جاتی ہیں‘ آنکھ‘ ناک‘ بھوں‘ ہاتھ عجیب عجیب حرکتیں کرنے لگتے  ہیں‘ آستین چڑھا‘ ہاتھ پھیلا‘ ایک دوسرے پر تھپڑوں  گھونسوں کی بارش ہونے لگتی ہے‘ کسی نے بیچ بچاؤ کر کے چھڑا دیا تو غرّاتے ہوئے ایک ادھر چلا گیا اور ایک ادھر اور اگر کوئی بیچ بچاؤ کرنے والا نہ ہوا تو کمزور نے مار کھا کر کپڑے جھاڑتے‘ سر سہلاتے اپنی راہ لی۔ جس قدر تہذیب میں ترقی ہوتی ہے اسی قدر اس قسم کی تکرار میں کمی ہوتی ہے‘ کہیں توُ تکار تک نوبت آ جاتی ہے‘ کہیں آنکھیں بدلنے‘ ناک چڑھانے اور جلدی جلدی سانس چلنے ہی پر خیر گزر جاتی ہے۔

انسانوں میں اختلافِ رائے ایک حقیقت ہے اور اس کے پرکھنے کے لیے بحث و مباحثہ ہی ایک جانچ ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ بے مباحثہ محفل میں پھیکے  پن کے سوا کچھ نہیں مگر مباحثہ اور تکرار میں تہذیب و شائستگی‘ محبت و دوستی‘ خوش اخلاقی و تہذیب‘ نرمی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ تردیدی گفتگو کے ساتھ ہمیشہ سادگی سے معذرت کے الفاظ استعمال کرنے چاہیے مثلاً یہ کہ میری سمجھ میں نہیں آیا یا شاید مجھے دھوکہ ہوا یا میں غلط سمجھا‘ میں اس بات کو پھر سوچوں گایا اس پر پھر خیال کروں گا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی مجلس و محفل یا اکٹھ جہاں مختلف آراء کے آدمی شامل ہوں تو جہاں تک ممکن ہو‘ جھگڑے و تکرارومباحثے سے بچنا چاہیے کیونکہ جب تقریر بڑھ جاتی ہے تو دونوں کو ناراض کر دیتی ہے۔ جب دیکھو کہ تقریر لمبی ہوتی جاتی ہے اور تیزی و زور سے تقریر ہونے لگی ہے تو جس قدر جلد ممکن ہو اس کو ختم کرو اور آپس میں ہنسی خوشی مذاق کی باتوں سے دل کو ٹھنڈا کر لو۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
ٹیلی کام انجینئر- ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply