بیانیے کی تلاش (پی ڈی ایم کے نام )-محمد وقاص رشید

پی ڈی ایم یعنی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ یعنی پاکستان جمہوری تحریک اس وقت پاکستان میں حکمرانی کر رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تحریک کی کامیابی یعنی حکمرانی کے حصول کے بعد پہلا ہدف اپنے کیسز معاف کروانے کے بعد وہ اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے ملک میں جمہوری روایات جو انکے بقول گزشتہ حکومت میں معدوم پڑ چکی تھیں، انہیں دوبارہ بروئے کار لاتے لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہو رہا۔ انتقام میں جلتی ہوئی پی ڈی ایم کی قیادت کی جمہوریت پسندی اور اندازِ فکر کا اندازہ صرف اس بات سے ہی لگا لیجیے کہ چھوڑیے عمران خان کو خود اپنی جماعت میں مفتاح اسمٰعیل صاحب کو جنہوں نے بقول پی ڈی ایم کے ڈیفالٹ ہوتے ملک کو آکر بچایا محض اسحاق ڈار صاحب سے اپنی عزتِ نفس کا طلبگار ہونے پر بے عزت کر کے نکال دیا گیا۔ اور توشہ خانہ پر تو انتہا ہی ہو گئی شریف خاندان کے ایک چشم و چراغ جن کا سیاست سے تعلق نہیں وہ سلیمان شہباز اپنے خاندان کی مرسڈیز گاڑیوں سے لے کر پائن ایپل تک نظر انداز کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی گھڑیوں پر طنزیہ ٹویٹ کرتے پائے گئے۔ سبحان تیری قدرت،یعنی آپ “ووٹ کو عزت دو “والی پارٹی میں صرف جمہوری روایات کی مضبوطی اور عزت کے طلبگار ہوں اور شاہی خاندان سے کوئی اختلاف کریں تو پھر آپ ان دونوں چیزوں سے محروم کر دیے جائیں گے۔

پی ڈی ایم نے حکومت اس وعدے پر سنبھالی کہ 6 مہینے میں معیشت کو پیروں پر کھڑا کریں گے اور مہنگائی کم کریں گے۔ ڈالر کا ریٹ چند دنوں میں دوسوروپے سے کم آئے گا۔

اسحاق ڈار صاحب نے تو پوری تمکنت کے ساتھ مفتاح صاحب کو نیچا دکھانے کے لیے یہ تک ارشاد فرمایا تھا کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات میں نے کرنے ہیں “کسی اور” نے نہیں۔ میرا تجربہ ہے اور میں جانتا ہوں کہ آئی ایم ایف سے کیسے ڈیل کرنا ہے اور میں انہیں اپنی شرائط پر قائل کروں گا۔ آپ اندازہ لگائیے محض اسحاق ڈار صاحب کی خاطر آئی ایم ایف سے معاہدہ بہ دیر کیے جانے کی اس عوام نے کیا قیمت چکائی۔ اور اسحاق ڈار صاحب آج کل معاہدہ نہ ہونے اور آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کا رونا رو رہے ہیں اور قرآنی آیات ٹویٹ فرما رہے ہیں جس میں صبر و آزمائش کا تذکرہ ہے۔ بھرے ہوئے پیٹ کے ساتھ بھوکے کو صبر کی آیت سنانا منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ سنانے والا کوئی بھی ہو۔

تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی ہونی تو پی ڈی ایم کی کامیابی چاہیے تھی کہ راقم الحروف سمیت قوم کی اکثریت عمران حکومت کے آئے روز بدلتے وزراءِ خزانہ کی “ماشیت” سے متعلق پالیسی سے ناخوش تھی لیکن ہوا اس سے اُلٹ۔

عمران خان صاحب کے مہم جو ہونے میں شک ہی نہیں۔ انہوں نے کمال مہارت سے اپنی ساڑھے تین سال کی کمزور حکومتی کارکردگی کو تحریکِ عدم اعتماد کی ہنگامہ خیزی میں یوں چھپایا کہ تحریکِ عدم اعتماد امپورٹڈ سے “لوکل ” کے یو ٹرن کے باوجود بیانیہ سازی کے لیے انکے حق میں استعمال ہوئی۔ خان صاحب کے اس بیانیے کو مضبوط بنانے میں پی ڈی ایم کی مندرجہ بالا اختلافات کے باعث ناقص کارکردگی نے اہم کردار ادا کیا۔

میاں شہباز شریف صاحب وزارتِ عظمیٰ کا مٹیریل ہیں ہی نہیں۔ نہ یقین آئے تو ملاحظہ فرمائیے وہ ویڈیو جس میں وہ بیرونِ ممالک سربراہان سے پیسے مانگنے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ ہم اس طرح کے جملے بسوں میں بھیک مانگنے والوں سے سنتے ہیں ” مانگنا عادت نہیں پر کیا کریں مجبوری ہے “۔۔۔انہوں نے اپنے کپڑے بیچ کر آٹا سستا کرنا تھا بیچ قوم کے کپڑے دیے۔

خان صاحب نے اس بیانیے کی وجہ سے ضمنی انتخابات میں توقع سے بڑھ کر کامیابی حاصل کی۔ کامیاب سیاسی حکمتِ عملی سے پنجاب کی حکومت حاصل کی اور ساتھ ہی اسمبلیاں برخواست کرتے ہوئے تازہ مینڈیٹ کے لیے عوام کے پاس جانے کا اعلان کر دیا۔ پنجاب میں نگران حکومت آئین کے مطابق الیکشن کمیشن نے تشکیل دی کہ حکومت اور اپوزیشن متفق نہ ہو سکے۔

عمران خان صاحب نے ڈھکے چھپے الفاظ سے ہوتے ہوئے آخرِ کار نام لےکر جنرل باجوہ پر تنقید کرنی شروع کر دی اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حالات دن بہ دن انکے لیے سخت گیر ہوتے چلے گئے۔

یہاں تک کہ خان صاحب کے لانگ مارچ کے دوران ان پر گولیاں چل گئیں۔ اس قاتلانہ حملے کا منصوبہ حیران کن طور پر ویسا ہی تھا جو اس سے پہلے وہ خود واضح طور پر کہہ چکے تھے۔ حملہ آور نے پکڑے جانے پر جو بیان دیا وہ وہی تھا کہ “میں نے توہینِ مذہب کی بنیاد پر ان پر گولی چلائی “۔

خان صاحب نے اس قاتلانہ حملے کی ذمہ داری تین لوگوں پر عائد کی اور تیسرے غیر سویلین نام کی وجہ سے ملک کا سابق وزیراعظم ایک صوبے میں اپنی حکومت ہونے کے باوجود ایف آئی آر تک درج نہیں کروا سکا۔ یہی پاکستان کی سب بڑی زمینی حقیقت ہے۔

اسکے بعد پی ٹی آئی کے لیے حالات دگرگوں ہوتے چلے گئے۔ پکڑ دھکڑ مار دھاڑ اور قانونی طور پر انکی مشکیں کَسی گئیں۔ صرف خان صاحب پر کیسز کی سینچری مکمل ہوئی۔
سپریم کورٹ کی طرف سے پنجاب اور خیبر پختونخوا  میں اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 دن کے اندر الیکشن کروانے کا حکم نامہ آیا تو پی ٹی آئی نے زمان پارک کی طرف پورے لاہور سے ایک ریلی کی صورت میں پیش قدمی شروع کی۔ اس پر نگران حکومت کی طرف سے ریاستی جبر کا بد ترین مظاہرہ کیا گیا۔ ایک کارکن علی بلال عرف ظلِ شاہ کو پولیس نے حراست میں لیا اور تین گھنٹے بعد اسکی لاش منظرِ عام پر آ گئی۔ اسکی پوسٹ مارٹم رپورٹ منظرِ عام پر آ گئی جسکے مطابق اس پر وحشیانہ تشدد کیا گیا تھا۔ انتہائی دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ مریم نواز صاحبہ کی ایک کال لیک ہوئی جس میں وہ اس قتل کو حادثے کا “اینگل” دینے کے لیے کسی انکل سے بات کر رہی تھیں اور تین دن کے بعد نگران حکومت کی تفتیشی ٹیم نے بھی اسے ایک حادثہ قرار دے دیا اور اللہ اللہ خیر صلہ۔ پی ڈی ایم اور نگران حکومت کے موقف میں یگانگت ہی سمجھنے والوں کے لیے ایک اشارہ ہے۔ مگر انسانی جان کے معاملے میں سیاست کسی طور بھی نیک شگون نہیں۔

نگران حکومت پنجاب کے وزیرِ اطلاعات عامر میرنے جو بھونڈی دلیل پیش کی دفعہ 144 اور پی ٹی آئی پر تشدد کی وہ یہ تھی کہ عورت مارچ پر حیا مارچ والوں نے تیزاب گردی کی دھمکی دی تھی۔ اس پر شاہزیب خانزادہ صاحب اور کاشف عباسی صاحب نے سوال کیے لیکن عامر میر صاحب آئیں بائیں شائیں کرتے رہے۔

تازہ ترین خبر کے مطابق الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب کا انتخاب مختلف اداروں کے عدم تعاون کی بنیاد پر ختم کر دیا۔ مریم بی بی بار بار “انتخاب سے پہلے احتساب ” کی بات کر رہی ہیں۔ باخبر لوگوں کے مطابق اس آپریشن کا نام “آپریشن لیول پلیئنگ فیلڈ” ہے۔ جس میں نون لیگ کو پی ٹی آئی کے برابر لا بٹھانا ہے۔ اب برابری خان صاحب کی نااہلی ہوتی ہے یا میاں صاحب کی “معصومانہ” واپسی , یہ وقت بتائے گا۔

پی ڈی ایم کے سیاسی تضادات دن بہ دن واضح ہوتے جا رہے ہیں۔ توشہ خانہ کا مضحکہ خیز بنایا گیا۔ اس کیس کو خان صاحب والا “اسلامی ٹچ” دینے کا عالم یہ تھا کہ ملک کے وزیراعظم صاحب کہتے رہے کہ خانہ کعبہ کے ماڈل کی گھڑی بیچ کر ملک اور اسلام دونوں سے غداری کی۔ بندہ پوچھے پوری دنیا میں بکتے اور ڈرائنگ رومز میں سجتے خانہ کعبہ اور مسجد نبوی ص کے ماڈل کیا توہینِ مذہب کے ضمرے میں آتے ہیں۔ بہرحال توشہ خانہ کا ریکارڈ سامنے آیا تو پائین ایپل سے لے کر بی ایم ڈبلیو اور لکس صابن سے لے کر قالینوں تک ہر قسم کے “ٹچ” کی بھد اڑ گئی۔

پی ڈی ایم کیونکہ بیانیے کی تلاش میں ہے اور اسکا مقابلہ بیانیہ سازی کی ایک باقاعدہ مربوط جماعت سے ہے اس لیے بیانیے کی عمارت کے لیے کھڑے کیے گئے ہر ستون پر پہلے ہی ہلے میں کاری ضرب کاری شروع ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر پی ڈی ایم کی جانب سے حکومت سنبھالتے ہی کہا گیا کہ اس نے امریکہ اور یورپی یونین کو جلسوں میں للکار کر پاکستان کا نقصان کیا اب اپنے معاشی وعدوں کی ناکامی اور ہوشربا مہنگائی کرنے کے بعد پاکستانی سیاست کے “گرگٹ” جناب فضل الرحمن صاحب نے دوبارہ یہودی لابی والا چورن بیچنا شروع کر دیا اخے عمران خان کے پیچھے یہودی لابی امریکہ اور پاکستانی عدالتیں ہیں۔ “ہمارے دل طالبان کے ساتھ دھڑکتے ہیں ” کہنے والے ان صاحب نے یہ بھی کہا کہ کالعدم تنظیموں کے لوگ زمان پارک میں موجود ہیں سو اس تنظیم کو دہشتگرد تنظیموں کی طرح برتاؤ کیا جائے۔

اس سارے قضیے میں سب سے خطرناک بات عمران خان صاحب کی بار بار اپنے قتل کر دیے جانے کی پیشگوئی اور انتباہ ہے۔ یہ بہت ہی سنجیدہ معاملہ ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ خون آلود ہے۔ لیاقت علی خان کی شہادت، ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل بے نظیر بھٹو کی شہادت یا جبر و استبداد کے نتیجے میں ملک کا دو لخت ہونا ایسے بے شمار واقعات ہماری تاریخ کے چہرے پر چیچک کے نشان بن کر واضح ہیں۔

اس وقت پی ٹی آئی میں پرویز الٰہی اور اعجاز الحق کی شمولیت کا مطلب ایک ادنی ٰ سے طالبعلم کی نگاہ میں “مائینس عمران خان ” ہے کہ اس جماعت میں اپنے نامی گرامی ستون کھڑے کیے جائیں جو عمران خان کے بعد اس جماعت کو خان صاحب سے علیحدہ کر سکیں۔

جنرل باجوہ جن کے بیانات کا سلسلہ جاری ہے۔ خان صاحب کے بقول انہوں نے کہا تھا کہ “اب” دیکھنا تمہارے ساتھ ہو گا کیا۔
مسلم لیگ نون نے نہ اپنے ماضیِ بعید سے سبق سیکھا نہ ہی پی ٹی آئی کے ماضی قریب سے۔ مقتدرہ کے جبر اور ستمگری کو فراہم کی گئی سیاسی ڈھال آگے چل کر ایک طوق بن کر اپنے گلے میں ہی آتی ہے پر افسوس کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی خو اور سیاسی انتقام یہ حقیقت باور نہیں کرنے دیتا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بیانیے کی تلاش میں مسلم لیگ نون “فاشزم ” کی راہ پر گامزن ہو کر نہ اپنی جماعت کا فائدہ کر رہی ہے نہ جمہوریت کا۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی گھاگھ سیاسی جماعتیں ہیں۔ اپنا بنیادی “کام ” کرنے کے بعد کلین چٹ پکڑ کر اپنے نام “پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ” یعنی پاکستان جمہوری تحریک کے لیے برداشت رواداری کی سیاست کا فروغ زیادہ بہتر بیانیہ ہو سکتا ہے جس پر خون کے دھبے بھی نہ ہوں۔ وگرنہ ۔۔۔۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے “ہوا” کسی کی نہیں

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply