نسل نو

خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر ۔ اقبال
نوجوان نسل کسی بھی قوم کا حقیقی سرمایہ ہوتی ہے ۔ جس قوم کے نوجوان بیدار و باشعور ہوں اس قوم کا مستقبل محفوظ ہوتا جبکہ اسکے برعکس جس قوم کے نوجوان غیر فعال اور تن آسانی کے مرض میں مبتلا ہوں وہ قوم کبھی آگے نہیں بڑھ سکتی ۔ نوجوانوں کا فعال کردار ہی قومی ترقی کا ضامن ہے اور نوجوان نسل ہی صیح معنوں میں کسی قوم کی افرادی قوت ہے ۔قائد اعظم محمد علی جناح نے نوجوانوں کو قوم کا مستقبل قرار دیا ، انہیں کام ، کام اور کام اور ایمان اتحاد اور تنظیم کے سنہری اصول عطا کیے ۔ علامہ اقبال نہ صرف اپنی شاعری میں جا بجا برائے راست نوجوانوں سے مخاطب ہوتے ہیں بلکے اقبال کی شاعری کا ایک قابل ذکر حصہ نوجوانوں کے لیے مختص ہے ۔ اقبال کو نوجوانوں سے خاصی امیدیں وابسطہ تھیں اور وہ نوجوانوں میں عقابی روح بیدار کرنا چاہتے تھے بلکے اقبال نے نوجوانوں کے حق میں یوں دعا کی:
جوانوں کو میری آہ و سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے ۔
نوجوان نسل کسی بھی قوم کی نظریاتی اور عملی طور محافظ ہوتی ہے ۔ اگر کسی قوم کے نوجوان نظریاتی انتشار و خلل کا شکار ہو جائیں تو یہ اس قوم کے لیے ذہنی غلامی کا دور ہوتا ہے اور اگر باالفرض کسی قوم پر دفاعی طور پر مشکل وقت آ جائےتو نوجوان ہی رضا کارانہ طور پر افواج کے شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں لیکن یہ بھی اسی صورت ممکن ہے جب نوجوانوں میں نظریاتی طور پر کسی طرح کا کوئی شک و شبہ موجود نہ ہو۔
اکیسوی صدی کو عموما ٹیکنالوجی کے دور سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اکیسوی صدی اگرچہ اپنے ساتھ جدت لائی لیکن اس کے ساتھ ساتھ اکیسوی صدی کی آمد سے ہمارے معیارات اور ترجیعات میں بھی نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں ۔ معیارات اور ترجیعات کی اس تبدیلی کا سب سے زیادہ اثر نوجوان طبقے پر ہو ا ہے ۔ اکیسوی صدی کا نوجوان نہ صرف کاہل اور تن آسان واقع ہوا ہے بلکے ذہنی و فکری طور پر بھی نہائیت پستی کا شکار ہے ۔ آج کے نوجوان کے شب و روز کے معموالات میں کسی تخلیقی کام کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے بلکے تمام تر وقت انٹر نٹ اور سوشل میڈیا کے کثرت استعمال سے ضائع کیا جا رہا ہے ۔
آج کا نوجوان ملکی اور بین الاقوامی حالات سے یکسر لاعلم اور بے خبر ہے بلکے عالات حاضرہ سے واقفییت حاصل کرنا اسکی ترجیعات میں ہی شامل نہیں ہے ۔حالات حاضرہ سے اگر واسطہ پڑھتا بھی ہے تو نہائیت مجبوری کے عالم میں یعنی کسی مقابلے کے امتحان یا انٹرویو میں کامیابی کے لیے بازار یا دوکان سے ایک دوکتب خرید کر لائی جاتی ہیں اور ان کتب کا بھی امتحان میں یقینی کامیابی کی حد تک محدود مطالعہ کیا جاتا ہے ۔
سیاست کسی دور میں نوجوانوں کا شغل سمجھا جاتا تھا اور کسی بھی تحریک کی کامیابی اور نا کامی میں نوجوانوں کو فیصلہ کن حثیت حاصل ہوتی تھی لیکن آج کے نوجوان کو سیاست میں نہ صرف کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے بلکہ انکے نزدیک سیاست ایک فضول اور بے معنی چیز ہے ۔سیاست سے اس عدم دلچسپی نے نوجوانوں کا خبرو اخبار کے ساتھ تعلق ہی منقطع کر لیا ہے چنانچہ اب خال خال ہی ایسے نوجوان نظر آتے ہیں جنکو باقاعدہ اخبار بینی کی عادت ہو ۔ نوجوانوں کا اگر اخبار کے ساتھ کچھ تعلق موجود بھی ہے تو صرف کھیلوں اور بالی ووڈ کی خبروں والے صحفات تک ہی محدود ہے ۔
میرے نزدیک عالمی و قومی سیاست اور حالات حاضرہ سے ہر شخص کو واقف رہنا چاہئیے اور اس وقت دنیا میں کہاں کیا ہو رہا ہے اسکا کماحقہ علم بھی ہر شخص کو لازما ہونا چاہئیے۔
اگر کسی قوم کے نوجوان اپنی ثقافت اور روایات کو پوری مضبوطی سے تھام لیں تو اس قوم کی روایات اور ثقافت کبھی مردہ نہیں ہوتیں۔ پاکستانی نوجوان نہ صرف یہ کہ اپنی روایات اور ثقافت کو فراموش کر چکے ہیں بلکے یورپی اور مغربی روایت کا پوری خوشدلی سے اثر قبول کر رہے ہیں ۔ یورپی و مغربی کلچر ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگیوں پر پوری طرح غالب آہ چکا ہے چنانچہ اب ہمارا مجموعی ریاستی ومعاشرتی نظام ہو یا انفرادی سطح پر ہمارا رطرزہن سہن ، طرز لباس اور انداز گفتگوغرض یہ کہ تیرے صوفے ہیں افرنگی تیری قالیں ہے ایرانی کے مصداق زندگی کہ ہر ہر شعبے میں یورپی کلچر سے باقاعدہ رہمنائی لی جاتی ہے ۔ہمارے نوجوانوں اپنی تمام تر جسمانی اور ذہنی صلاحتیں یورپی معیارات سے مطابقت پیدا کرنے میں صرف کر رہے ہیں ۔مخالف جنس کو متاثر کرنا آج کے نوجوان کا ایک مشغلہ بن چکا ہے چنانچہ فیشن کے نام پر نوجوان لڑکیاں مردوں اور نوجوان لڑکے عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے جا رہے ہیں اور اگر ہمارے ہاں ترقی اور جدت کے یہی معیارات رہے تو وہ دن دور نہیں جب ہم وہ دورجو اقبال ؒ نے اپنے تصور میں دیکھا تھا اپنی سر کی آنکھوں سے دیکھ لیں یعنی :
پردہ آخر کس سے ہو جب مرد ہی زن ہو گئے ۔
ترجیعات اور معیارات کی اس تبدیلی نے نوجوانوں کا تاریخ کے ساتھ بھی ناطہ توڑ دیا چنانچہ یوں آج کےنوجوان کا اپنے ماضی کے ساتھ بھی رابطہ ٹوٹ کا ہے ۔ زندہ اقوام کبھی اپنے ماضی سے رابطہ نہیں توڑتیں بلکہ قومی سطح پر ماضی کی تاریخ کسی بھی قوم کے لیے نصاب کی طرح ہوتی ہے جس سے اقوام نہ صرف مستقبل میں راہنمائی لیتی ہیں بلکے حال کے متعلق بھی سبق حاصل کرتی ہیں اور انفرادی سطح پر تاریخ کا مطالعہ ہی اسلاف اور آئیڈیل شخصیات سے تعارف کراتا ہے چنانچہ آئیڈئیل شخصیت نہ صرف انسان کے اندر ایک نیا ولولہ اور جذبہ پیدا کرتی ہے بلکے انسان کے اندر کچھ کر گزرنے کی خواہش بھی اسی سے پیدا کرتی ہے ۔
نوجوانوں کا اسلام کے ساتھ بھی نہائیت محدود اور سطعی تعلق پایا جاتا ہے ۔ ہمارے ہاں جیسا کے اوپر عرض کیا جا چکا ہے مغربی طرز حیات کو ہی بطور معیار تسلیم کیا جاتا جو کہ ظاہر ہے اسلام کی ضد ہے چنانچہ یہ مغربی معیارات اور مغربی فکر کا ہی نتیجہ ہے کہ نوجوانوں کی غالب اکثریت باالخصوس اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان سکیولرازم اور لبرل ازم کی طرف مائل ہوتے جا رہے ہیں ۔ میرے نزدیک اگر نوجوان نسل اسلام کے حقیقی تصور دین کو سمجھ لے اور اسلام کو عملی طور پر اپنی زندگیوں میں نافذ کر لے تو یہ نہ صرف اجر و ثواب اور اخروی فوائد کا ذریعہ ہے بلکے ناقدین جو اسلامی نظام حیات کو دور جدید سے نا موافق قرار دیتے ہیں پر حجت قائم ہو جائے گی اور دنیا کے لیے ایک قابل تقلید مثال بھی قائم ہو جائے گی ۔
نوجوانون کی موجودہ پستی کے ذمے داروں کے تعین میں تین نام برائے راست ذمے دار کی فہرست میں آتے ہیں یعنی حکومت وقت ، ہمارے تعلیمی ادارے اور والدین ۔ سچ بات یہ ہے کہ ہماری کسی بھی حکومت نے کبھی بھی قوم اور باالخصوص نوجوانوں کی تربیت پر توجہ ہی نہیں دی اور نہ کبھی یہ ان کی ترجیعات میں شامل رہا ۔ ہماری حکومتوں کا تصور ترقی نہائیت محدود ہے جو محض پلوں اور سڑکوں کی تعمیر تک محدود ہے ، اگرچہ اس طرح کے اقدام بھی اچھے ہیں لیکن حقیقت بہر حال یہی ہے کہ قوم پلوں اور سڑکوں سے نہیں بنتی بلکے قوم کی ترقی اور تعمیر کے لیے لازم ہے قوم کی ذہنی و فکری سطح پر اصلاح کی جائے ۔ حکومت کو چاہئیے کے اخبارات ، ٹی وی اور میڈیا کے دوسرے تمام ذرائع کو قوم کی تربیت اور اصلاح کے لیے استعمال کیا جائے ، قومی و مذہبی تقریبات میں نوجوانوں کو اپنی قومی اور مذہبی تاریخ سے روشناس کیا جائےاور اپنی ثقافت و روایات کو عملی طور پر فروغ دیا جائے ۔
حکومت کے وقت کے بعد نوجوانوں کی تربیت کی ذمے داری تعلیمی اداروں پر عائد ہوتی ہے جہاں نوجوان اپنی زندگی کا نہائیت اہم دور گزارتے ہیں ۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی جانب سے تعلیم و تربیت کے بڑے بڑے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن حقیقت اس کے بلکل بر عکس ہے ۔ ہمارے اداروں میں غیر نضابی سر گرمیوں کے نام پر مختلف نواع کے کھیلوں کا انتظام کیا جاتا ہے بلکے خواتین سے کرکٹ ، ہاکی اور فٹ بال وغیرہ کھلائے جاتے ہیں ، موسیقی اور رقص کا انتظام کیا جاتا ہے ،اہم قومی و تاریخی تقریبات میں اداکاروں کو مدعو کیا جاتا ہے لیکن نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی کی جانب کوئی توجہ نہیں دی جا تی ، ہمارے اداروں میں نوجوانوں کو تاریخ ،موجودہ ملکی و عالمی سیاست اور معلومات عامہ سے واقف رکھنے کا کوئی انتظام موجود نہیں ہے بلکے یہ ہمارے اداروں کی ترجیعات اور مقاصد میں ہی شامل نہیں ہے ۔ ہمارے اداروں میں نوجوانوں کی تربیت و اصلاح اور ذہنی و فکری تعمیر کا کوئی مناسب بندوبست نہیں ہے ۔ہمارے تعلمی ادارے ضرف سائنسی علوم کے مراکز ہیں اور ان ادارون میں مذہبی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے جسکی وجہ سے نوجوان نہ صرف عملا اسلام سے دور ہو رہے ہیں بلکے اسلامی تاریک سے بھی نا واقف ہوتے جا رہے ہیں اور سکیولر اور لبرل نظریات کے حامل بھی ۔ کسی ملک کا تعلیمی نظام اس قوم کی کردار سازی اور قوم کی ترقی اور تربیت میں نہائیت اہم کردار ادا کرتا ہے ہمارےی حکومت کو چاہئیے کے سکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیز کا نصاب کو ار سرے نو اس طرح مرتب کیا جائے جو نہ صرف علوم جدید پر مشتمل ہو بلکے عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو ، اسلامی تعلیمات اور علوم کا ذخیرہ ہو ، ملکی و عالمی تاریخ کے مضامین پر مشتمل ہو اور ساتھ ساتھ معلومات عامہ اور اصلاح و تربیت کا بھی ضامن ہو اور مزید یہ کے ایسے تمام مضمون تمام درجوں کے طلباء کو بطور لازمی مضمون کے پڑھائے جائیں ۔
نوجوانوں کی تربیت کی بڑی باری ذمہ داری والدین پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن افسوس آج کے والدین بھی اپنی اس ذمے داری کو صیح معنون میں پوری نہیں کر رہے ۔ یورپی و مغربی یلغار نے جب ہمارے طرز زندگی کے معیارات بدلے تو اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں تربیت کے معیارات میں تبدیلی واقع ہوئی چنانچہ آج کے والدین نہ صرف بچوں کے مغربی طرز حیات پر شاداں ہیں بلکے باقاعدہ حوصلہ افزائی کر رہے ہیں ۔ جہاں تک قومی و سیاسی معمالات اور تاریخ کا تعلق ہے تو اب خال خال ہی کوئی ایسا گھرانہ موجود ہے جس میں نوجوانوں کو ایسی کوئی تربیت دی جاتی ہو یا ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہو۔ جہاں تک مذہب کا معمالہ ہے میری رائے تو یہ ہے آج کے دور کے نوجوانوں کا باالخصوص اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کا اسلام کے ساتھ جو تعلق بھی موجود ہے چاہے جس نوعیت کا بھی ہے وہ گھریلو تربیت کی ہی وجہ سے لیکن یہ تصور بھی اب تقریبا ختم ہوتا جا رہا ہے ۔اگر ہمارے والدین کو اپنی ذمے داری کا احساس ہو جائے اور وہ اپنی ترجیعات کو درست کر لیں تو ہمارا پورا معاشرہ سدھر سکتا ہے ۔والدین اور بالخصوص ماؤں کا کسی معاشرے کی بہتری میں نہائیت اہم کردار ہوتا ہے چنانچہ علامہ اقبال نے مسلم خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :
اے مسلم خاتوں ،تو اگر حضرت فاطمہ جیسا کردار اختیار کر لے تو تیری گود میں حضرت حسن اور امام حسین جیسے پھول کھلیں گے ۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply