• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈیل کی افواہیں پھیلانے والو کچھ جمع تفریق بھی تو سیکھ لو۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

ڈیل کی افواہیں پھیلانے والو کچھ جمع تفریق بھی تو سیکھ لو۔۔۔ غیور شاہ ترمذی

تحریک انصاف سے وابستہ راقم کے دوست, احباب اور رشتہ دار گزشتہ کالم “سیاستدانوں اور اسٹیبلمنٹ میں کوئی ڈیل ہوئی ہے یا نہیں, فیصلہ منطق سے کیجئے” سے کافی ناراض ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ نہیں بلکہ تحریک انصاف کی ہر دل عزیز حکومت کے ساتھ میاں نواز شریف اور آصف زارداری کی ڈیل ہو چکی ہے جس کے تحت صرف میاں نواز شریف سے ہی 14ارب ڈالر وصول ہونے ہیں جبکہ آصف زارداری سے بھی 10 ارب ڈالرز وصول ہوں گے- میاں نواز شریف  کی طرف سے 14 ارب ڈالرز کی پہلی قسط 9.2 ملین یعنی 90 لاکھ 20 ہزار ڈالر ز کی ادا ئیگی کر دی گئی ہے جبکہ باقی 3سال کے اندر قسطوں کی صورت میں ادائیگی کرنی ہوگی۔ اس غیر منطقی اور اندازوں پر مبنی پراپیگنڈہ میں اداروں سے وابستہ افراد کچھ یوں اضافہ کرتے ہیں کہ شریف فیملی سے ہونے والی اس ڈیل کے سلسلہ میں قطر اور سعودی عرب کے حکمران ضامن ہیں۔ ان حکمرانوں کی طرف سے یہ بھی گارنٹی ہوگی کہ میاں نواز شریف کبھی بھی پاکستان واپس نہیں آئیں گے جبکہ مریم نواز شریف 2023ء کے انتخابات سے پہلے واپس آ کر اپنی پارٹی کی انتخابی مہم چلا سکیں گی- اس دوران نواز شریف فیملی کے خلاف کیسز جوں کے توں رکھے جائیں گے جن کی بنیاد پر تحریک انصاف کے کارکنان واویلا کرتے رہیں گے کہ میاں نواز شریف فرار ہو کر لندن جا بسے ہیں جبکہ مسلم لیگ نون کے کارکن کہتے رہیں گے کہ میاں صاحب اپنی بیماریوں کی وجہ سے لندن مقیم ہیں- وہ کیس بھگتنے سے نہ کبھی پہلے ڈرے تھے اور نہ ہی اب ڈرتے ہیں یعنی دونوں پارٹیوں کو سیاست چلاتے رہنے کے لئے مواد موجود رہے گا-

اس بے پَرکی اُڑانے والے”مشوموں” کا یہ بھی کہنا ہے  کہ اس سارے کھیل میں مولانا فضل الرحمن سے ہاتھ ہوگیا ہے۔ پس پردہ پی پی پی سے بھی مذاکرات آخری مراحل میں ہیں, وہ بھی ڈیل فائنل کر رہے ہیں جس کے لئے نومبر تک کی ڈیڈ لائن ہے۔ پی پی پی اور نون لیگ پس پردہ مولانا کے دھرنے میں شرکت نہ کرنے کی یقین دہانی کروا چکے ہیں- مولانا فضل الرحمن کو بھی مذاکراتی کمیٹی نے اب ساری صورتحال سے آگاہ کردیا ہے- اس لئے اب مولانا نے بھی ہتھیار پھینک دئیے ہیں – لہذا اب صرف سیاسی ساکھ کے لئے لانگ مارچ کیا جائے گا اور اسلام آباد میں کشمیر ہائی وے پر واقع بچت بازار کے پاس واقع پریڈ گراؤنڈ پر صرف جلسہ کیا جائے گا جس کا بنیادی موضوع کشمیر ہوگا۔ حکومت پر تنقید کرتے ہوئے سخت الفاظ سے گریز کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن کی طرف سے ان نقاط پر عمل کرنے کی صورت میں آنے والے دنوں میں مولانا کی جماعت کو بلوچستان حکومت میں کچھ وزارتیں اور مشاورتیں بھی دی جائیں گی-

امید ہے کہ حکومتی جماعت کے نابالغ سیاسی پنڈتوں اور بےسروپا افواہیں اڑانے والوں کی ان درفنطنیوں کو پڑھ کر آپ کو بھی بالکل ویسے ہی ہنسی آ رہی ہو گی جیسا کہ راقم اور اس کے دوست انہیں پڑھ کر دیر تک ہنستے رہے تھے- ان ساری درفنطنیوں کو فیوز کرنے کے لئے یہی تازہ خبر کافی ہے کہ میاں نوازشریف کی ضمانت کی درخواست پر سماعت کرنے والے اسلام آباد ہائیکورٹ کے بنچ نے میاں نوازشریف اور حکومت کے درمیان ڈیل کی خبریں اور تجزئیے پیش کرنے والے ٹی وی اینکروں, میڈیا مالکان اور پیمرا کو پیش ہونے کے لئے نوٹسسز جاری کردئیے ہیں کہ آئیے اور اس ڈیل کی باثبوت تفصیلات فراہم کریں- تحریک انصاف کے جذباتی کارکنان کی سیاست میں جتنی سمجھ بوجھ ہے اس کے حساب سے توقعات کے عین مطابق اس پراپیگنڈہ میں ڈیل بناتے وقت کسی نے بھی اتنی زحمت نہیں کی کہ وہ اس ڈیل کو کم از کم سمجھ میں آنے والا ہی بنا دیتے اور کم از کم اس کا مضحکہ پن ہی دور کر دیتے- سب سے بڑی مضحکہ خیزی تو یہ ہے کہ میاں نواز شریف سے 14 ارب ڈالرز کی ڈیل میں پہلی قسط 9.2 ملین ڈالرز یعنی 90 لاکھ 20 ہزار ڈالرز کی ادا بھی کر دی گئی ہے اور بقیہ رقم اگلے 3 سال میں اقساط میں ادا کی جائیں گی- چونکہ قرضوں اور جرمانوں کی ادائیگی کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ شروع کی اقساط بڑی ہوتی ہیں اور آخر والی چھوٹی- مگر ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ مساوی بھی اگر ہوں تو اگلے 3 سالوں میں اس حساب سے 1552 قسطیں بنتی ہیں- ایک سال میں 365 دن ہوتے ہیں یعنی 3 سال کے کل دن بنتے ہیں 1095- اس حساب سے شریف فیملی ااگلے 3 سال تک روزانہ تقریبا” ڈیڑھ قسط یعنی تقریبا” 15 ملین ڈالرز جمع کروائے گی تو یہ پیسے پورے ہوں گے- یہ مضحکہ خیزی ابھی ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ نابالغ دانشواران یہ درفنطنی بھی چھوڑ رہے ہیں کہ سعودیہ اور قطر نے باقی رقم کی ضمانت دی ہے- کیا پوری تحریک انصاف میں ایک بھی سمجھدار آدمی نہیں ہے جو انہیں یہ سمجھا سکے کہ سعودیہ اور قطر کے مابین جس طرخ کے شدید سیاسی اختلافات چل رہے ہیں ان کی موجودگی میں یہ یوں اکٹھے ہو کر ایک ایسے تیسرے ملک کے اندرونی معاملہ میں دخل اندازی نہیں کر سکتے- کچھ “عقل مند” یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ 14 ارب ڈالرز کی اس ڈیل کا 20% تو شریف فیملی ادا بھی کر چکی ہے یعنی 2 ارب 80 کروڑ ڈالرز- اگر اتنی بڑی رقم سٹیٹ بنک کو موصول ہو چکی ہو تو اس وقت عمران خاں حکومت کی چھلانگیں 7ویں آسمان کو چھو رہی ہوتیں-

پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کی طرف سے دھرنے میں شرکت کے حوالے  سے پہلے سے ہی تحفظات موجود ہیں اور ان کے بارے تفضیلی ذکر انہی کالموں میں کیا جا چکا ہے- دونوں بڑی جماعتوں نے مولانا فضل الرحمن کے احتجاج کی ہمیشہ حمایت کی تھی اور لانگ مارچ کی حد تک وہ اس میں شرکت کے لئے بھی آمادہ تھیں مگر دونوں جماعتیں کسی بھی وقت دھرنے میں شرکت یا اس کی حمایت میں کبھی بھی رضامند نہیں تھیں- ان کا ہمیشہ سے یہی مؤقف رہا ہے کہ جس طرح تحریک انصاف کا سنہ 2014ء والا دھرنا اور لاک ڈاؤن غلط تھا, بالکل اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا بھی سنہ 2019ء میں دھرنا دینا غلط فیصلہ ہو گا- آزادی مارچ کے حوالے  سے تمام اپوزیشن پارٹیوں کے نمائندگان پر مشتمل رہبر کمیٹی نے اسی لئے حکومت سے مذاکرات کرتے وقت واضح کر دیا تھا کہ آزادی مارچ میں حکومت کسی بھی طرح کی رخنہ اندازی کر کے حالات کو خراب کرنے کی کوشش نہ کرے- اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی نے وفاقی وزیر پرویز خٹک کو واضح طور پر یہ باور کروایا کہ اگرچہ تحریک انصاف نے ڈپلومیٹک ایونیو سے ملحقہ ڈی چوک پر 146 دن قبضہ کر کے ملک اور دارالحکومت کا نظام درہم برہم کر دیا تھا مگر آج کی متحدہ اپوزیشن ایسا کر کے کبھی بھی ملک کی جگ ہنسائی نہیں کرے گی, اسی لئے جب حکومتی وفد نے جلسہ یا دھرنے کے لئے متبادل جگہ کے طور پر کشمیر ہائی وے پر واقع بچت بازار کے پاس واقع پریڈ گراؤنڈ کو تجویز کیا تو اپوزیشن نے اس تجویز کو قبول کر لیا- واضح رہے کہ لانگ مارچ بنام آزادی مارچ اور پریڈ گراؤنڈ میں جلسہ عام تک تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہیں جبکہ جلسہ عام کے بعد دھرنا دینے کے لئے پیپلز پارٹی اور نون لیگ  تعامل ہیں- دونوں جماعتوں کے راہنما کوشش کر رہے ہیں کہ مولانا فضل الرحمن کو آزادی مارچ کا اختتام جلسہ عام کے بعد کرنے پر منوایا جا سکے- اس کا حتمی فیصلہ اسلام آباد تک لانگ مارچ مکمل ہونے تک ملتوی کر دیا گیاہے- بس یہی وہ ڈیل ہے جو اب تک حکومت اور اپوزیشن میں ممکن ہو سکی ہے- اس کے علاوہ اپنے کارکنوں کی ہمت بڑھانے اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لئے جتنی بھی افواہیں پھیلا لیں, ایسی حکومت کو کون روک سکتا ہے جو اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی سوشل میڈیا پر سب سے طاقتور پراپیگنڈہ مشینری بن چکی تھی-

چونکہ تحریک انصاف کے یوتھ والوں نے زمینی حقائق کو تسلیم نہ کرنے کا عہد کیا ہوا ہے اس لئے “ڈیل یا ڈھیل ہوئی یا نہیں” کے بارے میں جاننے کے لئے چند روز مزید انتظار کرنا صحت کے لئے مفید رہے گا- اکنامکس سے وابستہ ماہرین کہتے ہیں کہ تحریک انصافی ڈیل کے مطابق اگر میاں نواز شریف کے 14 ارب ڈالرز اور آصف زارداری کے 10 ارب ڈالر قومی خزانے میں آ گئے تو ڈالر یکمشت 160 روپے سے کم ہو کر 80/82 روپے پر آ سکتا ہے- جس کی وجہ سے ملک کے ایکسپورٹرز کو تو خیر ہارٹ اٹیک ہی آ جائے گا مگر پٹرول 114 روپے سے کم ہو کر صرف 58 روپے فی لٹر ہو جائے  گا- ہماری بیٹھی ہوئی معیشت میں جان آ جائے  گی- کریش ہوتی ہوئی سٹاک مارکیٹ میں دوبارہ تیزی آنا شروع ہو جائے  گی۔ پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بھی بہت بہتر ہو جائے گی- خاص طور پر حکومتی عہدیداروں کے بیانات اور لہجوں سے ایسی مسرت چھلکے گی کہ چھپائے  نہ چُھپے گی۔ ڈالر آجانے پر حکومت کے مزاج میں واضع تبدیلی آئے  گی۔ بیانات میں شائستگی حاوی ہو جائے گی- کوئی بھی وزیر (سائنس اینڈ ٹیکنالوجی) 400 محکمے بند کر کے لوگوں کو بے روزگار کرنے کی باتیں نہیں کرے گا- انڈیا بھی اپنی اوقات میں آ جائے گا, اس کا عقل سے عاری میڈیا جو بات بے بات ہمیں غربت اور مفلسی کے طعنے دیتا ہے, اب کم از کم یہ تو نہیں کہہ سکے گاکہ ہمارے پاس ڈالر زنہیں اور ہم کشمیر کے لئے لڑ ہی نہیں سکتے-

اتنے ڈالرز آنے کے بعد ہو سکتا ہے کہ ہم  آئی ایم ایف کو بھی کھری کھری سنا کر دیس نکالا دے دیں کیونکہ ہم تھوڑے بہت نہیں بلکہ پورے 24 ا رب ڈالرز کے مالک ہوں گے- چونکہ ہماری کریڈٹ ریٹنگ اچھی ہو جائے گی تو آئی ایم ایف کے علاوہ بھی دوسرے کئی قرض دینے والے عالمی ادارے بھی خود یہاں  آکر ہماری منت  سماجت بھی کر سکتے ہیں کہ کم سے کم شرح سود پر ہم ان سے قرض لے لیں- جس سے ہم یہ بھی کر سکیں گے کہ کم سے کم شرح سود پر قرض لے کر اسے غریب ملکوں کو زیادہ شرح سود پر قرض دے کر خالص منافع کمائیں- تھوڑے بہت نہیں بلکہ اتنے زیادہ 24 ارب ڈالر مل جانے کے بعد جہاں معیشت کو پر لگ جائیں گے وہیں نیب کے کیسز کے دیگر ملزمان بھی حوصلہ ہار جائیں گے کہ اگر میاں نواز شریف اور آصف زارداری جیسے تگڑے بندوں نے رقم دے کر جان چھڑوائی ہے تو وہ کس باغ کی مولی ہیں- لہذا وہ بھی اپنی جان چھڑوانے کے لئے دھڑا دھڑ نیب سے ڈالرز دے کر جان چھڑوانے کی ڈیل کریں گے- جس کی وجہ سے اضافی 10/12 ڈالرز بھی ملنے کے چانسز ہوں گے- جب یہ ڈالرز بھی قومی خزانہ میں جمع ہو جائیں گے تو ڈالر پھر ایک دم سے 60 روپے پر آجائے  گا اور پیٹرول بھی سابق وزیر خزانہ اسد عمر کے بےمثال ویژن کے مطابق 43 روپے لیٹر ہو جائے  گا۔ بجلی, گیس, پانی اور فون کے نرخ بھی بہت کم ہو جائیں گے۔ مختصراً  یہ کہ ملک میں ناقابل یقین حد تک خوشحالی آ جائے  گی۔

پاکستان کی اس قدر کامیابی سے انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور انڈین آرمی چیف بپنت راون تو ہارٹ اٹیک سے ہی مر جائیں گے, جس کی وجہ سے بعد میں آنے والے پاکستان کے ہینڈسم وزیر اعظم کے پاؤں پڑ کے معافی بھی مانگیں گے اور مسئلہ کشمیر کو پاکستان کی مرضی اور منشاء کے مطابق حل کروا دیں گے- اتنی کامیابیوں کے بعد پورے خطہ میں تحریک انصاف کا بول بالا ہو گا اور ہر ملک ہمارے وزیر اعظم صاحب اور ان کی بےمثال ٹیم کی کارکردگی اور ذہانت کی مثالیں دیا کرے گا- لیکن یہ ہو گا صرف “سچ” کی برکت سے کیونکہ پی ٹی آئی والے ہمیشہ “سچ” بولتے ہیں تو یہ بھی سچ ہی سمجھیں کہ انہوں نے ڈیل کر کے 14 ارب ڈالر کے عوض میاں نواز شریف کو اور 10 ارب ڈالرز کے عوض آصف زارداری کو ڈھیل دی ہے۔ لہذا اب تمام پاکستانی “خوشحال نئے پاکستان” میں رہنے کی تیاری پکڑ لیں- ذرا کچھ دیر کے لئے آنکھیں بند کر کے تصور کریں کہ ڈالر 60 روپے، پٹرول 43 روپے فی لٹر، بجلی 15 روپے کی بجائے 3/4 روپے یونٹ، روزمرہ اشیائے  صَرف بھی نصف سے کم قیمت پر بس اب چند دنوں کی تو بات ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اور وہ جھوٹے نون لیگ اور پیپلز پارٹی والے جو ہمارے خواب چکنا چور کر رہے ہیں کہ “کوئی ڈیل نہیں ہوئی۔ کسی کو ڈالر نہیں دئیے” کہنے والے ۔کتنے جھوٹے ہیں۔ جب 24 ارب ڈالر ز وصول ہو جائیں گے تو ڈالر 60 روپے اور پیٹرول 43 روپے فی لیٹر کے ساتھ یہ جیالے اور نو ن لیگی کیسے عوام کا سامنا کریں گے؟- کس منہ سے عوام میں جائیں گے؟- ان “غداروں” سے خوشحال “نئے پاکستان” کے باسی سوال تو کریں گے کہ آپ تو کہتے تھے ڈیل نہیں کی پھریہ خوشحالی کیسے ؟– – –

 

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply