1830 کے بعد سے دنیا مسلسل سیاسی, سفارتی, نظریاتی, جغرافیائی, ماحولیاتی, سماجی, معاشرتی اور مذہبی (مسلکی) تغیر و تبدل کے تیز ترین سلسلے سے گزر رہی ہے۔
لگ بھگ 200 سال کا عرصہ گزر چکا تب سے لیکر اب تک لیکن دنیا ہر دن, ہر ہفتے, ہر مہینے, ہر سال اور ہر صدی کسی نہ کسی انہونی اور ہونی پر چونک رہی اور سدباب کررہی ہے ان سے نمٹنے اور بچنے کے لیے لیکن فی الحال سب بے سود ثابت ہورہا ہے۔
حالیہ کچھ عرصے میں گریٹ گیمز اور نیو ورلڈ آرڈر کی آوازیں کچھ زیادہ ہی شدت سے گونج رہی ہیں جس کا صاف مطلب یہی نظر آتا ہے کہ غنیم اپنے سبھی مہرے بساط پر لا چکا ہے اور اب حتمی چالیں چل کر بساط لپیٹنے کے فراق میں ہے۔
یہ دنیا حضرت آدم علیہ اسلام سے لیکر آج کی تاریخ تک حق و باطل کی جنگوں کا میدان بنائی گئی ہے مشیت الہی سے اور بیشک اب وہ دور چل رہا ہے (غالب قیاس) جب بنی آدم حق و باطل کے آخری اور حتمی معرکے لڑنے کی تیاری میں ہے۔
خیر تازہ ہونیاں اور انہونیاں جو خبریں بنیں, ان پر تھوڑا غوروفکر کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ فی الوقت دنیا میں بالخصوص مشرق وسطی و جنوبی ایشیاء میں کیا چل رہا ہے۔
بات آگے بڑھانے سے پہلے اپنا ایک مشاہدہ آپکی نذر کرنا چاہوں گا کہ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء زمینی ہی نہیں آسمانی سیاست و سفارت کا بھی پسندیدہ گڑھ رہا ہے اور اب تک ہے؟
دیکھا جائے تو ساری انسانی تاریخ کا 75% فیصد سے زائد حصہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کی سیاسی, سفارتی, نظریاتی, جغرافیائی, ماحولیاتی, سماجی, معاشرتی اور مذہبی تاریخ پر مبنی ہے جبکہ باقی 25% فیصد حصہ باقی دنیا کی سیاسی, سفارتی, نظریاتی, جغرافیائی, ماحولیاتی, سماجی, معاشرتی اور مذہبی تاریخ پر مبنی ہے۔
تمام انبیاء انہی خطوں میں معبوث ہوئے, قابل ذکر اور اہم تاریخی و جنگی واقعات کا گڑھ بھی یہی خطے ہیں اور تمام مذہبی پیش گوئیوں کے رونما ہونے کے لیے بھی انہی خطوں کا ذکر الہامی و مذہبی کتب میں متواتر ہوا ہے۔
ساری دنیا کی سیاست و سفارت کا زیادہ تر وقت اور وسائل انہی خطوں پر خرچ ہورہا ہے۔
تمام ذرائع ابلاغ کی گہری اور مستقل نظر میں یہی خطے ہیں۔
اور تمام تر جنگیں اور چالیں انہی خطوں میں جاری و ساری ہیں۔
غرض مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء وہ خطے ہیں جو دنیا میں اول دن سے گیم چینجر اور گریٹ گیم کے علاوہ زمینی و آسمانی ورلڈ آرڈرز کے اطلاق و ابلاغ کے خطے رہے ہیں۔
حالیہ امریکی انتخابات کی ہی بات کریں تو ان کی ساری الیکشن کمپنیز میں جن کا ذکر باربار ہوا وہ یہی خطے ہیں اور سابقہ امریکی حکومتوں کا بھی سارا کاروبار سیاست و سفارت انہی خطوں میں چلتا رہا ہے۔
اس بار بھی صرف امریکہ میں ہی نہیں بلکہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں بھی یہ بحث کافی زور و شور سے جاری رہی اور ابتک چل رہی ہے کہ ٹرمپ بہتر تھا یا جو بائیڈن بہتر ہوگا؟
ویسے تو ہمارے لیے یہ بحث اور سوال باعث شرم ہے کہ اللہ نے بطور مسلمان امت یہ حق اور فریضہ ہمیں تفویض کیا تھا کہ ہمارے آنے اور جانے سے دنیا کو فرق پڑے اور غیر مسلم ہماری حکمرانی میں اپنی فکر کریں۔
لیکن چلیں عالمی موجودہ صورتحال میں یہ سوال بہرحال اہمیت کا حامل تو رہے گا کہ ٹرمپ کی طرح کیا جوبائیڈن کی بھی پالیسیوں میں مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کی مسلمان ریاستوں اور عوام کو حذمیت کا سامنا کرنا پڑے گا یا حالات کچھ بہتر ہونے کی امید ہے؟
جہاں تک انتخابات کے غیر حتمی غیر سرکاری نتائج پر خطے کے عوام اور ریاستی زعماء کے تاثرات کی بات کریں تو آپ کو یہ جان کر بہت حیرانی ہوگی کہ امریکہ کا سب سے بڑا سیاسی حلیف سعودیہ عرب انتخابات کے نتائج سے بالکل لاپرواہ اور دور رہا۔
یوری کوہن (Uri Cohen) نے 13 نومبر کو یروشلم پوسٹ میں اپنے ایک بلاگ کا آغاز ان الفاظ کے ساتھ کیا کہ
“جب ہفتے کے آخر میں دنیا بھر سے صدر منتخب ہونے والے جو بائیڈن کے ٹویٹر فیڈ میں مبارکبادیں آئیں ،تب ایک امریکی اتحادی واضح طور پر خاموش ہی رہا۔ سابق نائب صدر کی جانب سے انتخابی ریس کو جیت جانے کے بعد 24 گھنٹے سے زیادہ وقت گزر گیا تھا کہ سعودی عرب کے بادشاہ “شاہ سلمان”، جو دنیا کی سب سے طاقتور مسلم شخصیات میں سے ایک ہیں، نے ایک مختصر سا بیان جاری کیا جس میں انہوں نے جوبائیڈن کو مبارک باد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا “best wishes of success to Mr. Biden and to the friendly people of the United States of America.””
اگر ہم ٹرمپ کے چار سالہ دور حکومت اور مشرق وسطی کی پالیسیوں اور بالخصوص امریکہ سعودی تعلقات کا بغور مشاہدہ کریں تو ہمیں کچھ چیزیں بہت حیران کریں گی۔
ایک تو ہمیں ٹرمپ کا اسرائیل کی طرف جھکاؤ واضح نظر آئے گا اور بیشک ٹرمپ کا دورِ حکومت اسرائیل نواز پالیسیوں کے اطلاق کا سنہری دور تھا لیکن دوسری طرف ہم امریکہ اور سعودیہ کے مابین ماسوائے جمال خشوگی والی بدمزگی کے باقی معاملات پر نظر دوڑائیں تو کافی گرم جوشی اور بھروسہ نظر آئے گا جو ان گزرے چار سالوں میں دونوں ممالک اور ان کےسربراہان کے مابین پوری شدت سے تھا۔
احباب کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جب او آئی سی کی ریاض کانفرنس بلائی گئی تھی, تبھی ٹرمپ کو اس کے صدر بننے کے بعد پہلا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت سعودی فرمانروا نے دی جو ٹرمپ نے ناصرف بخوشی قبول کی بلکہ پورے زور و شور سے شرکت بھی کی جس میں سعودیہ اور امریکہ ایک دوسرے کے اور قریب آئے اور تبھی اسرائیلی وزیرآعظم نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی غرض سے یہ بیان جاری کیا تھا جب ٹرمپ سعودیہ سے سیدھا اسرائیل براستہ سعودی ہوائی راستے سے گیا, کہ
“مجھے امید ہے کہ ایک دن اسرائیلی وزیراعظم تل ابیب سے ریاض پرواز کر کے جا سکے گا۔ ”
ایسا بیان سعودی ایما پر نہیں بلکہ نیتن یاہو کی ذاتی منشاء پر جاری ہوا تھا لیکن پروپیگینڈا مشینری نے اس بیان سے دو جمع دو کرکے چار بنانے کی کوشش کی اور پورے چار سال اور ابتک یہ دہائی دی کہ سعودیہ اسرائیل کو جلد یا بدیر تسلیم کرلے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودیہ پاکستان کی طرح اس پر سخت موقف رکھتا ہے اور اس پر قائم ہے۔
خیر یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ جو گرم حوشی ٹرمپ کے لیے خطے میں دکھائی گئی بالخوص سعودیہ کی جانب سے وہ اس دفعہ جو بائیڈن کے لیے نہیں دکھائی گئی اور یہی وہ بات ہے جو عالمی سیاسی ماہرین کو اچنبھے میں ڈال رہا ہے کہ اگر سعودیہ خاموش ہے تو اس کا واضح مطلب یہی نظر آتا ہے کہ یا تو سعودیہ جوبائیڈن کی جیت پر خوش نہیں یا انہیں جوبائیڈن کی ایران نواز پالیسیوں کی کوئی بھنک مل گئی ہے؟
ویسے تو امریکہ اور سعودیہ کے تعلقات میں اہم کردار تو پینٹا گان اور سی آئی اے ہی ادا کرتی ہے لہذا ایسے میں سعودیہ کی خاموشی غیر ضروری نظر آتی ہے پر اس کے باوجود کہ جوبائیڈن امریکی اسٹیبلشمنٹ کا الاعلان مہرہ ہے تب بھی سعودیہ خاموش ہے یہ بات مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کی سیاست و سفارت کے لیے کافی غیر معمولی بات ہے۔
ٹرمپ کی مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے لیے پالیسیوں میں واضح جھکاؤ اسرائیل اور بھارت کی جانب تھا جبکہ بہترین تعلقات کی مد میں مسلمان ریاستوں میں سے عرب ریاستیں بالخصوص سعودیہ, قطر, عرب امارات اور عمان سر فہرست تھے جبکہ افغانستان سے نکلنے کی وجہ سے پاکستان سے بھی پریمیم تعلقات تھے لیکن جانبداری بہرحال اس کی مودی سرکار کی طرف ہی رہی ہمیشہ خطے میں غیر معمولی واقعات کے موقع پر۔
لیکن ٹرمپ کے دور حکومت میں جو قابل ذکر تغیر و تبدل آیا وہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں بالخصوص طاقتور مسلمان ممالک کے حق میں قطعی اچھا ثابت نہیں ہوا حالنکہ پہلے بھی کبھی کسی امریکی صدر کی حکومت میں مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے طاقتور مسلمان ممالک کے حق میں کچھ اچھا ثابت نہیں ہوا لیکن ٹرمپ نے جو بھی مسلم کش پالیسیاں مطلق اپنائیں یا اعلانات و استحصال کیے وہ الاعلان کیے (جس نے کافی برے نقوش چھوڑے) تاکہ مسلمانوں کی ہمت اچھی طرح ٹوٹے جیسے کہ
1-مسئلہ فلسطین میں اسرائیل کی الاعلان حمایت اور متواتر و باہم مدد۔
2-مسئلہ کشمیر میں بھارت کی الاعلان حمایت اور متواتر و باہم مدد۔
3-وار آن ٹیرر میں پاکستانی خدمات کو فراموش کرنا اور کولیٹرل ڈیمیج فنڈز کی گاہے بگاہے روک تھام اور بارہا عدم اعتماد کا اظہار۔
4-مسلمان ممالک بالخصوص پاکستان کے سر پر فیٹف کی تلوار لٹکا کر اپنا اسیر بنانا۔
5-اسلامو فوبیا کو فروغ دینا اور امریکہ میں مسلمانوں بالخصوص مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے مسلمانوں کے لیے دروازے بند کرنا اور زمین تنگ کرنا۔
6-یروشلم/القدس میں امریکی سفارت خانے کی زبردستی تعمیر اور فلسطینی احتجاج کو نظر انداز کرنا۔
7-کشمیر میں غیر انسانی رویوں اور تاریخ انسانی کے لمبے ترین کرفیو پر مجرمانہ خاموشی۔
8-بھارتی مسلمان کش پالیسیوں پر مجرمانہ خاموشی۔
8-چائنہ پاکستان اکانومک کاریڈور میں رخنے ڈالنے کے لیے پروپیگنڈہ مشینری متحرک کرنے علاوعہ منفی سفارت کاری کے ذریعے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے دیگر مسلمان ممالک اور پاکستان و چائنہ کے مابین سرد جنگ کو ہوا دینا۔
9-پاک سعودی تعلقات میں کڑواہٹ پیدا کرنے والی سفارت کاری اور بعض جگہوں پر سعودیہ کو براہ راست ڈکٹیشن۔
اور
10-نئے سفارتی و تجارتی بلاک (چائنہ, روس, پاکستان, ترکی, ملائشیاء اور ایران) کی تشکیل میں بارہا ٹانگ اڑا کر سفارتی غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مذموم کوشش۔
جبکہ اب جو بائیڈن کی متوقع پالیسیوں اور افعال کا مشاہدہ کریں تو وہ کافی کچھ ٹرمپ کے متضاد کہتا ہوا نظر آیا اور آتا ہے لیکن حقیقت ہم سب بہتر طریقے سے جانتے ہیں کہ طاغوت اب امت واحدہ کے کنسیپٹ پر امت مسلمہ سے بہتر انداز میں کاربند ہے لہذا ان سے خیر کی توقع کرنا ایسے ہی ہے جیسے ہم سانڈ سے دودھ کی امید کرلیں۔
خیر ملاحظہ کریں کہ سابق نائب صدر اور مبینہ و متوقع صدر جوبائیڈن کی مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے لیے پالیسیاں اور خیالات کیا تھے اور ہیں۔
1-سابق نائب صدر نے ایران پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پابندیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا اور 3 نومبر کو ہونے والی آذربائیجان – آرمینیا جنگ میں ترکی کے کردار پر بھی اظہار خیال کیا۔ (یہاں میرا ذاتی خیال یہی ہے کہ ایران امریکہ کی بی ٹیم ہے مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں, جو بیک وقت پاکستان, ترکی اور سعودیہ کے خلاف اور امریکی مفادات کے حق میں مصروف عمل رہتا ہے)۔
2-بائیڈن نے ایران کے خلاف مہم کے اختتام کی طرف کثرت سے حوالہ دیا ، اور اس بات کا اشارہ کیا کہ وہ اسلامی جمہوریہ کے ساتھ نرم رویہ اپنائے گا۔ (بیشک طاغوت کے لیے ایران ایک بہترین مخفی حلیف ہے)۔
3-بائیڈن نے (مشرق وسطی و جنوبی ایشیاء میں) حالیہ معمول کے معاہدوں کی حمایت کا بھی اظہار کیا جیسے کہ اسرائیل نے متحدہ عرب امارات ، بحرین اور سوڈان کے ساتھ معاہدے کیے ہیں۔
ایک انتخابی مہم کے دوران ٹاؤن ہال میں دوران خطاب ، بائیڈن نے معاہدوں کی دلالی میں ٹرمپ کے کردار کی تعریف کی ، اور اس بات کا اشارہ کیا کہ وہ اسرائیل کو عرب ریاستوں سے زیادہ شناخت اور حمایت حاصل کرنے میں اور اسرائیل کی مدد کرنے میں امریکی پالیسی جاری رکھے گا۔ (جیسا کہ ہمیں امید تھی اور ہے کہ اسرائیل مغرب کا بغل بچہ ہے جس پر ان کی پالیسی خواہ دائیں بازو کی حکومت کی طرف سے آئے یا بائیں بازو کی حکومت کی طرف سے آئے, رتی برابر بھی مختلف نہیں ہوگی)۔
4-اکتوبر میں ایک انتخابی مہم کے دوران بیان میں ،جمہوریہ امریکہ کے صدر کے لیے نامزد امیدوار جوبائیڈن نے آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین ناگورنو-کاراباخ تنازعہ کا بھی کثرت سے حوالہ دیا (جب 3 نومبر کو ہونے والے انتخابات کی دوڑ قریب آگئی تھی)۔
بائیڈن نے آذربائیجان کے لئے ترکی کی حمایت پر تنقید کی تھی اور ایران سے بھی مطالبہ کیا تھا کہ وہ علاقائی تنازعات سے دور رہے, بائیڈن نے ستمبر کی جنگ میں ترکی کے کردار پر بھی تنقید کی تھی۔
عام طور پر ، بائیڈن کی ماضی کی حیثیت ترکی ، اسرائیل اور سعودی عرب کے لئے قدرے ٹھنڈا نقطہ نظر اور ٹرمپ کی پالیسیوں سے کہیں زیادہ ایران کے ساتھ گرم جوشی کا اشارہ کرتی ہے لیکن ابھی اونٹ نے کس کروٹ بیٹھنا ہے اس کا سبھی کو انتظار ہے۔ (جو کہ اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ صلیبی جنگوں اور اسلامو فوبیا کی لہر سے کوئی امریکی صدر لاشعوری طور پر قطعی آزاد نہیں ہوتا)۔
5-جہاں تک بات ہے مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر کی موجودہ اور سابقہ صورتحال کا تو قیاس یہی ہے کہ متوقع صدر جوبائیڈن کی پالیسی غیر متوقع طور پر متوازن ہوگی مطلب وہ نہ تو سانپ مارنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور نہ ہی لاٹھی توڑنے کا ان کا کوئی ارادہ ہے۔
جوبائیڈن بارہا انتخابی مہم کے دوران ڈھکے چھپے انداز میں یہ باور کروا چکے ہیں کہ وہ ان دیرینہ مسائل کو ان کی پرانی حیثیت کے ساتھ حل کی طرف لیجانے کے حامی اور متمنی ہے مطلب جہاں طرفین طاقت اور دھونس کے استعمال کے بجائے متفقہ حل پر راضی ہوں۔
6-شام اور دیگر علاقائی تنازعوں پر جوبائیڈن اپنے پیش رو ٹرمپ کی پالیسیوں سے قطعی متفق نہیں تھے بلکہ اوبامہ دور میں وہ خود بطور نائب صدر مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے علاقائی تنازعوں میں اپنا حصہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کی حفاظت کے لیے ڈالتے رہے ہیں اس لیے پوری امید ہے کہ چار سال سے رکے ہوئے امریکی اسلحہ ساز کارخانوں کی چاندی ہونے والی ہے۔
7-جوبائیڈن کا اولین سو دن میں مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے لیے سابقہ پالیسیوں کو ترجیحی بنیادوں پر ریویو کرنے کا ارادہ ہے۔ ان کی ساکھ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں (سابقہ حیثیت میں) کافی مضبوط اور بہترین ہے جس کا وہ فائدہ اٹھانا چاہیں گے۔
8-ماحولیاتی مسائل کے حل اور موجودہ وبائی دور سے نکلنے کے لیے جوبائیڈن کافی پرجوش اور متحرک ہیں کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ جو ان مسائل کا حقیقی اور پائیدار حل دے پائے گا وہی سپرمیسی کی مسند سنبھال پائے گا۔
تو ہم نے مختصراً آپ کو طاغوت کی سابقہ, موجودہ اور متوقع پالیسیوں کی بابت آگاہ کردیا ہے کہ وہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کو کس نگاہ سے دیکھتے اور کیا چاہتے ہیں۔
دراصل یہ سب کھڑاک گریٹ گیم اور نیو ورلڈ آرڈ کے حتمی اور مکمل اطلاق کے لیے ہی کھڑے کیے جاتے ہیں تاکہ طاغوت اپنی سجائی بساط کے مہروں کو بہترین چال کے ساتھ چلے اور امت مسلمہ کی مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء میں بساط لپیٹ کر سپرمیسی کا دعوی ٰ کرسکے۔
مشرق وسطی و جنوبی ایشیاء میں جاری گریٹ گیم کا جائزہ ہمیں بہت اچھے سے بتا اور سمجھا رہا ہے کہ ہم سب تو اپنے اپنے مفادات کی جنگ میں الجھے ہیں مگر طاغوت ہم سے بے خبر اور غافل نہیں بلکہ وہ پینترے بدل بدل کر ہم پر چومکھی دیدہ و نادیدہ جنگ مسلط کرنے میں مصروف ہے۔
بش ہو, اوبامہ ہو, ٹرمپ ہو یا جوبائیڈن ہو۔ ۔ ۔
جو کوئی بھی امریکہ کا صدر ہو یا ہوگا وہ انہی کے مفادات کا امین اور محافظ ہوگا لہذا ہمارا ان سے کوئی بھی اچھی بری امید لگانا نہایت بیوقوفی بھرا فعل ہوگا کیونکہ وہ ہمارے نہیں امریکی عوام کے صدر منتخب ہوتے ہیں اور ان کی تمام پالیسیاں خواہ وہ مشرق وسطی اور جنوبی ایشیاء کے متعلق ہوں یا یورپ و افریقہ کے متعلق, سب میں امریکی مفادات کا تحفظ اور تکمیل اولین ترجیح ہوتی ہے۔ ۔ ۔
الغرض وہ حقیقتاً امت واحدہ اور سب سے پہلے امریکہ کے اصول پر کاربند ہیں حالتکہ ایسا ہمیں کرنا چاہیے تھا۔
اللہ ہمیں سمجھنے اور حقیقی امت مسلمہ بننے کی توفیق دے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں