خصوصی بچیوں کے والدین کے نام/ثاقب لقمان قریشی

“ہر چیز سے دلچسپی ختم ہوتی جارہی ہے
یہاں تک کہ  زندگی سے بھی
فون ہاتھ میں پکڑے گھنٹوں سوچتی رہتی ہوں
کہ کیا کروں؟ ؟
جیسے زندگی کہیں گم ہوگئی ہے
شاید تھک گئی ہوں
زندگی سے مکمل کنارے کو جی چاہتا ہے
زندگی بوجھ سی لگنے لگی ہے

ہم اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسی رب العزت کے بندوں کو ذلیل کرتے رہتے ہیں ۔ ہمارے لیے کسی کو اندر ہی اندر مارنا آسان ہوگیا ہے ۔غلطی ان کی بھی نہیں ہوتی ہم نے ہی ان کو موقع دیا ہوتا ہے کہ آؤ یہاں آپ ہمیں بے بس بے سہارا کر کے آزمائشوں میں ڈال کر رسوا کرو۔ کوئی کسی سے محبت تب کرتا ہے جب اس کو مان ہو کہ یہ انسان کبھی آنکھوں میں نمی نہیں آنے دے گا۔ کبھی کسی کے سامنے رسوا نہیں کرے گا پھر ایک وقت آتا ہے جب لوگ آپ کو بے توقیر کرنے لگتے ہی۔

“کوئی خاص ہو جس سے ہم معذور افراد بہت سی باتیں کر سکیں، لمبا وقت گزار سکیں۔ جس کے ساتھ ہونے سے ایسا لگے کہ ہم محفوظ ہیں۔ جس کے بغیر سب کچھ ادھورا لگے۔ ایسا لگتا ہے جیسے ایسے لوگ دنیا سے ختم ہوگئے ہیں۔ کیونکہ لوگ اب زیادہ وقت اپنے موبائل کے ساتھ گزارنا پسند کرتے ہیں۔ انھیں ساتھ بیٹھے انسان بھی نظر نہیں آتے۔ ایسا لگتا ہے جیسے احساسات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ دین سے دوری کی وجہ سے ہم فضول کاموں کو زیادہ وقت دینے لگے ہیں۔”

ایک معذور لڑکی کی وال سے یہ دونوں تحریریں کاپی کی ہیں۔ یہ لڑکی کون ہے؟ اس کا نام کیا ہے؟ اس نے کتنی تعلیم حاصل کی ہے؟ اس کی معذوری کس نوعیت کی ہے؟ یہ کہاں رہتی ہے؟ میں کچھ نہیں جانتا۔
یہ لڑکی روزانہ اسی نوعیت کی پوسٹس کرتی ہے۔ میں نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی۔ یہ میری بات کا جواب دینے کے بعد پچھلے تمام میسجز کو ڈیلیٹ کر دیتی ہے۔ بات چیت کے دوران میں نے اسے کچھ کرنے کا مشورہ دیا تو یہ کہتی ہے کہ میں بہت کچھ کرسکتی ہوں لیکن مجھے کسی کی سپورٹ نہیں۔ میں نے اسے کچھ معذور لڑکیوں کی کہانیاں بھیجیں سب کو پڑھنے کے بعد اس نے جواب دیا کہ ان لڑکیوں کو والدین یا بھائیوں کی طرف سے سپورٹ ملتی رہی ہے۔ جبکہ مجھے کسی کی سپورٹ نہیں۔

معذور بچی کی پیدائش پر اسے والدین پر خدا کا عذاب کہا جاتا ہے۔ بچی بڑی ہوتی ہے تو اکثر والدین اسے سکول میں نہیں ڈالتے۔ کہتے ہیں اس نے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ جو والدین بچی کو پڑھانا چاہتے ہیں انھیں گھر کے نزدیک سکول نہیں ملتا۔ پرائیویٹ سکول والے ایسے بچوں کو داخلہ دینے سے صاف انکار کر دیتے ہیں۔ داخلہ مل بھی جائے تو ٹرانسپورٹ اور رسائی کے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں۔ معذور لڑکیوں سے دوران انٹریوز میں سوال کرتا ہوں کہ کیا آپ نے کبھی سکول، کالج اور یورنیورسٹی کا باتھ روم استعمال کیا تو سب کا جواب نفی میں ہوتا ہے۔ ان تمام مشکلات کے باوجود جو لڑکیاں پڑھ جاتی ہیں۔ وہ نوکری تلاش کرنے نکلتی ہیں تو انٹرویو میں پہلا سوال ہوتا ہے کہ آپ دفتر کیسے آیا کریں گیں۔ نوکری کے حصول میں کچھ لڑکیوں کے ساتھ ایسا بھی ہوا کہ انکی ویل چیئر دیکھ کر گیٹ ہی نہیں کھولا گیا اور انھیں وہیں سے جواب دے دیا گیا۔ معذور لڑکیاں جب شادی کی عمر کو پہنچتی ہیں تو والدین سوچتے ہیں کہ انھوں نے شادی کر کے کیا کرنا ہے۔
میں کچھ لوئر مڈل گھرانوں کی معذور بچیوں کا ذکر کرنا چاہونگا جنکے والدین کی علم دوستی کی وجہ سے بچیاں اپنے پیروں پر کھڑی ہیں۔

سب سے پہلے اپنی بہت اچھی دوست فوزیہ لونی کا ذکر کرنا چاہونگا۔ جن کا تعلق سبی سے ہے۔ والد صاحب محکمہ لایوسٹاک سے ریٹائرڈ ہیں۔ فوزیہ نے تین ایم-اے اور تعلیم میں ایم-فل کیا  ہے ۔ چند ماہ قبل فوزیہ سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔

کامونکی کی صدیقہ معراج بچپن میں پڑھائی کے ساتھ قالین بنتی تھیں۔ سلائی کڑھائی کے ساتھ صدیقہ نے لاہبریری سائنسس میں ایم-اے کیا۔ صدیقہ نے اپنی چھوٹی چھوٹی بچتوں کے ساتھ کامونکی شہر اور گاؤں میں دو گھر بنائے۔

صدیقہ کا انٹرویو لینے کے بعد میں نے کہا کے آپ شادی کیوں نہیں کرتیں تو انھوں نے کہا کہ آپ میری امی کو سمجھائیں۔ پھر ہم نے صدیقہ کی والدہ کو سمجھانے کی بھر پورکوشش کی۔ شکر ہے وہ سمجھ گئیں۔سال قبل صدیقہ کی شادی ہوئی۔ اسی دوران انھیں گورنمنٹ کالج میں سترھویں سکیل میں جاب بھی مل گئی۔ صدیقہ کے شوہر معذور فوجی ہیں۔
ہماری دوست تسنیم کا تعلق گلگت سے ہے۔ متعدد ایوارڈز جیت چکی ہیں۔ تسنیم نے انگریزی میں ایم-فل کیا ہے اور انگریزی زبان کے متعدد کورسز کر چکی ہیں۔

تسنیم نے معذوری کی وجہ سے سکول اور کالج کی شکل نہیں دیکھی۔ گھر کے دروازے پر کھڑی بچوں کو سکول جاتا دیکھتی رہتی تھیں۔ ایم-اے کے دوران پہلی بار یونیورسٹی گئیں پھر نہیں رکیں۔
تسنیم دارالہنر کے نام سے گلگت کا سب سے مشہور ادارہ چلا رہی ہیں۔ تسنیم کی بھی چند ماہ قبل شادی ہوئی ہے۔ تسنیم کے شوہر بھی معذوری کا شکار ہیں۔ قیمتی پتھروں کا کاروبار کرتے ہیں۔

دبیرہ ملک عمر کوٹ سندھ سے تعلق رکھتی ہیں۔ مسکولر ڈسٹرافی کا شکار ہیں۔ چھوٹے بھائی بہنوں کے بہترین مستقبل کیلئے سندھ چھوڑ کر اسلام آباد کے نواحی علاقے میں رہائش اختیار کی۔ سندھ سے ایف-ایس-سی کیا۔ پندرہ سال ٹیوشن پڑھا کر گھر کا خرچ چلایا۔ اسلام آباد میں واقع پراپرٹی کی کمپنی ” نی اوم مارکیٹنگ” میں بطور انویسٹمنٹ کنسلٹنٹ کام کر رہی ہیں۔

زینیب نور کا تعلق ایبٹ آباد سے ہے۔ زینب کے والد پاور کمپنی سے فورمین ریٹائرڈ ہیں۔ زینب نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا۔ اردو لٹریچر میں ایم اے کیا۔ویل چیئر ریس کے چھ بڑے ٹورنامنٹ اپنے نام کیئے۔ ایبٹ آباد میں خصوصی لڑکیوں کی کرکٹ ٹیم بنائی جو تین بڑے ٹورنامنٹ اپنے نام کر چکی ہے۔ زینب کی زبردست کارکردگی کو دیکھتے ہوئے (3 دسمبر 2020) خصوصی افراد کے عالمی دن کے موقع پر انھیں خدیجۃ الکبرٰی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اسکے علاوہ زینب متعدد چھوٹے بڑے ایوارڈز اپنے نام کرچکی ہیں۔

میرے پاس ملک بھر سے اس قسم کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔ مثالیں دینے کا مقصد یہ ہے کہ معذور لڑکیوں کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے لمبے چوڑے مال و دولت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ تھوڑی سی سپورٹ اور رہنمائی مل جائے تو یہ بڑے بڑے کام کر سکتیں ہیں۔

معذور بچیوں کے والدین جب تک حیات ہوتے ہیں اس وقت تک تو ان بچیوں کو پیار اور توجہ ملتی رہتی ہے۔ والدین کی وفات کے بعد یہ بچیاں رل جاتی ہیں۔ شادی شدہ بھائی بہنوں کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ معذور بہن کو دے سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

معذور بچیوں کے والدین سے ہماری گزارش ہے کہ ان بچیوں میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں۔ آپ کے تھوڑے اعتماد اور توجہ سے یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوسکتی ہیں۔ اپنی زندگی میں انھیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کریں۔ معذور لڑکیاں بھی عام لڑکیوں جیسے احساسات اور جذبات رکھتی ہیں۔ انکے رشتے کی بھی اتنی کوشش کریں جتنی دوسری بیٹیوں کے لیئے کرتے ہیں۔یہ بات یاد رکھیں کہ آپ کے بعد ان بچیوں کے سر پر ہاتھ رکھنے وال کوئی نہیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply