سری توئے/انجینئر ظفر اقبال وٹو(1)

ہمارا قافلہ ژوب سے وانا جانے والی سڑک پر رواں دواں تھا جب سامنے سے آنے والی دو گاڑیوں نے ہمیں کراس کرتے ہی زور سے بریک لگائے اور پھر موڑ کے گاڑیاں ہمارے پیچھے لگا دیں۔ میرے ڈرائیور نے میری طرف تشویش سے دیکھا اور بولا کہ سر وہ نہ ہمارا پیچھا کر رہے ہیں۔ میں بولا اب جو کرنا ہے شیر نے ہی کرنا ہے تم نارمل طریقے سے گاڑی چلاؤ۔ اسی دوران ان گاڑیوں نے ہمیں تیزی سے اوور ٹیک کیا اور ہم سے آگے نکل کر گاڑیاں سڑک پر روک لیں اور ہمیں بھی رُکنے کا اشارہ کیا۔ ہمیں روکنے والی گاڑیوں میں سے چند لوگ باہر نکل کر کھڑے ہو گئے ان کے ہاتھ میں اسلحہ واضح طور پر نظر آ رہا تھا۔

ہماری گاڑیاں بھی رک چکی تھیں اور ہمارے ساتھ آنے والے محکمہ آبپاشی کے اہلکار نیچے اتر گئے سامنے والی گاڑیوں سے بھی ایک دراز قد مضبوط جسم کا مالک سفید ریش شخص باہر نکلا اور زور زور سے اہلکاروں سے پشتو میں بات کرنے لگا۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ بہت غصے میں ہے۔ اہلکار اسے سمجھانے بجھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ جب حضرت صاحب کا غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہوا تو وہ واپس گاڑی اپنی گاڑی میں بیٹھ گئے اور اہلکار ہمارے قافلے میں شامل گاڑیوں میں آ کر بیٹھ گئے۔ اب ہمارے قافلے کو حضرت صاحب کی گاڑی لیڈ کرنے لگی اور ہم سب کی گاڑیاں ان کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں۔

تھوڑے فاصلے پر جا کر ایک بہت بڑا پہاڑی نالہ آیا جس پر سڑک کا پل ٹوٹا ہوا تھا اور کچے سے گاڑیاں گزر رہی تھیں۔ پل کے دوسری طرف چھوٹی سی پہاڑی چوٹی پر ایف سی کی چوکی نظر آ رہی تھی۔ تاہم حضرت صاحب نے نالے سے پہلے ہی بائیں طرف ایک نہایت مخدوش راستے پر پہاڑی سلسلے کی طرف گاڑی موڑ دی اور قافلہ بھی مڑ گیا۔ اب ہم ایک ایسی وادی میں سفر کر رہے تھے جس کے دونوں طرف پہاڑی سلسلے تھے اور درمیاں میں پہاڑی نالہ تھا جس کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ ہم رواں دواں تھے۔

نالے میں بہت تھوڑا پانی چل رہا تھا۔ نالے کے دونوں طرف نالے اور پہاڑی سلسلوں کے درمیان ایک سے ڈیڑھ کلومیٹر چوڑی دامنی پٹی چل رہی تھی جس پر جنگلی پودوں اور گھاس پھوس کے جنگل نظر آ رہے تھے۔ تاہم درمیان میں پتھروں بھری بنجر زمین بھی نظر آ جاتی تھی۔ اس سارے علاقے میں انسانی آبادی یا انسانی توڑ پھوڑ کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایسے لگتا تھا کہ شاہد ہم دنیا کے پہلے انسان ہیں جو اس علاقے کو خراب کرنے کے لئے وارد ہوئے ہیں۔

علاقے میں جنگلی پرندوں کی بہتات تھی اور جیسے جیسے ہم آگے بڑھ رہے تھے وادی کے دائیں اور بائیں طرف چلنے والے پہاڑی سلسلے قریب ہوتے جا رہے تھے اور وادی تنگ ہوتی دکھائی دے رہی تھی اور کافی آگے جا کر دونوں پہاڑی سلسلے اس طرح ایک دوسرے میں مدغم ہو کر ایک تنگ درہ بنا رہے تھے۔ گاڑیاں پہاڑی نالے کے دائیں کنارے کے ساتھ ساتھ چار پانچ کلومیٹر چلنے کے بعد نالے پر ایک شکستہ حال سا پُل نظر آیا جس کا ایک پاٹ ٹوٹا ہوا تھا۔ یہاں سے حضرت صاحب کی گاڑی نالے کے اندر اتر گئی۔

نالے میں تھوڑا تھوڑا پانی چل رہا تھا جس کو کراس کرکے گاڑی نالے کے بائیں کنارے پر چڑھ گئی اور سنک پیروی میں باقی گاڑیاں بھی نالا کراس کر گئیں جس کے بعد ٹوٹی پھوٹی سڑک بھی ختم ہو چکی تھی اور گاڑیاں کچے میں آگے بڑھ رہی تھیں۔ دور سے ایک چھوٹی سی آبادی کے آثار نظر آنا شروع ہوگئے تھے یہ چند کچے پکے گھر تھے جن کے درمیان ایک مزار کی بہت خوبصورت عمارت کا گُنبد دور سے ہی نظر آرہا تھا۔ گاڑیاں مزار کے ساتھ جا کر رک گئیں اور لوگ نیچے اترنے لگے۔ ہمیں بھی نیچے اترنے کا کہا گیا۔

اسی اثناء میں گاؤں کے کچھ لوگ بھی اکٹھے ہو چکے تھے۔ مزار کے ساتھ ہی ایک طرف گورنمنٹ سکول کی عمارت تھی جو کہ استعمال نہ ہونے کی وجہ سے بند پڑی تھی۔ اتنے دور دراز علاقے میں سکول کی عمارت دیکھ کر جو خوشی ہوئی تھی وہ کافور ہو چکی تھی لیکن ساتھ یہ بھی خیال آ رہا تھا کہ یہ سرکاری عمارت ڈیم کی تعمیر کے دوران بطور کیمپ استعمال ہو سکے گی۔ ہم اب تک کی صورت حال سے بہت کنفیوز ہو چکے تھے اور جلد از جلد صورت حال کو جان لینا چاہتے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply