خاموشی کی چیخیں ۔۔۔(قسط1)ریحانہ رانا

میں ریحانہ ہوں,منٹوکی تصوراتی سکینہ یا سوگندھی نہیں مگر آپ مجھے بخوشی سکینہ سوگندھی سمجھ سکتے تھے اگر میں خود کو اس معاشرے کے دھارے پہ چھوڑ دیتی۔۔ میں نے منٹو کو نہیں پڑھا، راحت کی پوسٹ کی چند لائنیں مجھ جیسی زمانے کی ٹھوکریں کھانے والی عورت کو سمجھانے کے لیے کافی ہیں,میں نے اپنا گھر ،اپنے والدین، چھوٹے بہن بھائیوں کواس وقت سنبھالا جب لڑکیاں گڑیا کھیلتی ہیں,میرا تعلق اس خاندان سے ہے جہاں لڑکیوں کو تعلیم نہیں دلوائی جاتی، مگر میرے باپ نے نا  صرف مجھے تعلیم دلوائی ،مجھے ہر طرح کی آزادی دی ،میرے پاؤں میں یہ زنجیر ڈال کر کہ “بیٹا میری پگڑی تمہارے سر پہ ہے چاہو تو میرا فخر بن جاؤ ،چاہے میری پگ پاؤں میں رول دو” ۔۔سو جب گھر سے نکلتی تھی اپنا دل گھررکھ جاتی، میں نے شاعری کی، اخبار میں لکھا، اپنے نام  پر کوئی قلمی نام نہ  سجایا، میں اپنے باپ کی لاڈلی تھی، اکلوتی نہ تھی سات بہن بھائی تھے مگر بابا کہتے تھے میرا دل اپنی اس بیٹی میں دھڑکتا ہے، بابا جان میرے بیسٹ فرینڈ تھے، میرے بابا جان سات بھائی تھے ہی م سو کے قریب کزن مگر میں ان میں گھل مل نہ سکی، میری سوچ الگ تھی ،بابا کا خاندان میری تعلیم کے خلاف تھا ،انھوں نے ہر طرح کی رکاوٹیں ڈالیں،بابا جان ہر جگہ میرے سپوٹر تھے انھوں نے ایک جماعت نہ پڑھی تھی مگر دنیا جہان کا علم تھا ان کے پاس۔

میری دوستیں کہتی تھیں کہ ہم تم سے صرف اس لیے  حسد محسوس کرت ہیں کہ تمہارے پاس ایسا باپ ہے، کوٹ مٹھن میٹرک کے بعد میں نے پڑھا بھی ،پڑھایا بھی۔۔ وہاں ایک سر یونس ہیں ایک دن انھوں نے کہا کہ ریحانہ کے پاس آؤٹ آف کورس سوالات کے جوابات بھی ہوتے ہیں، تب میری ایک دوست نے کہا کہ سر اس کے ابو اکیڈمی ہیں۔۔

میں بہت امیر تھی میرے پاس ایسا باپ تھا,ایسا باپ جس کو مجھ پہ اندھا اعتماد تھا۔ ایک بار کسی لڑکے نے مجھے لیٹر لکھ دیا، میں نے باباجان کے ہاتھ میں لاکر دے دیااور کہا یہ لڑکا میرے سر پہ ہاتھ رکھ کے بہن کہے ،دنیا کا جتنا ماڈرن باپ ہوتا ،وہ ایسا نہ کرتا جو میرے باپ نے کیا۔۔۔
کوئی اور ہوتا تو کہتا سکول چھوڑ دو ،گھر بیٹھ جاؤ، پر میرے باپ نے صرف میرے مان کی خاطر اپنی بدنامی کی بھی پرواہ نہ کی، ایک لیٹر پر ایف آئی آر درج کروا کے لڑکے کو اٹھوادیا ،وہ چار دن حوالات میں رہا،اس کا سارا خاندان میرے قدموں میں گر گیا، اس نے میرے سر پہ ہاتھ رکھ کر کلمہ پڑھ کر کہا آج سے تم میری بہن ہو۔۔۔

بابا جان میری شاعری سنتے تھے سراہتے تھے۔
باپ مر گیا تو بہن بھائیوں اور بیوہ ماں کی بھی  ماں   بن گئی   ، باپ بھی۔۔۔ یہ بات نہیں کہ بڑے بھائی نہ تھے مگر ان کی بیویوں نے جو دین پڑھا تھا اس میں جب لڑکے کی شادی ہو جائے تو والدین کی خدمت حرام ہو جاتی ہے،چھوٹے بہن بھائی اچھوت بن جاتے ہیں۔
باپ نے مرتے وقت سوچا چلو زمانے کے گند سے بیٹی کو بچا کر کسی محفوظ ہاتھوں میں دے جائیں ۔۔
آج کے زمانے میں اچھا رشتہ ملنا محال ہے، مگر حیرت انگیز طور پر میرے لیے رشتے اس طرح برسنے لگے جیسے کسی کو میرے والد سے  بادشاہی ملنے والی ہو,کیا غیر کیااپنے، دوستیں بھائیوں کے رشتے لے آئیں ،لوگ اتنامذاق کرتے کہ اسے کونسا  سلطان لے جائے گا جنگ جیت کر اس وقت میٹرک کیا تھا یہ بات نہ تھی کہ خوبصورت تھی نہیں,
بس چند خو بیاں تھیں اچھا اخلاق ،محبت مروت ہر کسی کے کام آنا، دوسروں کے لیے اپنا نقصان کر لینا۔ میری ایک خوبی جس نے ہر ایک کو میرا گرویدہ بنایا ،میری عاجزی، میں فوراً اپنی غلطی تسلیم کرتی اور معافی ما نگ لیتی۔،دوسرا میں غصے میں بات نہیں کرتی ،مطلب جس پہ غصہ ہوتا اس سے بات اس وقت کرتی جب غصہ ختم ہو جاتا,اور کسی کو مجھ پہ غصہ ہوتا اس کی بات نہ سنتی، اس سے بھرم ٹوٹ جاتے ہیں کوشش کرتی ہوں مجھے کسی پہ غصہ ہو، کسی کو مجھ پہ تو نہ بات کروں نہ سنوں، اور زندگی میں اپنا مفاد کبھی نہ سوچا۔۔۔

ہمارے ہاں رواج ہے کہ گھر کے بڑے داماد کو گھر کاکرتا دھرتا بنادیاجاتا ہے، میری زندگی کے فیصلے کااختیار بھی بہنوئی کے ہاتھ میں دے دیا گیا اس نے میری زندگی کا ساتھی چنا اور گھر میں کسی کو نہ دیکھنے دیا، نہ ماں نے دیکھا نہ بھائیوں، بہنوں نے۔۔۔ماں کو سب کہتے رہے آپ دیکھو جا کر، مگر انھوں نے بھی اپنے فرض سے منہ موڑ لیا۔
اٹھارہ مارچ میری موت کا دن مقرر کر دیا گیا۔بارات آئی تو ایسے لگا کہ کسی کی موت کا اعلان ہوگیا ہو۔۔۔
کاش کہ ماں باپ بھائی اس وقت اپنا اختیار استعمال کرتے۔۔

میری دوستوں نے آکر مجھے کہا کہ تمہارے ساتھ تمہاری سگی بڑی بہن اور بہنوئی نے وہ کام کیاہے جیسے کہانیوں  میں ہوتاہے،  فلموں ڈراموں میں ہوتا ہے۔
میں نے پوچھا کیا ہوا؟
انھوں نے کہا رانی تم اپنے بہن بہنوئی کے حسد کا شکار ہوگئی ہو
تمہیں  بے قصور کاری کر دیا گیا ہے، جیسی تم نظمیں لکھتی تھیں  آج تم اپنے حق کے لیے کیوں چپ ہو؟
کیا تمھارے بھائیوں نے کوئی قتل کر دیا تھا کہ بدلے میں تمہیں دے دیا۔۔
ہمارے ہاں رخصتی کے وقت لڑکیاں رورو کے دریا بہادیتی ہیں مگر میرا وجود پتھر بن گیا میری رخصتی بیٹی کی رخصتی نہ تھی ایک جنازے کی رخصتی تھی میرے چچا جو کسی بھتیجی کی رخصتی پہ نہ روئے وہ عورتوں کی طرح روئے ،محلے کے بچے میرے شاگرد اپنے غیر سب روئے مگر میری آنکھ سے آنسو  نہ گرا۔۔

میں نے رخصتی کے وقت گاڑی میں بیٹھتے  سمے اپنے جیون ساتھی کو دیکھا اور سوچا اے اللہ خودکشی حرام کیوں ہے
میں نے مڑ کر اپنی ماں کو بس ایک فقرہ کہا ماں میری تعلیم کی اتنی بڑی قیمت؟
آپ لوگ کچھ قیمت ہی لے لیتے میری ،میں اتنی بھی بے مول نہ تھی کہ آپ نے داماد کی ضد پہ قربان کر دیا۔۔
آج کے بعد بھول جانا کہ  آپکی کوئی بیٹی بھی تھی۔۔
اس وقت جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں نے اپنے باپ کو گرتے ہوئے دیکھا۔۔
لوگوں نے کہا کہ اس کے بعد میرا باپ اپنے قدموں پہ نہ چل سکا، میرے بہنوئی نے میرا سب کچھ چھین لیا، میرا باپ ،میرا دوست،میرا ہم راز اس دنیا سے چلا گیا۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply