عمران خان کی گرفتاری/اعزاز کیانی

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد و لاہور پولیس نے  ایک مشترکہ آپریشن کا آغاز کر رکھا  ہے، پہلے دن یہ آپریشن قریباً 24 گھنٹے تک جاری رہا اور 24 گھنٹے گزر جانے کے بعد بھی ناکام ہی تھا کہ عدالت عالیہ لاہور نے اس آپریشن کو اگلی صبح دس بج تک ملتوی کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

عمران خان پر اس وقت تک قریباً 80 مقدمات قائم کیے جا چکے ہیں،اس طرح کے مقدمات کی بابت اپنی ایک سابقہ تحریر ( جب عمران خان پر دہشت گردی کا مقدمہ قائم کیا گیا تھا) عرض کیا تھا کہ ان مقدمات کی نوعیت سیاسی و انتقامی ہے،انتقامی کارروائی اور مقدمات پاکستان کے ہر دور, ایوب خان سے لیکر عمران خان اور شہباز شریف تک, کا مشترکہ المیہ ہے۔
ہر دور میں سیاسی مخالفین پر ایسے ہی سیاسی مقدمات قائم کیے  جاتے رہے ہیں۔

انتقام دراصل ہماری قومی نفسیات ہے،مثال کے طور پر اگر صرف سوشل میڈیا ہی کا جائزہ لیا جائے تو یہاں بھی جب ایک شخص مخالف جماعت کے ارکان و راہنماؤں کی بابت بدتہذیبی کر رہا ہوتا ہے یا گالی دے رہا ہوتا ہے اور اسے روکا جائے تو اسکا برجستہ جواب یہ ہوتا  ہے کہ چونکہ فلاں اور فلاں ایسا کر رہے ہیں لہذا ہم بھی جواباً بلکہ انتقاماً ایسا کر رہے ہیں۔

جس قوم کی نفسیات ہی ایسی ہو وہاں بھلائی کا پنپنا محض ایک خواب ہے،یہ رویہ بھی صرف اوسط ذہن کے افراد کا نہیں بلکہ بظاہر خوب پڑھے لکھے افراد کا بھی ہے۔

قوموں کا المیہ یہ نہیں کہ اَن پڑھ اور کم تعلیم یافتہ لوگ تہذیب و اخلاق سے نا آشنا ہیں قوموں کا حقیقی المیہ یہ ہے کہ پڑھے لکھے لوگ بھی تہذیب, اخلاق و اصول سے ناواقف محض ہوں۔

یہ مقدمات یا سابقہ ادوار کے مقدمات اسی “قومی نفسیات” کا شاخسانہ ہیں۔

جہاں تک عمران خان کی حالیہ گرفتاری کا تعلق ہے تو یہ کوشش عمران خان کے عدالت  پیش  نہ ہونے کی صورت میں عدالت کی جانب سے عمران کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے بعد کی گئی ہے۔

عدالت عمل کا عام طریقہ یہ ہے جب کوئی فریق بار بار عدالت میں پیش نہ ہو تو عدالتیں یا اسکو اشتہاری قرار دے دیتی ہیں یا ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کرتی ہیں،چنانچہ ماضی میں اسحاق ڈار کے نہ پیش ہونے پر نہ صرف انہیں اشتہاری قرار دیا گیا تھا بلکہ جائیداد  ضبط  کرنے  کے احکام بھی صادر کیے گئے تھے۔

لہذا حسب قاعدہ عمران خان کے بھی وارنٹ جاری ہوئے،  اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس صورت حال  میں کیا ہونا چاہیے تھا؟

میرے نزدیک اس کی بہتر صورت بہرحال  یہی تھی ،عمران خان شروع سے ہی عدالت میں پیش ہوتے تاکہ اس سب کی نوبت ہی نہ آتی۔علاوہ ازیں قانون کی پاسداری ہر شہری کا فرض ہے۔

اگر بالفرض عمران خان نہیں پیش ہوئے تھے اور وارنٹ جاری ہوئے تھے تو عمران خان کی گرفتاری قانون کا تقاضا تھا۔چنانچہ جب پولیس نے آپریشن کا آغاز کیا تھا اور حالات کشیدہ ہوگئے تھے تو دو صورتیں ہی صائب تھیں۔

1-عمران خان گرفتاری دے دیتے، اور اگر بالفرض عمران خان کے نزدیک گرفتاری بے بنیاد اور بلاجواز تھی تو اس کے لیے قانونی جنگ لڑی جاتی اور عدالتی و قانونی طریقہ سے فتح حاصل کی جاتی ( جیسے کہ آج صبح لاہور و اسلام آباد عدالت سے رجوع کیا گیا ہے)۔
قانونی جنگ جب سڑکوں پہ لڑی جائے تو ہمیشہ انتشار پیدا ہوتا ہے۔

2۔ اگر عمران خان گرفتاری نہیں دینا چاہتے تھے تو دوسری صائب صورت یہ تھی کہ گشیدگی کی ابتدا میں ہی عدالت و پولیس کو یقین دہانی کروا دی جاتی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں گے ( جیسے کہ رات گئے ایک شیورٹی بانڈ جاری کیا گیا ہے)لیکن عمران خان ہر فیصلہ ہمیشہ آخری وقت میں کرتے ہیں (مثلاً جسٹس زیبا کیس, کوئٹہ ہزارہ برادری کے احتجاج میں جانا, اپریل کی شب کا واقعہ وغیرہ)۔

آخری وقت میں کیا جانے والا فیصلہ ہمیشہ ساکھ بچانے کی خاطر کیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جہاں تک کارکنوں کی مزاحمت کا تعلق ہے تو میرے نزدیک یہ تمام اقدام ناقابل قبول ہیں۔اس لیے کہ افرادی قوت سے مقابلہ کا مطلب تو یہ ہے کبھی کسی طاقت ور کو گرفتار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ماضی میں جب یہی رویہ تحریک لبیک نے اپنایا تھا تو میری تب بھی یہی رائے تھی کہ یہ طریقہ درست نہیں ہے اور بالآخر عمران خان کی حکومت کو ہی ایک بڑا آپریشن کرنا پڑا تھا۔میرے نزدیک ایسا ہر رویہ قابل مذمت اور عندالقانون جرم ہے خواہ وہ تحریک لبیک کی جانب سے ہو, تحریک انصاف کی جانب سے ہو یا جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے ۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply