سگ یار۔۔عارف خٹک

ہمارے گاؤں کے شیر باز گل ماما کا ایک کتا تھا۔ جس کے بھونکنے کی آوازیں آج تک ہم نے شیرباز گل ماما کے گھر میں ہی سنی تھیں ۔ پردے کا اتنا پابند تھا کہ دن کی روشنی میں بھی دروازے کی اوٹ سے سر باہر نہیں نکالتا تھا۔ مرد تو مرد خواتین کو دیکھ کر بھی کہیں جانوروں کے  باڑے میں جاکر چھپ جاتا تھا۔ شرافت ایسی کہ ہم نے دو سالہ بچوں کو اس کے نازک اعضاء ہاتھوں میں پکڑ کر منہ میں لیجانے کی کوشش کرتے دیکھا تھا، لیکن مجال ہے کہ چوں بھی کرتا تھا۔

مگر جیسے ہی رات ہوتی وہ آسمان پر پر اٹھا لیتا، ایسا لگتا تھا جیسے وہ گاؤں  کا واحد کتا ہے۔ جیسے ہمارے ہاں سوشل میڈیا کے کچھ دانشور خود کو عقل ِ کُل سمجھتے ہیں۔ مگر پھر دور کہیں گیدڑوں کی “آوں ووں” کی آوازیں سن کر بیچارا مالک کی چارپائی کے نیچے گھس جاتا اور اونگھنے لگتا۔

اکثر گاؤں کے کتے جب صادق اللہ خان کی چتکبری کتیا کیساتھ گروپ سیکس میں مصروف ہوتے تو یہ موصوف کمرے کے منڈیر پر مدہوش  کھڑا  ہوکر  حسرت سے ان کو دیکھتا رہتا اور بالآخر خود ہی حظ اٹھا کر آگے پیچھے ہونے لگتا اور نتیجتاً بیچارا جذبات کی تاب نہ لاکر چھت سے نیچے گر جاتا۔

مجھے اس کتے پر ہمیشہ پیار  آتا ،اس کی کچھ خصلتیں یہاں موجود کچھ دوستوں جیسی ہیں۔ جو ہماری وال پر خواتین کے کمنٹس دیکھ کر جامے سے باہر ہوکر آگے پیچھے ہلنا شروع ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ان دوستوں کو خود بھی معلوم ہے کہ ان کے نازک اعضاء ابھی فی الحال بچوں کے ہاتھوں کھیلنے کیلئے بنے ہیں۔

یہ کتا بڑا مفکر قسم کا کتا تھا جب بھی گھر میں بڑے بوڑھے بیٹھ کر کوئی ضروری مشورہ کرنے لگتے تو یہ ایک ذومعنی خاموشی کیساتھ اپنی دم ہلانے لگتا۔ بلکہ کچھ مواقع پر ہم نے اس کو نفی میں سر ہلاتے بھی دیکھا ہے۔ ایک دن ثواب گل اس کی یہ ادائیں دیکھ کر مجھے سنجیدگی سے کہنے لگا کہ
“یار خٹک اس کو بھی سوشل میڈیا پر جگہ دو۔ دیکھنا پندرہ دن میں بائیس ہزار فالور اور پانچ ہزار دوست اکھٹے نہیں کئے تو بے شک مجھے اپنی وال سے بلاک کیجیئے گا”۔

موصوف کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوئے ہیں ۔  اور اس سے بڑی بدقسمتی کیا ہوگی کہ پل بھی ایک پشتون کے گھر رہا ہے۔ کبھی کبھار مجھے اس پر بہت ترس آتا ہے۔ پچھلے دنوں یار من انعام رانا کے کتے کی لاڈیاں دیکھ کر میں نے بھی فیصلہ کیا کہ موصوف کو میں بھی کھیتوں میں لیجاکر گھماؤں۔ اسکی محرومیوں کا کچھ ازالہ کروں۔ دن کی روشنی میں اس کو سبزہ دیکھاؤں۔ اس کیساتھ اٹھکھیلیاں  کروں۔ جیسے ہی باجرے کے کھیت کے پاس سے گزرنے لگے تو موصوف بھاگ کر کھیت میں الٹا لیٹ گیا۔
میں نے اس پر چار حروف بھیج دیئے کہ اس سے اچھا تو اپنے ضلع دیر کا ناصر خان جان ہے۔وہ ایزی پیسہ تو مانگتا ہے یہ تو بنا مانگے بےغیرتی پر اتر آتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سوچ رہا ہوں کہ کتے سارے بدکردار ہوتے ہیں یا بدقسمتی سے یہ ذلالت شیرباز گل ماما کےنصیب میں آئی ہے!
خبردار: یہ فرضی مضمون ہے لہذا کسی قسم کی مماثلت کی ذمہ داری مجھ پر نہیں ہوگی۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply