میری طلب اور آپ کا حلیہ/ شاکر ظہیر

شعبان کے مہینے میں مذہبی پروگرامات جوش اور عقیدت سے منقعد کیے جاتے ہیں ۔ اس میں کوشش کی جاتی ہے کہ پندرہ شعبان کی تاریخ رکھی جائے ،اس کے پیچھے پندرہ شعبان کے حوالے سے ایک تصور موجود ہے کہ اس رات کو فرشتے تقدیر کے فیصلے لے کر دنیا میں بھیجے جاتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ اس کی مالی وجوہات بھی ہوتی ہیں جو شاید سب سے اہم ہیں کہ لوگوں کو یاد دلایا جاتا ہے کہ رمضان میں جو زکوٰۃ ہے اس کا ایک مصرف ہم بھی ہیں جہاں ہم آخرت میں آپ کی نجات کےلیے حفاظ تیار کر رہے ہیں جنہوں نے اپنے ساتھ کئی رشتے داروں کو جنت میں لے کر جانا ہے ۔ اس کی نمائش بھی کی جاتی ہے کہ کچھ حفاظ بچوں کو پیش کیا جاتا ہے اور ان کے والدین کو مبارکباد دی جاتی ہے کہ آپ کی کامیابی کنفرم ہو گئی ۔

اس شعبان میں ہمارے عزیز دوست ملک حلیم اعوان نے اطلاع دی کہ مسجد نفیس میں حضرت مولانا زاہد راشدی صاحب نے بھی آنا ہے اس لیے ہم نے بھی شرکت کا فیصلہ کیا ۔ اور اس فیصلے کے اسباب میں محترم زاہد راشدی صاحب سے ملنے کی خواہش کا عمل دخل غالب تھا ، کیونکہ وہ ہمارے محترم استاد ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب کے والد محترم تھے اور ہمارے لیے ملنے کی خواہش اس لیے بھی تھی کہ وہ ایک روایتی فکر سے تعلق رکھتے تھے اس کے باوجود استاد محترم ڈاکٹر عمار خان ناصر صاحب کو مختلف مکاتب فکر کے مطالعے کی کبھی روک ٹوک نہیں کی ۔ یہ بات ہمارے لیے باعث تعجب بھی تھی ۔
خیر پروگرام شروع ہوتے ہی میں اور ملک حلیم اعوان صاحب پہنچ گئے ۔ استاد صلاح الدین صاحب نے، جو اس مسجد کے روح رواں ہیں ہمیں دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا ۔ شروع میں تو صرف نعتیں ہی پڑھی جا رہی تھیں اور میں اور ملک صاحب آنے والے لوگوں کو دیکھ رہے تھے اور میں ساتھ ساتھ ملک صاحب سے ان کے بارے میں پوچھ بھی رہا تھا ۔ یک دم ہی ملک صاحب نے مجھ سے سوال کر دیا شاکر بھائی کیا آپ نے نوٹ کیا کہ ان سب آنے والوں کی وضع قطع ایک جیسی ہے ۔ سر پر عمامہ کندھے پر چادر ، شلوار ٹخنوں سے اونچی ، کھلی قمیض ، ماتھوں پر بنے سجدوں کے نشان ۔ یعنی یہ ایک نشانی اور خاص لباس ہے جو علما کے ساتھ مخصوص ہے، کیوں ؟ کیا ان کے پاس واقعی علم بھی ہے یا یہ کہ  صرف یہ لوگوں کو دکھانے کےلیے حلیے ہی ہیں ۔

میں نے پہلے سوچا کہ اس سوال کو نظر انداز کر دوں لیکن مجھے معلوم تھا کہ ملک صاحب نے اس سوال کو اس وقت تک  یاد رکھنا ہے جب تک مجھ سے جواب نہیں لے لیتے۔

میں  نے کہا ملک صاحب کیا میں اور آپ یا یہ باقی لوگ کسی فیشن شو میں کوئی وضع قطع دیکھنے آئے ہیں کہ آج کل اس طرح کے گروہ میں کون سا کپڑوں کے عمامے کا فیشن چل رہا ہے ۔ کیا آپ میں اور یہ سب لوگ کوئی ان کے ماتھوں پر بنے نشان دیکھنے آئے ہیں کہ یہ کتنے عبادت گزار ہیں ۔ اگر ہیں بھی تو یہ ان کے اپنے لیے ہے ۔ وہ جانیں  اور ان کا خدا جانے،  جس نے اس کا اجر دینا ہے ، مجھے آپ کو اس سے کیا لینا دینا ۔ اصل بات یہ ہے ہم لوگ یہاں اس علم کو لینے کےلیے آئے ہیں جس کے یہ دعویدار ہیں کہ یہ علما ہیں ۔ جن کے سینے میں علم ہوتا ہے انہیں کسی خاص حلیے اور وضع قطع کی ضرورت نہیں ہوتی، جس کی بنیاد پر وہ خود کو دوسروں سے الگ سمجھیں یا لوگ انہیں الگ تصور کریں ۔ ہو سکتا ہے دیکھنے والے ان کے حلیے میں اپنے سے الگ کچھ بھی محسوس نہ کریں ۔ لیکن جب وہ سینوں میں علم رکھنے والے بولنا شروع کرتے ہیں تو سامع کا دل کرتا ہے کہ اس کے لبوں سے علم کے پھول جھڑتے رہیں اور میں اس کے قدموں میں بیٹھ کر ان پھولوں کو سمیٹتا رہوں ۔ پھر علم کی دنیا میں اس حلیے کی کیا اہمیت، آپ کی تو بات دلیل پر تولی اور پرکھی جائے گی ۔ اگر وہ معیار پر پوری اترتی ہے اور معاشرے کےلیے فائدہ مند ہے تو قبول ہے چاہیے آپ نے جینز والی پینٹ پہنی ہوئی ہے یا عربی چوغہ۔ انہوں نے تو ان لوگوں کو یہ بتانا ہے کہ انہوں نے اپنی زندگیاں اور ساتھ ساتھ اپنی نسلوں کو ایک اچھا معاشرہ کیسے دینا ہے۔ اس مقصد کا حلیے سے کیا تعلق ۔؟

Advertisements
julia rana solicitors

خیر ایک صاحب بہترین سفید کلر کی گاڑی میں تشریف لائے ملک صاحب سے پوچھنے پر معلوم ہوا کہ یہ شاہ صاحب کے صاحب زادے ہیں ۔ میں نے کہا آپ کا پتر اور آپ کا بیٹا ہوتا ہے اور جب شاہ صاحب ہوں تو ان کے صاحب زادے ہو جاتے ہیں ۔ انہوں نے جب تقریر شروع کی تو سر بہت کمال کی تھی لیکن قرآن کی آیات کا ترجمہ اپنی  مرضی سے کہاں کی بات کہاں جوڑ رہے تھے ۔ سورہ مدثر جو نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہہ رہی ہے کہ اب آپ نے قوم کو خدا کا پیغام پہنچانے کا کام دعوت عام کے حوالے سے شروع کرنا ہے ۔ اسے شاہ صاحب کے صاحب زادے اللہ کی بنی کریم ﷺ کی محبت سے جوڑ رہے تھے کہ خدا کو نبی کا کمبل اوڑھنا بھی بہت بھایا ۔ صرف ایک محترم زاہد راشدی صاحب تھے جنہوں نے سنجیدگی سے دو چار نقاط پیش کیے کہ جنہوں نے قرآن حفظ کر لیا ہے وہ اب اسے یاد رکھنے کی کوشش کریں اور اپنی اس صلاحیت کو مزید بڑھائیں مزید علم حاصل کریں تاکہ آپ معاشرے کی بہتری کےلیے رہنمائی کر سکیں ۔ باقی سارے بس حلیے ہی تھے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply