• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کا دہشتگردوں سے اظہار ہمدردی۔۔شیر علی انجم

گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کا دہشتگردوں سے اظہار ہمدردی۔۔شیر علی انجم

گلگت سے تعلق رکھنے والے ایک صحافی کے مطابق گلگت بلتستان کے وزیر اطلاعات اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فتح اللہ خان نے ریاست کو مطلوب خطرناک دہشتگرد نام نہاد کمانڈر حبیب الرحمن کے حوالے سے کہا ہے کہ کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ کمانڈر حبیب الرحمن اور ساتھیوں کی  گلگت بلتستان کے عوام  بارے غلط سوچ ہوگی۔ یعنی بلی تھیلے سے باہر آگئی اور انہوں نے بھی قاری حفیظ کی طرح دیامر میں موجود مقامی محدود تعداد کے شدت پسندوں کے آگے ہتھیار ڈال دیے اور پیغام دیا کہ جس طرح آپ نے قاری حفیظ الرحمن کے سر پر ہاتھ رکھا بالکل اسی طرح ہمارے سر پر بھی ہاتھ رکھیں۔

وزیر اطلاعات کا بیان گلگت بلتستان کے پچیس لاکھ عوام کیلئے انتہائی باعث تشویش ہے۔ بلکہ انکا شدت پسند حبیب الرحمن کی جانب سے ماضی میں کی جانے والی دہشت گرد کارروائیوں کی حامی بھرنا ہے۔
دہشتگردی کی کارروائیوں میں ملوث اور جیل سے فرار اس دہشت گرد کے بارے میں میڈیا پر موجود رپورٹس کے مطابق   کمانڈر حبیب الرحمن کو 2013 میں نانگا پربت میں دس غیر ملکی کوہ پیماؤں کے علاوہ شدت پسندی کی دیگر وارداتوں میں گرفتار کیا گیا تھا۔رپورٹس کے مطابق نانگا پربت واقعے میں 16 افراد ملوث تھے مگر صرف تین لوگوں کو گرفتار کیا جاسکا تھا۔ ان میں کمانڈر حبیب الرحمن اور کمانڈر لیاقت خان چند سال پہلے گلگت سٹی جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ جبکہ ان کے ایک ساتھی پنجاب کی ایک جیل میں فوجی عدالت میں مقدمے کے منتظر ہیں۔

کمانڈر حبیب الرحمن کو گرفتاری کے وقت حکام نے خیبر پختونخوا کے ضلع مانسہرہ کی حدود میں مسافر بس پر حملے کا مرتکب بھی قرار دیا تھا۔ مسافر بس کو لولو سر کے مقام پر روک کر شناخت کے بعد بیس شیعہ مسافروں کو قتل کر دیا گیا تھا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق کمانڈر لیاقت خان کے حوالے سے بھی بتایا جاتا ہے کہ وہ نانگا پربت واقعے کے علاوہ شدت پسندی کے دیگر واقعات میں بھی ملوث ہیں جن میں مارے جانے والوں میں پولیس کے ایک ایس ایس پی، فوج کے کرنل اور کیپٹن  شامل ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ کمانڈر حبیب الرحمن یا ان کے گروپ پر ضلع دیامر داریل میں طالبات کا سکول جلانے کا الزام ہے۔بی بی سی اردو اور سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کے مطابق کمانڈر حبیب الرحمٰن نے  مطالبہ کیا ہے کہ حکومت وقت 20 فروری 2019 کو کھنبری گچھار ضلع دیامر کے مقام پر ہونے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔

ان کے اس بیان کے بعد سوشل میڈیا پر سول سوسائٹی کے رہنماؤں اور عوام کی جانب سے الزام لگایا جارہا ہے ان کو جیل سے فرار کروانے میں اس وقت کے مسلم لیگ ن اور اَس وقت کے وزیر اعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن براہ راست ملوث تھے۔ اگر ایسا نہیں تو گلگت بلتستان جیسے علاقے میں جہاں حفیظ الرحمن بنیادی سیاسی حقوق کا پُرامن طریقے سے مطالبہ کرنے والوں کیلئے فورتھ شیڈول اور ایکشن پلان کے تحت مقدمات کا تخفہ متعارف کروایا ،وہیں نام نہاد کمانڈر حبیب الرحمن جیسے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کرکے اپنا پانچ سالہ دورِ  اقتدار سکون سے کیسے گزرا۔؟

اس وقت گلگت بلتستان پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے اور ان کے وزیرِ  اطلاعات فتح اللہ خان کا ان شدت پسند عناصر کی گرفتاری کیلئے حکمتِ  عملی طے کرنے کے بجائے ان سے اظہار ہمدردی پر بھی عوامی حلقوں کی جانب سے سوال اٹھایا جارہا ہے کہ جی بی میں تحریک انصاف کی حکومت مٹھی بھر دہشتگردوں کے آگے  بے بس ہے، یا ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی نہیں کرکے ان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ جس طرح حافظ حفیظ الرحمن آپ کے تھے بالکل اسی طرح ہم بھی آپ کے ہیں۔ ورنہ اب تک ان خطرناک اور قانون کو مطلوب دہشت گردوں جنہوں نے دن دیہاڑے جدید اسلحوں سے لیس ہوکر عین اس وقت جب دنیا  بھر سے سیاح گلگت بلتستان آرہے ہیں   ،گلگت بلتستان کا گیٹ وے بابوسر دیامر کے مقام پر اپنے وجود اور طاقت کا نہ صرف اظہار کیا۔ بلکہ اسلحوں کی نمائش کرکے گلگت بلتستان کی کمزور ترین اور بے بس حکومت کو بے نقاب کیا۔ جن کا پورا لشکر مقامی طور  پر بنیادی سیاسی اور معاشی حقوق کیلئے   پُرامن سیاسی جدوجہد کرنے والوں کو دہشت گرد، ملک دشمن، راء کا ایجنٹ وغیرہ ثابت کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہوا ہے۔ لیکن کمانڈر حبیب الرحمن اچانک منظر عام پر آنے کے بعد ایسا لگتا ہے کسی نے ان سب پر مچھر مار اسپرے کردیا ہے۔

یہاں سوال وفاقی حکومت سے بھی بنتا ہے کہ اس وقت پاکستان FTF سے نکلنے کیلئے ہر قسم کی کوشش کر رہا ہے ،لیکن پاکستان کے زیر انتظام گلگت بلتستان جیسے متنازع  خطے میں جہاں حکومت شدت پسندوں کے آگے ہتھیار ڈالتی  نظر آتی ہے وہیں مقامی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں ۔ انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی جانب سے گزشتہ ہفتے جاری ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گلگت بلتستان میں  دہشت گردی کے قوانین سیاسی کارکنوں پر بے دردی سے استعمال ہورہے ہیں ، ایسا کیوں ہورہا ہے وفاقی حکومت کو نوٹس لینا چاہیے۔ اس سے پہلے بھی عالمی نشریاتی اداروں کی جانب سے گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے متعدد بار رپورٹس شائع ہوچکی ہیں ، جو کہ نیک شگون نہیں ہے۔ کیونکہ سوشل میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں اس قسم کی خبریں ایک جمہوری ملک کی بدنامی کا باعث بننے کے ساتھ  ملک  دشمن قوتوں کو  مزید طاقتور بنارہی ہوتی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر کوششوں کے باوجود FTF سے نکلنا اب تک ناممکن بنا ہوا ہے۔جس سے پاکستان کو کئی قسم کے معاشی اور سیاسی مسائل کا سامنا ہے۔

اسی طرح وزیر اعظم عمران خان اپنی ہر تقریر میں سیاحت کے فروغ اور گلگت بلتستان کی خوبصورتی کا  ذکر کرتے ہوئے دنیا کو گلگت بلتستان کی طرف متوجہ کر رہے ہوتے ہیں ۔ لیکن کچھ زمینی حقائق کا انہیں شاید  ادراک نہیں۔ جس میں اہم اور بنیادی نکتہ دیامر میں کالعلم مذہبی انتہاء پسند جماعتوں کے  اثرو رسوخ اور دہشت گرد  کمانڈروں کی موجودگی ہے۔ آج بھی اگر ہم چلاس شہر سے گزریں تو  کئی مقامات پر  کالعدم  مذہبی انتہاء پسند جماعت کے  پرچم لہراتے نظر آتے  ہیں  اس سے جہاں گلگت بلتستان کا امیج خراب ہورہا ہے وہیں سیاحت کی غرض سے آنے والوں میں خوف و ہراس پھیلتا ہے۔ اور لوگوں میں یہ تاثر پیدا ہورہا ہے کہ شائد پورا گلگت بلتستان ایسا ہوگا۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ دیامر کے پرامن عوام  خود ان سے بیزار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کمانڈر حبیب الرحمن کا اچانک منظر عام پر آنے کے بعد اس قسم کے شکوک  و شبہات  میں مزید اضافہ ہوگیا ہے ،کیونکہ بی بی سی اردو سے لیکر دیگر تمام عالمی نشریاتی اداروں نے اس خبر کو کوریج دی، اس سے دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہورہا ہے کہ ریاست کو مطلوب فراری دہشتگرد دن دیہاڑے جدید اسلحوں سے لیس ہوکر نقاب پوش ساتھیوں کے ساتھ کھلی کچہری کرتا ہے لیکن گلگت بلتستان پولیس اور یہاں کی حکومت ان کے آگے بس نظر آتی ہے۔ بلکہ ان کے خلاف کارروائی کرنے کا عندیہ تک نہیں دیتی  اور اہم حکومتی رکن نے ان سے بلاواسطہ اظہار ہمدردی بھی کردیا جو کہ نیک شگون نہیں ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو چاہیے کہ گلگت بلتستان حکومت سے جواب طلب کریں اور گلگت بلتستان جیسے پُرامن    خطے کی خوبصورتی کی راہ میں حائل ان مٹھی بھر دہشت گردوں کا قلع قمع کریں۔

Facebook Comments

شیر علی انجم
شیرعلی انجم کا تعلق گلگت بلتستان کے بلتستان ریجن سے ہے اور گلگت بلتستان کے سیاسی،سماجی اور معاشرتی مسائل کے حوالے سے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply