قصّہ شہر بدر کا(13)-شکور پٹھان

ایک جانب ہوٹل کے ساتھیوں کی سرگرمیاں تھیں تو دوسری جانب بحرین کی اپنی سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں تھیں۔ میں شاید ان سے لاتعلق رہتا لیکن چچا یہاں بے حد متحرک تھے اور مجھے بھی نہ صرف ان تقریبات میں شرکت کا موقع ملتا بلکہ ان شخصیات سے بھی تعارف ہوجاتا۔ پاکستان سے آنے والے معززین، شاعر، ادیب اور فنکار اکثر چچا کے مہمان ہوتے۔ ہم ان کا ائیرپورٹ پر استقبال کرتے ۔ اکثر فنکار وغیرہ ائیرپورٹ سے سیدھے چچا کے گھر آتے۔ یہاں پروگراموں اور تقریبات کی تفصیلات طے پاتیں۔

چچا کے دوست اور مہمان گوناگوں اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے تھے۔ چچا کا گھر کوئی بہت بڑا گھر نہیں تھا۔ ایک شام چچا نے مجھ سے کہا کہ آج تم ڈرائنگ روم میں سونا۔ میرے ایک مہمان آرہے ہیں جنہیں تمہارے کمرے میں ٹھہر اؤں گا۔

یہ مہمان ایک بلند قامت ، خاموش طبیعت اور سیدھے سادے سے صاحب تھے۔ سادہ سے لباس میں تھے اور بات چیت میں بھی سادگی اور شرافت ٹپکتی تھی۔ یہ فضل الہی چوہدری کے بھائی تھے۔ فضل الہی چوہدری اس وقت صدر پاکستان تھے۔ مجھے ان شریف النفس مہمان کا نام بھول گیا ہے لیکن ان کی سادگی اور نجابت اب تک یاد ہے۔

مشہور غزل گائیک غلام علی بحرین آئے تو ائیرپورٹ سے ہم انہیں اپنے گھر لے آئے۔ غلام علی اس وقت غزل کے اُفق پر نئے نئے نمودار ہوئے تھے اور ان کے انداز میں بھی بہت دھیما پن اور سادگی تھی۔ ایک دن بعد پاکستان کلب میں ان کا پروگرام تھا جس کی نظامت چچا نے کی۔ برمحل اشعار اور چچا کے بلند آہنگ لہجے اور غلام علی کی خوبصورت گائیکی نے اس محفل کو یاد گار بنادیا لیکن میرے لئے اس سے زیادہ یادگار وہ نجی محفل تھی جو یو بی ایل کے میرے سابق باس عارف مقصود کے گھر منعقد ہوئی۔ عارف مقصود جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا، انور مقصود کے کزن تھے لیکن اس وقت انور مقصود ٹی وی پر بہت زیادہ مشہور نہیں ہوئے تھے۔

اس محفل کی اصل یاد ایک مہمان خاتون ہیں۔ یہ محترمہ بھارتی سفیر کی اہلیہ تھیں اور خیرہ کن حسن کی مالک تھیں ۔ لیکن یہ ایسی کوئی خاص بات نہیں ۔ وہاں اور بھی پاکستانی اور ہندوستانی خواتین تھیں جو چندے آفتاب اور چندے ماہتاب تھیں۔ ان خاتون کی خصوصیت ان کا غیر معمولی قد تھا۔ وہ نہ صرف تمام حاضرین سے زیادہ بلند قامت تھیں بلکہ باسکٹ بال کے کھلاڑیوں کی طرح طویل قامت نظر آتی تھیں۔ حسن کو اتنی بلندی پر نہ اس  سے پہلے کبھی دیکھا تھا نہ بعد میں کبھی دیکھا۔ وہ ایک خوبصورت سی ساڑھی زیب تن کئے ہوئے تھیں اور جب کھڑی ہوتیں تو یوں لگتا کہ کسی مرمریں ستون سے ریشمی چادر لپٹی ہوئی ہے۔ محفل میں فرشی نشست کا بندوبست تھا وہ میرے دائیں جانب ہی بیٹھی تھیں جب کبھی ان پر نظر پڑتی یوں لگتا وہ کسی کرسی پر متمکن ہیں اور بے اختیار میری نگاہیں کسی فرضی کرسی کو تلاش کرنے لگتیں۔

ہمارے پڑوسی کیرالہ کے ایک نوجوان پادری صاحب تھے۔ مجھے علم نہیں کہ پادری اور نن وغیرہ شادی کرسکتے ہیں یا نہیں ۔لیکن یہ کسی ایسے فرقے سے تھے جہاں شادی کا رواج تھا چنانچہ ان کی بیگم اور ایک چھوٹی سی بچی بھی تھی۔ یہ بڑے ملنسار لوگ تھے۔ آتے جاتے سامنا ہوتا تو سلام دعا ہوتی۔ عید کے دن یہ ہمیں مبارکباد دینے آتے تو ہم بھی ان کے گھر سویاں اور مٹھائیاں وغیرہ بھیجتے۔
ان پادری صاحب کے گھر ہندوستان سے کیرالہ کے آرچ بشپ ( یا ایسے ہی کوئی بڑے مذہبی رہنما) آئے۔ بحرین میں ان کا قیام یہیں تھا اور یہ کیرالہ کے مسیحیوں کے نزدیک بڑے اعزاز کی بات تھی۔ چچا نے ان کو چائے پر مدعو کیا۔ میں اور چچی ان سے بڑے احترام سے ملے۔ انہوں نے ہمیں اور بچوں کو دعائیں دیں۔ بڑی نرم اور شائستہ گفتگو کرتے رہے۔تمام مذاہب کی مشترکہ باتوں کی نشاندہی کرتے رہے۔ اسلام کے بارے میں ان کی معلومات کسی مسلمان عالم دین سے کم نہیں تھیں۔ ہم ادب و احترام سے ان کے سامنے خاموش بیٹھے ان کی باتیں توجہ سے سنتے رہے۔ مذاہب کے بارے میں معاندانہ رویہ نہ رکھا جائے تو نہ صرف دوسروں کا عقیدہ سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے بلکہ اپنا عقیدہ بھی دوسروں کو سمجھایا جاسکتا ہے۔ مسیحی مبلغین اس بات کو سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس بارے میں بہت شدت اور تنگ نظری پائی جاتی ہے۔ بشپ صاحب کی صحبت میں گذرے چند لمحات کی خوشگوار یاد آج بھی دل کے نہاں خانوں میں موجود ہے۔

ایک اور مہمان جن کو میں کبھی نہیں بھلا سکتا، معین اختر مرحوم اور تاج ملتانی اور نگہت سیما تھے جنہیں ہم ائیرپورٹ پر لینے گئے۔ معین اختر اس وقت نہایت دبلے پتلے سے تھے اور جب میں نے ان سے ہاتھ ملایا تو یوں لگا کہ ان کا ہاتھ ٹوٹ جائے گا، حالانکہ میں خود ان دنوں سینک سلائی سا تھا۔ تاج ملتانی اور نگہت سیما بھی خاموش اور شرمائے شرمائے سے تھے۔ ان دنوں ان پروگراموں میں بہت زیادہ پیسہ نہیں ہوتا تھا۔ فنکاروں کو ایک معمولی سے ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔ مجھے اس وقت تک ہوٹل کی جانب سے انتہائی آرام دہ اور تمام ضروریات سے آراستہ رہائش مل گئی تھی۔

اگلے دن ہم اندلس سنیما میں فلم “ زنجیر “ دیکھ رہے تھے کہ معین اپنے دو دوستوں کے ہمراہ ہماری برابر والی سیٹ پر آ بیٹھے۔ ان سے انٹرول اور فلم کے اختتام پر گپ شپ ہوتی رہی۔ میں نے ان سے کہا کہ وہ میرے گھر آجائیں تو انہوں نے معذرت کرلی کہ وہ اپنے ساتھی فنکاروں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ انہیں کسی قسم کے خصوصی سلوک کا احساس ہو۔ معین کی یہ شرافت اور انسان دوستی مرتے دم تک ان کے کردار کا نمایاں ترین حصہ بنی رہی۔ ہم دو دن معین اختر کے ساتھ رہے اور صحیح معنوں میں عاجزی اور Down to earth کے معنی اگر سمجھنے ہوں تو وہ معین نے ہمیں سمجھائے۔ خدا اسے کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین!

لیکن میں بحرین ان تفریحات کے لئے نہیں آیا تھا۔ ماں باپ اور بہن بھائیوں سے دور آنے کا پہلا مقصد چار پیسے کمانا تھا کہ نہ صرف گھر کے حالات بہتر ہوں ، ساتھ ہی بہنوں کے ہاتھ پیلے کرنے کی ذمہ داری بھی تھی اور مجھ جیسے دیگر مزدور پیشہ تارکین وطن ایسی ہی ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے غریب الوطنی کا دکھ جھیل رہے تھے۔ میری ملازمت رات کی تھی۔ دن میں مجھے بہت زیادہ نیند نہیں آتی تھی۔ اپنے فارغ وقت کا ایک استعمال یہ تلاش کیا کہ ایک اور کمپنی میں شام تین گھنٹے کی جز وقتی ملازمت شروع کردی۔ یہ بھی اکاؤنٹس کا کام تھا۔ یہاں زیادہ تر اسٹاف ہندوستانی تھا اور جن صاحب کے ساتھ مجھے کام کرنا تھا وہ انگریزی کے علاوہ شدھ ہندی میں بات کرتے۔ یہ وہ ہندی تھی جو بعد میں فلموں سے اور ٹیلیویژن سے سیکھنے والا تھا۔

وہ مجھے “سمے” پر دفتر آنے کی تلقین کرتے لیکن کام ختم کرنے کا سمے بھول جاتے۔ کچھ دن تو میں نے ان کے ساتھ نباہنے کی کوشش کی لیکن جب میری نائٹ ڈیوٹی کا وقت متاثر ہونے لگا تو ان پر واضح کیا کہ میں یہاں پارٹ ٹائم کام کررہا ہوں اور میری اصل ملازمت ہوٹل کی ملازمت ہے۔

انہی دنوں چچا نے بتایا کہ ان کے ایک دوست جن کا قالینوں کا شو روم ہے ان کے حسابات دیکھنے کے لئے ایک اکاؤنٹنٹ کی ضرورت ہے۔ میں ان کے پاس بھی پہنچ گیا۔ ان کے پاس بہت زیادہ کام نہیں تھا۔ نہ ہی انہوں نے ابتداء سے کوئی حساب کتاب ترتیب دیا تھا۔ جیسے تیسے ان کے گوشوارے بنائے۔ ان کے پاس ہفتے میں تین چار دن ہی جاتا تھا۔ چچا کے یہ دوست کشمیری تھے۔ان کی بیگم بھی اکثر دکان پر ہوا کرتی تھیں اور مجھ سے بہت شفقت سے پیش آتیں ۔

اب میں بیک وقت تین جگہ ملازمت کررہا تھا۔ فلمیں اور پارٹیاں وغیرہ متروک ہوگئی تھیں۔ دوستوں سے ملنا بھی کم ہوگیا تھا۔ مجھے بظاہر کوئی مشکل نہیں تھی، لیکن ہندی بولنے والے صاحب کی خسیس طبیعت کی وجہ سے یہ کام طبیعت پر گراں گذرنے لگا۔ یہاں شام کو تین گھنٹے کام کرنا ہوتا تھا لیکن وہ چاہتے تھے کہ میں تین گھنٹے سے زیادہ کام کروں ( اسی تنخواہ میں ) ۔ مجھے شام کو آرام کا وقت نہیں ملتا۔ میری جسمانی سے زیادہ ذہنی صحت متاثر ہونے لگی۔ کچھ عرصہ بعد میں نے وہاں سے کام چھوڑ دیا۔ قالین کے شو روم پر البتہ کام جاری رکھا لیکن یہ بھی ہفتے میں ایک دو دن ہی ہونے لگا۔ بعد میں بلا معاوضہ ان کے حسابات دیکھتا رہا۔ جب بھی ضرورت ہوتی وہ مجھے فون کرکے بلالیتے۔

اور میں ہی نہیں اور بھی تھے جواسی طرح پردیس میں آنے کا مقصد نہیں بھولے تھے اور فاضل وقت میں دوسرے کام بھی کرتے تھے۔ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ پردیس کی زندگی کوئی ایسی پھولوں کی سیج بھی نہیں ۔ بہت ہاتھ پیر مارنے پڑتے ہیں اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو مارنا پڑتا ہے۔
آج باتیں کچھ سنجیدہ ہوگئیں۔ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لئے کبھی کچھ تیکھا بھی درکار ہوتا ہے۔
باقی کی داستان بشرط زندگی آئندہ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply