جاناں جاناں (پروفیسر مسرّت مرزا) قسط1/کبیر خان

فنّی تربیتی کورس کے سلسلہ میں ایک بار کچھ عرصہ اٹلی میں رہنے کا موقع ملا۔ ویٹیکن ، روم اور وینس سمیت کئی مقامات دیکھے۔ تین سے زائد جگہوں پر مائیکل اینجلو کے شاہکار دیکھے۔ ایک مقام پر بڑے قاسمی صاحب کی نظم’’پتھر‘‘ یاد آئی:
ریت سے بُت نہ بنا اے میرے اچھے فنکار
اک لمحے کو ٹھہر،میں تجھے پتھّر لادوں
میں ترے سامنے انبار لگا دوں لیکن
کون سے رنگ کاپتھرتیرے کام آئے گا؟
سُرخ پتھر جسے دل کہتی ہے بے دل دُنیا
یاوہ پتھرائی ہوئی آنکھ کا نیلا پتھر
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
مائیکل اینجلو بڑا فنکار ہے۔ اُس کے کئی شاہکار دیکھے ۔ لیکن پہاڑی پر گرجا کے ساتھ ایک مجسمہ کم از کم ہمیں تو اپنی اور کھینچ رہا تھا ۔ اورہم کھِنچے چلے گئے۔ قریب سے دیکھا تو دل میں کچھ کچھ ہونے لگا۔ایک گائیڈ نے بتایا کہ مائیکل جب ’’ماں ‘‘ نامی اس مجسمہ کو اختتامی ٹچ دے رہا تھا تو کسی مداح نے پوچھا۔۔۔۔ تم نے ایسے سخت ترین پتھرمیں سے یہ شاہکار مجسمہ کیسے گھڑ لیا ؟ ۔ اینجلو نے جواب دیا ، مجسمہ میں نے نہیں بنایا، یہ پہلے سے ہی اس چٹّان میں بنا بنایا پڑاتھا۔ میں نے تو صرف چھینی ہتھوڑی سے اس کے ارد گرد کا فالتو پتھّر ہٹا دیا ،’’ماں‘‘ نکل آئی اور بس۔ پھریوں ہوا کہ ماں کو دیکھتے دیکھتے مائیکل آپ بچّہ ہوگیا۔ وہ مچل کر ماں کی بانہوں میں پہنچا اور ہمیشہ کے لئے ممتا میں کھُب گیا۔

ہم بھِیڑ چھٹنے کا انتظار کرتے رہے۔ آخرکار دینہہ گلی سے اولے ہوا ، دائیں بائیں دیکھ کر سرگوشی میں سوال کیا۔۔  مائیکل! سچ سچ بتا ، یہ تیری سگی ماں ہےــــ؟
’’میری ہی کیوں یہ تمہاری بھی تو ہے۔۔۔۔‘‘اُس نے کہا۔
اگر ایسا ہے تو اس کے پاؤں ورم سے چِلکتے کیوں نہیں ؟۔  اس کی ایڑیاں اتنی سڈول کیسے ہیں ، وہ پھٹ کیا ہوئے،جو وہیڑے کی مٹّی میں چترکاری کرتے ہیں۔ اس کی باچھوں سے لیک ہوکر جُھریوں میں پپڑی کی طرح جم جانے والی نسواریں لیپیاں کہاں گئیں ؟ ۔ اس کا وہ دوپٹہ کہاں ہے جس کے چھیدوں سے مٹیالے اور بے بھالے بالوں کی لٹیں جھانکا کرتی ہیں؟ ۔۔۔ وہ ہلکے سے قہقہے کے تعاقب میں کھانسی اور بلغم کا طوفان کیا ہوا۔ ؟ماں جو اتنی دیر سے تجھے بانہوں میں اٹھائے کھڑی ہے تو ابھی تک جھڑی کیوں نہیں ؟ تمہیں جو چھینک آئی ہے، تو اس نے ربّ سے ویسی ہتّھا پائی کیوں نہیں کی ، جیسی آج اللہ بادشاہ سے کائنات کی شاہی چھینے بغیر نہیں ٹلنے کی ۔ اس کے ہاتھ اور اُنگلیاں گھِسی ہوئی ترنگلی سی کیوں نہیں  ؟ اس کے گلے میں رُند ہی رُند کیوں نہیں بھرا۔ اس کا پیٹ پچک کر کمر سے کیوں نہیں لگا ؟یہ سجدے سے اُٹھ کر اُس کُکڑی کو ہانکنے کیوں نہیں جاتی جس نے تمہارے ہاتھ سے بھورا جھپٹ کر اپنے چوزوں کو ڈالاہے؟۔ کیا یہ ماں برسات میں رات کو اُٹھ کر چھت کو لتیڑنے جاتی ہے کہ برف و باراں میں پولیتھین کے ’’ٹاٹ‘‘ پرٹپکے کی آوازسے اُس کے بچّے ڈر نہ جائیں؟۔ کیا تمہاری ماں نور  پیِر ویلے اُٹھ کر چکّی چلاتی اور اس کی گھمر گھمرکے سنگیت کے ساتھ گاتی ہے ۔۔۔پڑھو لا لاالہ الاللہ؟ا گر ہاں تو تیری ماں میری ماں،میری ماں تیری ماں۔ ‘‘

’’تو پاگل ، تیری ماں پاگل ، تیرا سارا جہاں پاگل ۔۔  چل ہٹ‘‘ مائیکل اینجلو نے کہا اور اُچھل کر اپنی ماں کی بانہوں میں سمٹ گیا۔
ہمارا جی بے طرح چاہتا ہے کہ مسرّت مرزا اور اُن کی ’’ب بستہ ‘‘ مرحب قاسمی کو دن دیہاڑے اغوا کر کے ’’شڑکو شڑک‘‘اٹلی لے جائیں ۔
اوراسی گرد آلود حالت میں جا کھڑا کردیں قطار میں روبرو ماں کے ۔ اورکہیں ۔۔۔۔ لے مائی! یا تو مذکوریہ اوّل کوجھاڑ پھونک کے اس سے جیکولین کنیڈی اور اُس کی حواریہ سے بے بی برآمد کردے یا خود اتنے اونچے استھان سے نیچے اُتر، دھرتی پر پیر رکھ کے دیکھ ، تجھے لگ پتہ جائے کہ اوپر والے کی اس دُنیا میں کتنے بِیّاں کا سو ہوتا ہے ۔
٭٭٭٭٭
صاحبو! ہم بے پڑھے سے ہیں ، یہ نہیں جانتے کہ مائی اور مائیکل اینجلو میں سے کس نے کس کو جنا تھا۔ کون پتھّر سے پھوٹا تھا، کون آسمان سے ٹوٹا تھا۔ لیکن یہ طے ہے کہ کوئی ایک خالق تھا،دوجامخلوق ۔ جو خالق تھا ، اُس نے بھی خدائی کی ، جومخلوق تھا اُس نے بھی خدائی کی۔ ہماری ممدوحہ مسرّت مرزا نے بھی بڑے بڑے شاہکار تخلیق کئے لیکن کبھی خدائی نہیں کی، جب بھی کی ، گدائی کی۔

ہم نے مسرّت کی کئی مکمل اور کئی ادھوری تصویریں دیکھی ہیں ۔ لیکن خواہش اور کوشش کے باوجود آج تلک اُن کو قلم یا موقلم بردار نہیں دیکھا۔ ہم نے بار ہا چوری چھپے اُنہیں تصویر بناتے دیکھنے کی سعی کی، ناکام رہے۔ تاہم اُن کی ہمزاد (یا عمزاد؟) مرحب قاسمی سے پوچھا تو اُس نے کہا:
’’شاکر علی کی طرح مسرّت کی قوتِ فکر وِجدان میں ڈوبی ہوئی ہے۔ وہ اپنی تصاویر پربحث و تمحیص خموشی سے سنتی ہے۔ لیکن خود الفاظ کے گورکھ دھندے میں پھنسنے سے گریز کرتی ہے۔ اُس کے خیال میں مباحثے لاحاصل ہیں۔ اپنے محدود مشاہدے کے باوجود میں کہہ سکتی ہوں کہ مسرّت مرزا جس مقام پر ہے، وہ مقام بعض لوگوں کو تصوّف کی کڑی ریاضتوں کے بعد حاصل ہوتا ہے۔ مسرّت مجھے کبھی کبھی صوفی لگتی ہے تو کبھی سالک۔ قلندر تو کبھی ایسا فقیر جو اپنی ہی ذات کی سڑک کنارے بیٹھا کشکول پھیلائے اپنے اندر سے آمد و آورد کے اُلوہی لمحے مانگ رہا ہو، گڑگڑا رہا ہو۔۔۔۔۔‘‘اس کے باوجود اگلی نماز کے وقت پھر مصلیٰ پر کھڑی ہو جاتیں۔۔۔۔۔۔ ’’چل کُٹّی ختم لیکن ایک شرط پر۔۔۔۔۔ آئیندہ کسی سِدّو کا مال بچھڑا نہیں مارے گا۔ نالے اِس

سال ٹَیم سِربدّل برسات برسائے گا۔ بال بچھڑے تریہاٗے نئیں مارے گا ۔۔۔۔۔ چل شاباسے۔۔۔۔ ما صدقے‘‘۔
مسرّت مرزا خاندان قبیلہ میں بڑی ’’بڑی بے‘‘ بنی پھرتی ہیں،ہماری ’’نِکّی بے‘‘ نہیں کہ سارا دن کام کر کے شام پڑے تو خس میں سے بسم اللہ کر کر کے دانہ دانہ چُن ، آنکھوں سے لگا ، جب لپ آدھی لپ ہو جائے تو کُوٹ کر باٹ (کاڑھا) بنائیں اوراس میں لپ بھر نمک گھول کربچّوں بڑوں سب کو ایک ایک پیالہ پلا دیں ۔ (جس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا کہ نمک کی زیادتی کی وجہ سے سب کو پیاس لگتی،وہ مزید پانی پیتے اور پیٹ بھر کے نیند کرتے۔) ہمیں مسرّت مرزا کبھی کبھی اپنی اَن پڑھ ماں جیسی دِکھتی ہیں۔۔۔۔ اپنے آپ سے بے نیاز،خلقِ خدا کے بارے میں بھر کے فکر مند۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ جب وہ ہم سے زیادہ ہمارے بیٹے لاریب خان کے بارے میں مشوّش ہوتی ہیں ،اور وہ جواباً مّما سے زیادہ جاناں ممّا کے لئے فکرمند ہوتا ہے تو ہم پر کیا گذرتی ہے؟ ہم جل بھُن جاتے ہیں۔۔۔ مرحب کا پتہ نہیں۔آخر وہ بھی تو ماں ہے۔ ہم کبھی کبھی اس امر پر ربّ کا لاکھ لاکھ شُکر ادا کرتے ہیں کہ ہمیں رنگوں کی باتیں سمجھ آتی ہیں نہ لکیروں فقیروں کی رمزیں۔ مسرّت مرزا جیسے دُکھ درد کون سہے۔

اللہ غریقِ رحمت فرمائے، طارق عزیز کے مشہور و مقبول پروگرام ’’نیلام ‘‘ گھر میں صادقین بطور مہمان شریک تھے۔ طارق عزیز کے ایک سوال کے جواب میں اُنہوں نے ہاتھ بلند کر کے دکھایا ، اُن کی اُنگلیاں قرآنی آیات کی خظّاطی کرتے کرتے لفظ ’’اللہ‘‘ کی طرح مُڑ چکی تھیں۔ اُسی اللہ والے مصوّر نے کہا تھا:
ایک بار میں ساحری بھی کر کے دیکھوں
کیا فرق ہے، شاعری بھی کر کے دیکھوں
تصویروں میں اشعار کہے ہیں میں نے
شعروں میں مصوّری بھی کر کے دیکھوں

وہ آرٹسٹ جس کی اُنگلیاں ہی نہیں ، سارا وجود، پوری ہستی ’’اللہ‘‘ کی طرح اور اللہ کی طرف مُڑی ہواُسے کسی اور سمت موڑا نہ مروڑا جا سکتا ہے۔ مسّرت مرزا بھی ’’ ہرجا توُ‘‘ کی طرف نا صرف مُڑچکی ہیں بلکہ مُڑ تُڑ چکی ہیں۔ یہ وہ اکّڑ ہے جو اللہ اپنے نرم ترین بندوں کو عطا کرتا ہے۔ اللہ پاک اپنی اس مٹیالی ، گردآلود ، مختلف و منفرد آرٹسٹ کو لمبی حیاتی اوراپنے پیارے بندوں کی سنگت عطا کرے   آمیں ثم آمین
٭٭٭٭

Advertisements
julia rana solicitors

اقارب کی ’’جاناں‘‘ اور اہلِ فنّ کی پروفیسر مسرّت مرزا کے بارے میں کوئل گیلری کی نہایت وقیع اور شاندار تصنیف ’’ہر جا توُ‘‘میں کچھ یوں آیا ہے:
’’۔۔۔۔۔ گیبرل گارسیا مارکیز کی جادوئی حقیقت پسندی سے منقول ہے کہ:
’’وہ سب کچھ ساؤتھ امریکہ کے ایک مخصوص حصّہ میں ، مخصوص قسم کے کلچر ، ٹائم اینڈ اسپیس میں ہورہا ہے۔ سمندر کے پاس ایک شہر ہے کارتاھینا، کولمبیا میں ۔ اس کے بارے میں بے شمار فوٹوگرافرز نے یہ بات کہی ہے کہ یہاں غروبِ آفتاب سے کچھ پہلےایک ایسی روشنی ہوتی ہے جسے ’’آور آف مِسٹیرئیس لائیٹنگ ‘‘ کہتے ہیں ۔
میرا ماننا ہے کہ دُنیا میں کارتاھینا کے علاوہ ایسا ایک مقام اور بھی ہے ، جسے سکھر کہتے ہیں ۔ آپ شاید مذاق سمجھیں مگر یہ ایک حقیقت ہے۔ اگست کے مہینہ میں سکھر میں ویسی ہی روشنی ہوتی ہے، جو قابل دید ہوتی ہے۔ مسرّت مرزا کی تخلیقی صلاحیتوں نے سکھر کی اسی روشنی سے عروج پایا ہے۔  ‘‘ (عامرغوری)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply