اسامہ ومریم کیس کے ذمہ داران ۔۔رضاثاقب بلوچ

گذشتہ دنوں ایک ویڈیو وائرل ہوئی کہ جس میں ایک لڑکا لڑکی کو اٹھائے ہسپتال دوڑا چلاآرہا  ہے،کچھ دیر بعد لڑکی ہسپتال کے بیڈ پر مردہ پڑی ہے اور وہ جوان ہسپتال سے واپس  بھاگ رہاہے۔ تفصیلات کے مطابق لڑکے کانام اسامہ ہے اور مرحومہ کانام مریم تھا جو کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کی طالبہ تھیں اور ہاسٹل میں رہائش پذیر تھیں۔اسامہ سے پچھلے چارپانچ سال سے دوستی تھی اور موصوف مقتولہ کے شاگرد بھی ہیں۔اسامہ نے ایک انٹرویو میں بتایامریم گذشتہ چارماہ سے حاملہ تھی اسقاط حمل کے لیے اس نے یونیورسٹی فیس کے بہانہ گھر سے پیسے لیے اور شور کوٹ کے حیات میڈیکل کمپلیکس سے ابارشن کرانے کے بعد لاہور پہنچے توزیادہ بلیڈنگ ہونے کی وجہ سے مریم کی طبعیت بگڑگئی۔اسامہ اسے ہسپتال لے گیا مگر ڈاکٹرز کے بروقت علاج نہ کرنے کے سبب وہ دم توڑ گئی۔

مریم کی فیملی اس سے بالکل مختلف بیان دے رہی ہے۔ان سارے بیانات میں کتنی صداقت ہے اسکا فیصلہ کرنا ایک مشکل امر ہے البتہ انٹرویو دیتے وقت اسامہ کا اعتماد قابل داد ہے۔دو جانوں کا ضیاع ہوا،مریم کے خاندان کا استحصال ہوا اور معاشرے میں بے چینی پھیلی مگر حضور اتنے چین سے مطمئن ہوکر کہانی سنارہے  ہیں،نہ جانے کس چیز نے اسے اتنا دلیر بنادیا.؟وہ کیسے اس قدر پرسکون ہے .؟

ہمارے معاشرے میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس طرح کے ہزاروں واقعات ہوچکے ہیں۔گجرات سے تعلیم کی غرض سے لاہور آنے والی مریم کے ساتھ یہ کیاہوگیا۔؟وہ مریم جو والدین کا فخر بننے آئی تھی وہ کیوں والدین کے لیے ایک تلخ سوال بن گئی؟۔جب مریم جیسی دوسرے  شہروں اور بالخصوص گاؤں کی لڑکیاں بڑے شہروں کا رخ کرتی ہیں اور ہاسٹل لائف کا آغاز کرتی ہیں تو انھیں مکمل آزادی مل جاتی ہے۔وہ معصوم پرندے کی طرح اڑان بھرتی ہیں کہ بے رحم شکاری انھیں شکار کرلیتے  ہیں۔

؎چھوڑ کر گاؤں مرے شہر میں آنے والی
لگ گئی کیسی ہوا تجھ کو زمانے والی

سانپ یوں ہی ترا پیچھا تو نہیں کرتے ہیں
تجھ میں موجود کوئی خُو ہےخزانے والی

ہمارے تعلیمی اداروں میں جاری طبقاتی جنگ(status war) نے طالب علموں کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑاکیاہے۔ یونیورسٹیز میں طالب علموں کے درمیان مقابلہ تعلیمی میدان میں ہونا چاہیے تھا لیکن یہاں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے نت نئے فیشن اور نائٹ پارٹیز اور لباس متعارف کروائے جاتے ہیں.
رہی سہی کسر مافیا پوری کررہے ہیں،تعلیمی اداروں میں نشہ کا کاروبار عروج پرہے چرس ،آئس ،افیم سے لیکر جسمانی نشہ تک سب جاری ہے۔
ایسے واقعات کے ذمہ داران میں سب سے پہلا ذمہ دار خود طالب علم ہےجو اپنا ہدف نظرانداز کر کے تاریک راہوں پر چل پڑتاہے،دوسرے قصور وار والدین ہیں جو بچوں کو یوں معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے جبکہ ایسے میں بچوں کو مالی ،اخلاقی اور بھرپور نفسیاتی معاونت، توجہ اورپیارکی ضرورت ہوتی ہےاگر بچوں کو گھر سے توجہ اور پیار نہ ملے۔والدین اپنے جذبات کا اظہار نہ کریں،اپنی محبت کااحساس نہ دلائیں تو بچے اس تشنگی کی تسکین کےلیے کسی غیر کی قربت میں چلے جاتے اور آجکل سوشل میڈیا یہ کام بخوبی سرانجام دے رہا  ہے،کہ ایک گھر میں بیٹھے افراد ایک دوسرے کے حالات ،خیالات اور جذبات سے انجان ہیں جبکہ دور بیٹھا انجان ایک فیس بک فرینڈ قریب ہے آشنا ہے۔سوشل میڈیا سے تشکیل پانے والی یہ ثقافت معاشرہ کے لیے انتہائی مہلک ہے ۔تیسری کوتاہی تعلیمی اداروں اور ہاسٹل انتظامیہ کی ہے جنکی اکثریت اس گھناؤنے کام میں بڑی حد تک ملوث ہے۔آج گرلز
ہاسٹلز کی بڑی تعداد فحاشی کے اڈے بن چکی ہے، جہاں لڑکے آکر راتیں گزارتے ہیں۔۔ہاسٹلز کی لڑکیاں راتیں ہوٹلز میں گزارتی ہیں۔تعلیمی اداروں میں جسم فروشی کو کس قدرعام کردیاگیاہے اسکا اندازہ رات کے وقت پاکستان کےسب سے بڑے تعلیمی شہر لاہور کی سڑکوں پر نکل کر لگاسکتے ہیں۔

سانحات حادثات و واقعات پر تفکر و تدبر کی بجائے گالم گلوچ اور اسباب و وجوہات تلاش کرنے کی بجائےمیڈیا پروقتی اورجذباتی ردعمل دینا ہمارا قومی مشغلہ ہے مگر ان سانحات کو منطقی انجام تک پہنچانے اورآئندہ روک تھام کے لیے عملی اقدامات کرنے سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ۔حکومت نے این آر او اور بلیک میلنگ کی رَٹ لگائی ہوئی ہے اور عوام سوشل میڈیا پر دانشور بنی ہوئی ہے.اس طرح کے دلخراش واقعات کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ طالب علم اپنے اہداف اور میسروسائل تک محدود رہتے ہوئے بہتر مستقبل تشکیل دیں۔ بالخصوص طالبات کو چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانے چاہییں،والدین  کو بچوں کی  نگرانی کرنا چاہیے انھیں پراعتماد بناناچاہئیے تاکہ کسی بھی مشکل میں غیر سے رجوع کرنے کی بجائے اپنے والدین کے پاس آئیں۔برگر اور شوارما پر بِکنے والی ہوسٹل انتظامیہ کو ذمہ داری کا احساس اور مظاہرہ کرناچاہیےاور ایک موثر مانیٹرنگ سسٹم کا اجراء کرناچاہیے۔تعلیمی اداروں میں تعمیری اور تفریحی سرگرمیوں کا اجراء کرناچاہیے تاکہ معاشرہ اور اداروں میں موجود گھٹن کا خاتمہ ہو اور توانائیوں کو مثبت سمت میں استعمال کیاجاسکے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تعلیمی اداروں میں جدیدیت کے نام پرمغربی ثقافت کی اندھی تقلید کی بجائے اپنی اقدار و روایات کا احیاءکرناچاہیے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply