افضلیت صدیق اکبررضی اللہ عنہ(حصّہ اوّل)۔۔احمد خلیق

ما طلعت الشمس ولا غربت بعد النبیین والمرسلین علی أحد أفضل من أبي بکر (ابو نعیم)

ترجمہ: انبیاء و رسل علیہم الصلوات والتسلیمات کے بعد کسی ایسے شخص پر سورج نہ طلوع ہوا اور نہ غروب جو کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ سے افضل ہو۔

بلا شبہ ہم مسلمانوں کا یہ اجماعی عقیدہ ہے، جس کا اظہار ہزاروں، لاکھوں ائمہ کرام و خطباء عظام ہر ہفتے خطبۂ جمعہ میں ان الفاظ میں کرتے ہیں:

’افضل البشر بعد الأنبیاء بالتحقیق۔۔۔ سیدنا ابی بکر الصدیق رضی اللہ عنہ‘۔

جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت محمد مصطفیﷺ کوخیر البشر و خیر الخلائق بنایا کہ نہ آپﷺسے کوئی عظیم تر ہوا نہ ہو سکتا ہے، تمام جملہ محاسن واخلاق کواپنی کامل ترین صورت میں آپﷺکی ذات مبارکہ میں جمع فرما دیا اور تمام رذائل و بدئیات سے مبراو منزہ کر دیا،اسی کے بموجب آپﷺکی فیض یافتہ جماعت صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین بھی دنیا کی سب سے عظیم جماعت ہے کہ اس کا کوئی ثانی ہوا نہ ہو سکتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بحیثیت مجموعی آپﷺکا پرتو تھے،انہوں نے آپﷺ کی ایک ایک ادا کوسنت مطہرہ سمجھتے ہوئے حرز جاں بنایا، لیکن ایسا ناممکن تھا کہ کوئی بھی پورے طور پر اسوہ ٔرسولﷺکا آئینہ دار ہوتا، سو ہمیں کسی صحابی میں کوئی وصفِ نبوی بڑھا ہوا ملتاہے تو کسی دوسرے میں کوئی اور۔ جیسے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اپنی فیاضی اور سخاوت کی بدولت غنی سے ملقب ہوئے تو حضرت عمررضی اللہ عنہ اپنے عدل و انصاف کی بنا پر فاروق اعظم سے مشہور ہوئے اور علی ہذا القیاس دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی اجمعین۔

پھر یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ کسی بھی نبی اور رسول کا سب سے پہلا اور بنیادی وصف صادق اور سچاہونا ہے کہ اس کے بغیر نبوت و رسالت پر ایمان نہیں لایا جا سکتا۔ ہادیٔ انسانیت علیہ الصلاۃو السلام نے جب کوہِ صفا پر چڑھ کر قریش مکہ کو اسلام کی دعوت دینے کے لیے اکٹھا کیا تو ایک لشکر عظیم کے حملہ سے ڈرایااور استفسار کیا کہ کیا میری بات پر یقین کرو گے ؟ سب نے بیک زبان کہا کہ ہم نے آپﷺسے صدق و سچائی کے علاوہ کچھ دیکھا ہی نہیں ہے…تو معلوم ہوا کہ اس صفت صداقت کا قبل از نبوت ہی کسی نبی برحق میں ہونا لازم امر ہے۔

اسی سے مقام صدیقیت پر روشنی پڑتی ہے، چنانچہ حضرت مجدد الف ثانیؒ کے مطابق سلوک و معرفت کے بہت سے مدارج ہیں مثلا ً ولایت شہادت وغیرہ مگر ان میں سب سے اعلیٰ مقام صدیقیت کا ہے، اور اس مقام میں اور نبوت میں کوئی واسطہ نہیں۔۔ ایک پیغمبر کو وحی کے ذریعہ جن حقائق کا علم ہوتا ہے اور وہ اس کو دوسروں تک پہنچاتا ہے،ایک صدیق اس کی بلا چوںچرا تصدیق کرتا ہے۔ پیغمبر کی بتائی ہوئی چیز کیسی ہی مابعد الطبیعی اور بالائے فہم و قیاس ہو، بہرحال صدیق کے لیے وہ بدیہی سی چیز ہوتی ہے،اور وہ اس کو سنتے ہی قبول کر لیتا ہے۔(صدیق اکبر از مولانا سعید احمد اکبر آبادی)

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے فرمودات  حکمت و دانائی سے خالی نہیں ہوسکتے۔ آیات و احادیث میں بیان کردہ الفاظ کی ترتیب بھی معنی خیز اور کسی حقیقت پہ دال ہوتی ہے ۔ چنانچہ نکتہ ہائے بالا کی تائید قرآن و حدیث سے اس طرح ہوتی ہے کہ حق تعالیٰ و شانہ کا ارشاد ہے:

من یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین و الصدیقین والشھداء والصالحین، وحسن اولئک رفیقا۔ (النساء:۶۹)

ترجمہ: ’’جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کریں، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا: یعنی انبیاء، صدیق، شہید اور صالحین اور یہ لوگ کتنے اچھے رفیق ہیں۔‘‘

اور ایک دفعہ جب آپﷺچند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف لے گئے تو وہ ہلنے لگا، آپﷺ نے یہ کیفیت دیکھ کر فرمایا: اسکن احد فلیس علیک الا نبی و صدیق و شھیدان، ترجمہ:’ اے احد ٹھہر! کیونکہ تیرے اوپر ایک نبی، ایک صدیق اور دو شہید ہی تو ہیںـ‘۔ لفظ’ نبی‘ کا اشارہ تو خود جناب رسالت مآبﷺ نے اپنی طرف فرمایا، یہ تو سب کو معلوم ہوگیا مگر ’صدیق‘ اور ’شہداء‘ کون تھے؟…تو اس کا جواب بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ صدیق ابو بکر ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہما ہی تھے، نہ صرف صدیق بلکہ صدیق اکبر !… جبکہ شہداء سے مراد عمر و عثمان رضی اللہ عنہما تھے۔ اس حدیث مبارکہ میں دو لطیف نکات کی طرف اشارہ ہے: ایک آیت بالا کے سے ہی انداز میں بشریت کے مدارج کو بیان کر دیا گیا ہے کہ سب سے اعلیٰ و ارفع درجہ انبیاء و رسل کا ہے، پھر صدیق اور پھر شہداء کا… اور دوسرا یہ کہ عمر و عثمان رضی اللہ عنہماکے حق میں حضور اکرم ﷺ کی پیشینگوئی کہ اللہ تعالیٰ انہیں شہادت کا رتبہ عطا فرمائیں گے جو کہ حرف بحرف سچ ثابت ہوا۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو یہ افضلیت کیسے نصیب ہوئی؟ تو جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ ’صدیق‘ نبی صادق کی بات کی گواہی بلا چوں چرا دیتا ہے، وہ سوچنے میں وقت ضائع نہیں کرتا، عقل و منطق کی گتھیاں سلجھانے نہیں بیٹھ جاتا۔ اس بات کا مظاہرہ ہم سیرت صدیقی میں جابجا دیکھتے ہیں کہ جب باقی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حق کے پہچاننے میں کچھ دیر کی، توقف کیا تب تنہا آپ رضی اللہ عنہ کی ذات والا صفات ہی نے بغیر کسی وقفے کے ببانگ دہل حق و سچ کا ساتھ دیا۔ ہم ذیل میں انہی ایمان افروز واقعات پر روشنی ڈالیں گے۔

قبول اسلام

حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کی روایات میں تھوڑا بہت اختلاف ہے۔ صاحبِ’’ صدیق اکبر ؓ ‘‘کی تحقیق کے مطابق اعلانِ نبوت کے موقع پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ یمن تجارت کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ واپسی ہوئی تو سرداران قریش ملنے کی غرض سے آئے۔پوچھا ’کوئی نئی بات؟‘ کہنے لگے کہ ’عبداللہ کے یتیم لڑکے نے نبوت کا دعوی کیا ہے‘۔ سردار چلے گئے تو آپ رضی اللہ عنہ فورا ً دربار رسالتﷺ میں حاضر ہوئے اور اس بابت استفسار کیا۔جواباًآپﷺ نے اثبات فرمایا تو صدق و صفا کے پیکر نے اوّل وہلے میں تصدیق فرمادی…لہٰذا آغاز روایات میں توکم و بیش کچھ نہ کچھ فرق ہے مگر تاریخ و سیرت کی ہر کتاب میں آخری حصہ کو اسی طرح بیان کیا گیا ہے، چناچہ ہادیٗٗ اکرمﷺ نے اس انفرادی شان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: (مفہوم)

’’میں نے جس کسی پر بھی اسلام پیش کیاوہ اسلام سے کچھ نہ کچھ ضرور جھجکامگر ابوبکر کہ اس نے اسلام کے قبول کرنے میں ذرا برابر کوئی توقف نہیں کیا۔‘‘

واقعۂ معراج

اسی طرح واقعہ معراج کے موقع پر بھی جب آنحضرتﷺ ایک ہی رات میں بیت المقدس، آسمان دنیا اور ماوراسے لوٹ کر واپس ا ٓگئے، اور بطور معجزہ اس کی خبر قریش مکہ کو دی تو وہ آپﷺ کا تمسخر اڑانے لگے۔ کچھ لوگ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کے پاس بھی آئے اور کہنے لگے کہ’تمھارے دوست محمد(ﷺ) فرماتے ہیں کہ وہ ایک ہی رات میں بیت المقدس سے ہو کر آ گئے ہیں، کیا تم اس کی بھی تصدیق کرو گے؟حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا واقعی رسول اللہﷺ یہ ارشاد فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے ہاں میں جوا ب دیا تو گویا ہوئے کہ اگر حضورﷺ نے یہ ارشاد فرمایا ہے میں تو بالکل سچ فرمایا ہے ، میں اس کی تصدیق کرتا ہو بلکہ میں تو اس سے بھی بڑھ کے آپ کی بیان کردہ آسمانی خبروں کی صبح و شام تصدیق کرتا رہتا ہوں۔‘‘

واقعہ ہذا میں بھی آپ رضی اللہ عنہ وہ واحد ہستی ہیں کہ جنہوں نے نبی صادق ﷺ کے معجزے پر ایمان لانے میں ذرا بھی دیر نہ لگائی اور اسی کے بدولت دربار رسالتﷺ سے ’صدیق‘ کے لقب سے فیض یاب ہوئے۔ ایک روایت کے مطابق حضور اکرم ﷺ نے جبرئیل امین علیہ السلام سے پوچھا کہ میری قوم میں سے کون اس واقعہ کی تصدیق کرے گا؟ تو جبرئیل امین نے عرض کیاکہ ابوبکر آپﷺ کی تصدیق کریں گے کہ وہ ’صدیق ‘ ہیں ۔

صلح حدیبیہ

۶ہجری میں جب مسلمانوں اور کفار مکہ کے مابین صلح حدیبیہ کا معاہدہ ہوا تو اس کی بعض شقوں پر مسلمانوں کو تشویش ہوئی، پھر جب ابو جندل رضی اللہ عنہ کو بھی معاہدے  کی رو سے واپس مکہ مکرمہ بھیج دیا گیا تو اس غم ورنجیدگی میں اوراضافہ ہو گیا۔ چناںچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شدت جذبات میں آنحضرتﷺ سے گویا ہوئے: (مفہوم)

’’یا رسول اللہ! کیا آپ اللہ کے برحق نبی نہیں؟‘‘

فرمایا: ’’ کیوں نہیں!‘‘

عرض کیا: ’’ کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں؟‘‘

فرمایا : ’’بے شک۔‘‘

دہائی دی: ’’تو پھر ہم یہ ذلت کیوں گوارا کریں؟‘‘

رسالت مآبﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اللہ کا برحق نبی اور رسول ہوں، میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کر سکتا، وہ میرا معین و مددگار ہے۔‘‘

بعد ازاں حضرت عمررضی اللہ عنہ یہی سوالات لے کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور کیا کہنے شان صدیقی کے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے بھی حرف بحرف وہی الفاظ ارشاد فرمائے جو زبان رسالتﷺ سے ادا ہوئے تھے۔ یہ صرف اور صرف صدیقی وصف تھا کہ جس نے نبی اور امتی کو یک زبان کر دیا تھا۔ واقعہ حدیبیہ میں حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ برخلاف دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اول تا آخرقلبی اطمینان سے سرشار رہے کہ اسرار ِنبوت کو آپ رضی اللہ عنہ سے بہتر کون جان سکتا تھا۔ جانتے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ کے لیے احکامِ خداوندی سے سرمو انحراف کرنا بھی محال ہے، سو یہ سب اسی پروردگار کی منشا و مرضی کے مطابق ہو رہا ہے۔جب کہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اخیر عمر تک اس واقعہ کا افسوس رہا اور اس کے ازالے میں بہت سی نمازیں پڑھیں، روزے رکھے، صدقہ و خیرات کیا اور غلام آزاد کیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply