کوّا چلا ہنس کی چال۔۔شکور پٹھان

“اے ہے اتنے سارے اٹھا لائے “ ایک جانی پہچانی آواز سن کر میں مڑا۔
یہ بھابی زرینہ تھیں ۔ ان کا بیٹا ڈبّو اور ایک اور بچہ دونوں ہاتھوں میں دو دو کدو لیے کھڑے تھے۔ سامنے سے عنایت پیاز کی تھیلی اور آلو لیے چلا آرہا تھا۔
ہم سبزی منڈی میں کھڑے تھے۔ عنایت بھی قریب آگیا تھا۔ میں نے سلام کیا۔ دونوں میاں بیوی نے ساتھ جواب دیا۔
“ کیسے ہیں آپ لوگ” میں نے خیریت پوچھی۔ “ اور یہ ڈبو کا کیا ارادہ ہے” میں نے چار کدّوؤں کی طرف اشارہ کیا۔
“ ارے بھیا آج شام ان کی حلوین پارٹی ہے” بھابی زرینہ کچھ شرمندہ سے لہجے میں بولیں۔
“ کیا کہا؟ کدّو کے حلوے کی پارٹی ہے؟” میری کچھ سمجھ نہیں آیا۔
“ نہیں انکل آج ہمارے گھر ہالوین نائٹ ہے” ڈبّو نے وضاحت کی۔
“ اوہ اچھا! واہ بھئی ڈبو اتنے سارے کدو سجاؤ گے”
“ نہیں انکل، پمپکن” ڈبو نے میری تصحیح کی۔ عنایت اور بھابی نظریں جھکائے ہوئے تھے۔ عنایت کراچی میں نیو کراچی میں رہتا تھا اور زرینہ کو گولیمار سے بیاہ کر لایا تھا۔ اس کی ابا کی کرانے کی دکان تھی۔
اور یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ مجھ جیسے لانڈھی ، کورنگی، نیو کرانچی، گولیمار اور لالو کھیت والوں کے ہاں بھی اب “ برتھ ڈے” “ ویڈنگ انیورسری” “ ویلینٹائن ڈے” اور “ ہالووین” منائی جارہی تھیں۔ ہم ہوئے یا ڈیفینس اور کلفٹن والے ہوئے، دوبئی آکر سب ایک ہوئے۔ سب ایک سے اپنی اوقات بھولے ہوئے تھے۔ ڈیفینس ، کلفٹن والے پہلے ہی بھولے ہوئے تھے۔ ہم جیسے “ لالو کھیتیے” یہاں آکر کرشٹان بن گئے تھے۔
اب آپ مجھے جاہل، پینڈو کہہ لیں، قدامت پسند، کہہ لیں یا تنگ نظر کہہ لیں، سچ تو یہ ہے کہ کراچی میں گذرے اپنے بائیس سالوں میں صرف اور صرف ایک بار اور وہ بھی ۱۹۶۴ میں ایک سالگرہ کی دعوت میں شرکت کی تھی اور وہ بھی ہمیں برتھ ڈے پارٹی کے طور پر یاد نہیں تھی بلکہ ہمارے ایک قریبی ترین عزیز کے ہاں چار بیٹیوں کے بعد بیٹا پیدا ہوا تھا جس کی پہلی سالگرہ بہت دھوم دھام سے منائی گئی تھی کہ والدین ماشاءاللہ بہت خوشحال تھے اور سوسائٹیز کے علاقے میں رہتے تھے، بلکہ ایک سال قبل ہی یہاں منتقل ہوئے تھے۔
ہمارے گھر تو کیا آس پاس بلکہ پورے محلے میں کبھی کسی کے ہاں سالگرہ نہ کبھی دیکھی نہ سنی۔ اور سالگرہ ہوتی بھی کیسے کہ تاریخ پیدائش بھی کسے یاد رہتی۔ زیادہ تر تو زچگیاں بھی گھروں میں ہوتیں اور وہاں کون سے رجسٹر کھلے ہوتے تھے۔ “ خالہ فاطمہ کے ہاں پچھلے ہفتے لڑکی ہوئی تھی، پچھلے مہینے لڑکی ہوئی تھی، ابھی پچھلے سال ہی تو ہوئی تھی ، سے ہوتے ہوتے ، تین جاڑوں پہلے، چار گرمیوں پہلے ہوئی تھی ، قسم کی تاریخیں یاد رہتی تھیں۔ کوئی ہسپتال میں پیدا ہو بھی گیا تو کسے ہوش ہوتا کہ پیدائش کا سرٹیفیکٹ بھی حاصل کرتا۔
اور تاریخ پیدائش یاد رہتی بھی تو جہاں کھانے پینے کے لالے پڑے ہوں وہاں ان چونچلوں کی کسے فرصت تھی۔ جن گھروں میں گوشت بھی کبھی کسی خاص موقع پر پکتا ہو وہ بھلا ان سب تماشوں کا کیا سوچتے چہ جائیکہ سالگرہ پر تحفے بھی دینا، جن کے اپنے بچوں کو کبھی مٹی کے کھلونوں اور گھر میں بنی کپڑے کی گڑیا کے سوا کچھ نصیب نہ ہوا ہو وہ بھلا چابی سے چلنے والے جاپانی کھلونوں کا کبھی سوچ بھی کیسے سکتے تھے۔ شہر کے امیر گھرانوں میں شاید یہ سب کچھ ہوتا ہو لیکن جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے درمیانے اور کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی سالگرہ وغیرہ کا رواج عام نہیں تھا۔ شادی بیاہ کے علاوہ بچوں کی بسم اللہ، آمین، ختنہ اور کسی کی موت پر سوئم اور چالیسواں ، یہ کل تقریبات تھیں جو ہم جیسے جانتے تھے۔ باقی اللہ اللہ خیرسلا۔
پچیس دسمبر کو بابائے قوم کی تاریخ پیدائش یا سالگرہ ضرور منائی جاتی لیکن وہ دن صرف ایک چھٹی کے دن کے طور پر یاد رہتا۔ اس دن عیسی مسیح کی پیدائش کی بھی چھٹی ہوتی لیکن ایک عام پاکستانی کو اس کی خبر صرف یوں ہوتی کہ گھروں اور گلیوں کی صفائی کرنے والے مسیحی برادری کے خاکروب وغیرہ “بڑے دن” کے وجہ سے غیر حاضر ہوتے۔ مسیحی بھائی البتہ اس دن کو ویسے ہی مناتے جیسے ہم اپنی عید، بقرعید مناتے بلکہ میں نے بچپن میں اپنے عیسائی دوستوں کے ساتھ کرسمس کا پورا دن گذارا تھا۔ لیکن کرسمس پارٹی وغیرہ کا رواج غیر عیسائیوں میں نہیں تھا۔ ابھی ایک ماہ پہلے میرے کچھ جاننے والے بلکہ عزیز دوبئی آئے تھے، صرف کرسمس منانے کے لیے۔
بحرین میں “ہلٹن ہوٹل” میں ملازمت کے بعد مجھے بھی کرسمس وغیرہ سے آگاہی ہوئی اور میں اپنے کرسچن دوستوں کو کرسمس کی مبارکباد دیتا۔یہیں مجھے پہلی بار “ نیو ائر” کا پتہ چلا۔
یہ میں ستر کی دہائی کے وسط تک کی بات بتا رہا ہوں۔ اب ہماری اوقات بدل گئی ہے اور بڑے خضوع وخشوع کے ساتھ نیا سال منایا جاتا ہے لیکن مجھے یاد نہیں کہ اس زمانے میں کبھی ریڈیو، ٹی وی اور اخبارات میں بھی “ ہیپی نیو ائیر” کہیں نظر آتا ہو۔ البتہ دوسرے دن شام کے انگریزی اخباروں میں میٹروپول، بیچ لگژری اور گرانڈ ہوٹل کی تصاویر شائع ہوتیں جہاں چند ، موڈرن اور مغرب زدہ خواتین وحضرات ، مسخروں والی ، لمبی ، تکونی ٹوپیاں پہنے ، رقص کرتے دکھائی دیتے۔اور اس کا علم بھی انہیں ہوتا جنہوں نے “ کراس ورڈ” یا ریس کورس کی خبروں کے لئے ڈیلی نیوز یا ایوننگ اسٹار خرید رکھا ہوتا ورنہ عام آدمی چاہے لالو کھیت، کورنگی لانڈھی میں رہتا ہو یا ناظم آباد یا بہادر آباد میں رہتا ہو اسے نئے سال کی تقریبات کی ہرگز خبر نہ ہوتی۔
ہلٹن کی ملازمت کے دوران ہی مجھے “ ویلنٹائن ڈے”، “ہالووین” اور Thanksgiving Day کا پتہ چلا۔ چونکہ یہ امریکی ہوٹلوں کی ، چین، تھی یہاں یہ سب کچھ ہوتا تھا لیکن قسم لے لیجئے کہ ہوٹل سے باہر کسی کو ویلنٹائن، ہالووین اور تھینکس گیونگ ڈے کی الف بے کا بھی علم ہو۔ تھینکس گیونگ تو اب بھی کوئی نہیں جانتا لیکن انشاء اللہ جلد ہی ہم وہ بھی منا رہے ہوں گے۔
بحرین کے بعد داہران سعودی عرب میں “ رمادا ہوٹل” اور دوبئی میں ایک امریکن کمپنی کی پینتیس سالہ ملازمت کے دوران جہاں میرا اٹھنا بیٹھنا امریکن اور یوروپئینز کے ساتھ رہتا تھا وہاں بھی ویلینٹائن اور ہالووین کبھی اس “ جوش وجذبے” سے نہیں مناتے دیکھا جس خضوع وخشوع اور مذہبی اور قومی جذبے سے اب ہمارے ہاں منایا جاتا ہے۔
اب شاید میری بات کوئی نہ مانے کہ سب ہی اسی رنگ میں رنگ چکے ہیں اور کسی بھی ویلینٹائن اور ہالووین منانے والے سے پوچھو تو وہ یہی کہے گا کہ اس کے آبا و اجداد صدیوں سے مناتے چلے آرہے ہیں۔ بلکہ اب تو ہمارے بزعم خود روشن خیال دوست ( جو خود جو فخریہ ،لبرل، کہتے ہیں، جس کے معنی مجھے آج تک نہیں معلوم ہوئے)ویلینٹائن وغیرہ کی حرمت و حلّت کے بارے میں اس طرح مباحثہ کرتے نظر آئیں گے جیسے کبھی ،نور اور بشر، دیوبندی وہابی ، مقلد، غیر مقلد ، قسم کی بحثیں ہوتی تھیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ان تمام لغویات کا ظہور نوے کی دہائی میں “ سیٹلائٹ “ یا “ کیبل ٹی وی” کی آمد کے بعد ہوا۔ نوے کے ابتدائی سالوں میں کسی کو ویلینٹائن کی خبر نہیں تھی۔ پھر “ زی ٹی وی” اور “ سونی ٹی وی” وغیرہ نے اس دن خاص پروگرام کرنا شروع کئے۔ ہمارے ہاں یعنی پاکستان میں اب تک اس کی خبر نہیں تھی۔ اب تک تو “ بالی ووڈ” بھی اس بارے میں نہیں جانتا تھا۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ سن پچانوے سے پہلے کی ایک بھی ہندی فلم دکھادیں جس میں ویلینٹائن وغیرہ کا ذکر ہو۔
رفتہ رفتہ ہندوستانی ٹی وی کے ڈرامے ہمارے ہاں بھی دیکھے جانے لگے اور ہمیں تو ایسے مواقع اللہ دے اور بندہ لے، کوئی بھی گھٹیا پن اپنانے میں ہم دیر نہیں لگاتے۔ پھر نیو ائیر تو کیا ویلینٹائن ڈے بھی زوروشور سے منائے جانے لگے۔ “ہالووین “اب تک صرف خلیجی ممالک اور یوروپ امریکہ کے نودولتیے پاکستانی گھرانوں میں منایا جارہا ہے لیکن امید کامل ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد اسی مذہبی جوش وجذبے سے ہمارے ہاں بھی منایا جائے گا اور ہمارے روشن خیال دوست اس کی حلت اور تاریخ کے بارے میں فتوے دے رہے ہونگے اور ہم جیسے جاہل اور قدامت پسند منہ چھپاتے پھر رہے ہونگے۔
ایسے ہی ہمیں کسی دن یاد آتا ہے کہ ماں کس قدر عظیم ہستی ہے اور اس نے ہمارے لیے کتنے دکھ اٹھائے ہیں چنانچہ دھڑادھڑ ماں کی تصویریں سوشل میڈیا میں لگاکر اپنا فرض پورا کرتے ہیں پھر ایک دن باپ کی عظمت اور مشقت یاد آتی ہے ۔ یہ مدرز ڈے اور فادرز ڈے خالصتا سوشل میڈیا کی دین ہیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے فیس بک ، انسٹا گرام، ٹویٹر اور واٹس اپ سے پہلے کبھی ہم میں سے کسی نے کسی خاص دن ماں اور باپ کی عظمت کا اعتراف کیا ہو۔
خیر زمانہ بدل رہا ہے ، میرے چاہنے یا نہ چاہنے کے باوجود یہ سب کچھ اسی زور وشور سے ہوتا رہے گا۔ اچھا ہے خوش رہنے کا ، ہنسنے بولنے کا کوئی تو بہانہ ہو ورنہ یہ دنیا بہت دُکھی ہے۔ اس کے دکھوں کا کوئی تو مداوا ہو۔ یقین کیجئے مجھے یہ تمام دن منانے سے کوئی شکایت نہیں نہ ہی مجھے مغرب کی نقالی پر اعتراض ہے۔ قومیں ایسے ہی ایک دوسرے کو دیکھ کر آگے بڑھتی ہیں۔
بس یہ یاد دلانا ہے کہ جس مغرب کے ویلینٹائن اور ہالووین ڈے اور مدرز ڈے اور فادرز ڈے کو ہم اپنی ترقی اور روشن خیالی کا نشان سمجھ رہے ہیں وہی مغرب آسمان میں تھگلیاں لگا رہا ہے۔ چاند تو پرانی بات ہوئی ان کی کمندیں اب مریخ اور زہرہ اور مشتری پر پڑ رہی ہیں۔ یہی مغرب والے ہیں جو “بگ بینگ “ اور کائنات کے وجود کے اسرار کو منکشف کررہے ہیں۔ دنیا کی تاریخ کی سب سے بڑی تباہی “ کرونا” کا علاج ان مغرب والوں اور کافروں نے دریافت کرلیا اور ہم ان ویکسین کی “ خیرات” وصول کرنے کو اتنا بڑا کارنامہ جانتے ہیں کہ ہمارا وزیراعظم فخریہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں بھی جلد ہی ان ٹیکوں کا عطیہ ملنے والا ہے۔ ورنہ ہم اب تک ،سنا مکی کے پتوں، اور آیت کریمہ سے ہی اس موذی مرض کا علاج کررہے ہوتے۔
گوروں اور غیر قوموں کے ریتی رواج ہی اپنانے ہیں تو کبھی ان کی سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اپنا کر بھی دیکھو۔ ان سے قانون کی پاسداری، وقت کی پابندی، صفائی پسندی بھی سیکھو۔
بہت اچھی بات ہے۔۔ ہم نے اپنا لیا ہر رنگ زمانے کا۔۔نیا زمانہ ہے نئی روشنی ہے۔۔۔زمانے کے انداز بدلے گئے ہیں۔ لیکن ذرا دیکھیں اس دوڑ میں ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ہم جو یہ بھی نہیں جانتے کہ اپنی گند، اپنا کچرا کیسے صاف کیا جاتا ہے۔ چین اور ترکی سے آکر لوگ ہمارے گند کو ٹھکانے لگاتے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم بھی ویلینٹائن اور ہالووین مناکرترقی یافتہ قوموں کی صف میں کھڑے ہوگئے ہیں۔
یارو! دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply