• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • کامسیٹس یونیورسٹی، انسسٹ ایشو اور مرتی ہوئی مکالمہ کی روایت/عبدالستار

کامسیٹس یونیورسٹی، انسسٹ ایشو اور مرتی ہوئی مکالمہ کی روایت/عبدالستار

اسلام آباد کی یونیورسٹی کامسیٹس کا انگریزی کا ایک سوالیہ پرچہ نظروں سے گزرا جس کا اردو ترجمہ کچھ اس طرح سے ہے۔
“جولی اور مارک بہن بھائی ہیں، وہ کالج سے گرمیوں کی چھٹیوں میں فرانس میں اکٹھے سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ ایک رات وہ ساحل سمندر پر ایک کیبن میں ایک ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اگر یہ رات وہ ایک دوسرے سے پیار کرنے میں صرف کریں تو یہ بڑا پرلطف کام ہو سکتا ہے، یہ ایک طرح سے ان کے لئے ایک نیا تجربہ ہوگا۔جولی پہلے ہی مانع حمل ادویات استعمال کرتی تھی اور مارک کنڈوم اپنے ساتھ رکھتا تھا تاکہ حفاظتی اقدامات برقرار رہیں۔ دونوں نے بہت لطف اٹھایا اور بہت پیار کیا۔ لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ یہ سب کسی کو نہیں بتانا اور دوبارہ کبھی ایسا نہیں کرنا۔ یہ رات ایک طرح سے ان کے لئے خاص سیکرٹ تھی اور اس نے ان میں مزید قربت پیدا کر دی.”
اس پیراگراف کے بعد طلباء سے سوالات پوچھے گئے کہ
بتائیے کہ کیا دونوں نے جو کچھ کیا وہ درست اقدام تھا؟
اپنے جواب کی صورت میں مناسب دلائل بھی دیجیے 
اور اپنے مشاہدے کی حد تک کچھ مثالیں بھی دیجیے 

یہ سارا معاملہ ہے،اب پتا نہیں یہ پیپر لیک کیسے ہوگیا، ویسے وطن عزیز میں محفوظ بھی کون رہا ہے؟ کسی کی پرائیویسی میں گھسنا یہاں ثواب کا کام سمجھا جاتا ہے، ہم مجموعی طور پر “پیپنگ ٹام” بن چکے ہیں جو ہر وقت کوئی نہ کوئی سوراخ ڈھونڈتے رہتے ہیں جہاں سے کسی کے بیڈروم کا منظر لائیو ملاحظہ کرسکیں۔ یعنی ہمیں دوسروں کو ننگا دیکھنے کا بہت شوق ہو چلا ہے۔ ہماری پست ذہنیت کا یہ عالم ہے کہ پیپر کا مواد دیکھتے ہی آگ بگولہ ہوگئے اور معاشرتی ٹھیکیدار بنتے ہوئے یونیورسٹی کے خلاف کارروائی کرنے اور پیپر سیٹر کو فوری یونیورسٹی سے بے دخل کرنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اتنی اتاولی قوم شاید ہی کرّہ ارض پر کہیں ہو ،کچھ کہا نہیں جا سکتا، مگر بے خبری میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ سب لوگ صرف ایک ہی رٹا رٹایا سا اعتراض اٹھارہے ہیں
کہ یہ غیر اخلاقی سوال تھا۔ لوگوں کو انسیسٹ کی طرف مائل کرنے کی ایک کوشش ہے۔ بےحیائی کو فروغ دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس قسم کے سوالات سے لوگوں کے دماغ میں بے غیرتی کی بتی جل اٹھے گی۔
مذہب کی روشنی میں ایسے سوالات پوچھنا تو درکنار تذکرہ کرنا بھی حرام ہے۔
بے غیرتی اور زنا کو عام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
اس قسم کے سوالات پوچھے ہی نہیں جانے چاہئیں وغیرہ۔

مجھ جیسے کئی اس پیپر کے کنٹینٹ میں اعتراضاتی آ راء کی روشنی میں وہ سب ڈھونڈنے سے قاصر رہے جن خدشات و خطرات کا تذکرہ اعتراض کرنے والوں نے کیا تھا۔
مثلاً ہم سب یہ ڈھونڈتے رہ گئے کہ پیپر سیٹر نے کہاں یہ لکھا ہے کہ
انسیسٹ کا عمل جائز ہے۔
یا بہن بھائی کا سیکس کرنا درست اقدام ہے۔
یا ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے
یا اس نے اس سوال کو مذہبی اینگل سے پوچھا ہو۔
یا کہیں بھی اس نے اپنی ذاتی رائے اس معاملہ پر دی ہو۔

بلکہ پیپر سیٹر نے 2023 کے ان بالغین سے جو اس وقت یونیورسٹی کی سطح تک پہنچ چکے ہیں، چیلنجنگ قسم کے پیراگراف کے ذریعے سے سنجیدہ سوالات پوچھے ہیں، جن کا انہوں نے اپنے فہم کے مطابق نہ صرف جواب دینا ہے بلکہ ان جوابات کو منطقی طور پر پیش بھی کرنا ہے، ایک طرح سے آؤٹ آف دی باکس جا کر اپنا موقف پیش کرنے کی ایک ذہنی ریاضت تھی۔ کسی بھی ایشو کو غیر اخلاقی، بلاجواز یا سرے سے حرام قرار دے دینا سب سے آسان آپشن ہوتا ہے، اس قسم کا رویہ کوئی بھی اختیار کر کے اپنی جان چھڑوا سکتا ہے مگر ایک پڑھے لکھے یا ذہنی ریاضت پر یقین رکھنے والے سے اس قسم کے جوابات کی توقع نہیں رکھی جاسکتی، چونکہ غیر روایتی سوالات سے ہی آپشن کا دائرہ وسیع ہوتا ہے اور اسی حساب سے معاشرے میں ممکنہ امکانات کا دامن وسیع ہونے لگتا ہے۔ اگر آپ پیپر سیٹر کے سوال کی نوعیت پر غور کریں گے تو اس نے بڑے واضح انداز میں طلباء سے پوچھا ہے کہ
” گیو ریزنز فار یور آ نسرز فرام یور اون نالج اینڈ پرسنل اوپنین”

اب یہاں کوئی بتائے کہ پیپر سیٹر نے کہاں اس پیراگراف اور پوچھے گئے سوالات کو مذہب کے ساتھ جوڑا ہے؟
یا مذہبی طور پر جائز عمل قرار دیا ہے؟

بلکہ اس نے تو مذہب کو خاطر میں لائے بغیر طلباء کی ذاتی رائے کو 300 الفاظ کی صورت میں پیش کرنے کو کہا ہے اور ہر کوئی اپنی اپنی فہم و فراست کے حساب سے جو چاہے لکھ سکتا ہے کوئی قدغن نہیں۔ حیرت تو ان دانشوروں پر ہوتی ہے جو اسے مذہبی رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور اپنی اعلیٰ اخلاقیات کا مظاہرہ کرتے ہوئے “خیرالبشر” جنہوں نے یہ پیپر بنایا تھا کو انتہائی نازیبا کلمات سے نوازتے ہوئے یہاں تک کہہ ڈالا کہ
وہ اپنے گھر میں جو مرضی گند پھیلائیں مگر بچوں کو ترغیب مت دیں ،پتا نہیں کب تک یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ۔

ہماری مثال بالکل اس شخص کی سی ہے جسے سر راہ کسی نے کہا تھا کہ
کتا تُمہارا کان لے گیا ہے، موصوف نے کان کو ہاتھ لگا کر دیکھ لینے کی زحمت تو نہیں کی مگر کتے کے پیچھے دوڑ لگادی۔

ہماری ذہنی وائرنگ ہی کچھ اس انداز سے کی گئی ہے کہ اپنے سے زیادہ دوسروں کی فکر ہوتی ہے، کوئی کچھ بھی کہہ دے ذرا سا توقف یا وقفہ کرنے کی زحمت گوارہ نہیں کرتے بلکہ پروپیگنڈہ مہم کا فوری حصّہ بن جاتے ہیں۔ سوال کا کوئی مذہب نہیں ہوتا بلکہ یہ تو آ زاد پنچھی ہوتا ہے، اور مہذب قومیں اپنے نوجوانوں کو سوچنا سکھاتی ہیں اور اظہار کا موقع فراہم  کرتی ہیں، نوجوانوں کو مختلف انداز سے سوچنا اور سچویشن کے حساب سے معاملہ فہمی کرنا اور فیصلہ کرنا سکھاتے ہیں۔ سوالات سے بھاگنا نہیں بلکہ ٹیکل کرنا سکھاتے ہیں۔ سوال کو کسی بھی قسم کی ٹوپی پہنانا کوئی منطقی رویہ نہیں ہوتا۔ اس میں مسئلہ کیا ہے کہ آپ محرماتی تعلق یا انسیسٹ کے متعلق جو بھی معلومات اور رویہ رکھتے ہیں اس کے بارے میں جواب دے دیں۔ کیا ہمارے ہاں جنسی انحراف کی مثالیں موجود نہیں ہیں؟ بلوغت کی باتیں بالغوں سے نہیں کرنی تو پھر کن سے کرنی ہیں؟

Advertisements
julia rana solicitors london

تبلیغ، ترغیب اور سوال پوچھنے میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ باقی بھیا! یہ سب انحراف، اُلجھاؤ اور اس قسم کے شوشوں پر اپنا اپنا جمعہ بازار لگانا ہے ورنہ سوال پوچھنے سے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ صدیوں سے لوگ سوال پوچھتے چلے آرہے ہیں اور ارتقائی سفر یونہی چلتا رہتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”کامسیٹس یونیورسٹی، انسسٹ ایشو اور مرتی ہوئی مکالمہ کی روایت/عبدالستار

  1. صاحب تحریر نے بڑے ملفوف الفاظ میں
    محرم رشتوں کے درمیان جنسی فعل کو انجام دینے کےلئے ترغیب دی ہے۔جنسی بھوک کو بھی شکم کی بھوک کے برابر قرار دینے کی کوشش کی ہے۔اس میں مکالمہ کی گنجائش ہی نہیں چھوڑی۔

Leave a Reply