• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • خواجہ سراؤں کے حقوق کی حمایت اور جنسی آوارگان کی روک تھام/ثاقب اکبر

خواجہ سراؤں کے حقوق کی حمایت اور جنسی آوارگان کی روک تھام/ثاقب اکبر

ان دنوں ٹرانس جینڈرز کے حقوق کے حوالے سے پارلیمنٹ کی طرف سے منظور کیا جانے والا بل زیر بحث ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں ہیں۔ یہ بل پاکستان مسلم لیگ (ن) کی گذشتہ حکومت کے آخری ایام (مئی 2018ء) میں ہنگامی طور پر منظور کیا گیا۔ اس پر کھلی بحث ہوئی اور نہ کسی کمیٹی کی طرف بھجوایا گیا۔ اس طرز عمل نے معاملے کو اور بھی مشکوک کر دیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران میں بھی اس بل کی حمایت میں آوازیں سنی گئیں۔ انسانی حقوق کی وزیر ڈاکٹر شیریں مزاری نے پارلیمنٹ میں بات کرتے ہوئے اس تجویز کو مسترد کر دیا کہ جنس کی تبدیلی کے حوالے سے نادرا کی طرف رجوع کرنے والے ہر شہری کو پہلے ایک ایسی کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے، جو اس کا میڈیکل چیک اپ کرے اور اس کی تائید و تصدیق کے بعد نادرا اس کے لئے تبدیل شدہ شناختی کارڈ جاری کرے۔ اس معاملے کو وفاقی شرعی عدالت میں بھی اٹھایا گیا ہے۔ اس کے لئے مختلف افراد پارٹی کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوتے رہے ہیں اور ابھی سماعت کا سلسلہ جاری ہے۔

حال ہی جماعت اسلامی کے سینیٹر جناب مشتاق احمد نے سینیٹ میں مذکورہ بل میں ترامیم کے لئے اپنا ایک ڈرافٹ پیش کیا ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین نے بحث مباحثے سے بچنے کے لئے مناسب سمجھا کہ مسئلے کو ایک کمیٹی کے سپرد کر دیا جائے۔ جہاں تک خواجہ سرائوں کے حقوق کی بات ہے تو پاکستان میں کوئی سیاسی پارٹی، کوئی مذہبی جماعت یا کوئی دانشور ایسا نہیں، جو ان کی حمایت نہ کرے۔ ان کی انسانی حیثیت کے احترام پر اتفاق رائے ہے۔ انہیں معاشی اور تعلیمی حقوق دیئے جانے کی سب حمایت کرتے ہیں۔ ان کی عزت نفس اور آزاد شہری کی حیثیت سے تمام تر حقوق کی فراہمی کو سب سپورٹ کرتے ہیں۔ افسوس کہ بعض لوگ جو اپنے طرز عمل سے کسی خاص ایجنڈے پر مامور دکھائی دیتے ہیں، مذکورہ بل میں ترمیم کی بات کو خواجہ سرائوں کے حقوق کی مخالفت قرار دیتے ہیں، حالانکہ جو ترامیم پیش کی گئی ہیں، ان میں کہیں بھی خواجہ سراؤں کے حقوق کی مخالفت نہیں کی گئی۔

بات صرف اتنی ہے کہ ایک شخص جس کے شناختی کارڈ پر پہلے سے ایک خاص جنسی شناخت لکھی ہوئی ہے، اگر وہ اپنی اس شناخت کو تبدیل کروانا چاہتا ہے تو بل میں اس امر کی گنجائش موجود ہے کہ وہ انفرادی طور پر نادرا کی طرف رجوع کرے اور اپنی لکھی گئی جنس کو تبدیل کرنے کی درخواست دے تو نادرا اس کو بغیر کسی تحقیق کے قبول کرلے۔ بل کا یہ پہلو قابل اعتراض معلوم ہوتا ہے۔ بعض ممالک میں رائج قوانین میں اس امر کا اہتمام کیا گیا ہے کہ کوئی شخص اپنی جنسی شناخت کو تبدیل کروانا چاہے تو اسے ایک سرکاری بورڈ کے سامنے پیش ہونا ہوگا، جو اس امر کی تسلی کرے گا کہ مذکورہ شخص کسی عملی اور بدنی حقیقت کی بنیاد پر ایسا کر رہا ہے۔ یہی صورت اگر پاکستان میں بھی ہو جائے تو آخر اس میں کیا قباحت ہے؟

بل پر اعتراضات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے
ہم ذیل میں چند پہلوؤں کا ذکر کرتے ہیں:
1۔ دنیا کے متعدد ممالک میں اس وقت لڑکے کی لڑکے سے اور لڑکی کی لڑکی سے شادی کو قانونی جواز دیا گیا ہے۔ ایسے ممالک اور اس فکر کے حامل افراد چاہتے ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک ایسے قوانین بنائیں، جن میں اس طرح کی شادی کو جواز بخشا جائے۔ پاکستان چونکہ ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ ہے، اس کے آئین میں کہا گیا ہے کہ اس ملک میں کوئی ایسا قانون نہیں بن سکتا، جو قرآن و سنت کی تعلیمات کے منافی ہو۔ اس لئے مذکورہ شادی کو کسی صورت پاکستان میں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔

2۔ بیرونی امداد پر چلنے والی متعدد این جی اوز پاکستان میں اس امر کے لئے سرگرم ہیں کہ پاکستان میں مذکورہ شادی کو قانونی جواز مل سکے۔ ان این جی اوز کو بیرونی امداد اور آشیرباد بھی حاصل ہے۔ یہ لوگ اس مسئلے کو انسانی حقوق کے زیر عنوان بیان کرتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ انسان کی آزادی کا تصور اس امر کا متقاضی ہے کہ اسے اجازت دی جائے کہ وہ جس سے چاہے شادی کرے۔ اس کے مقابلے میں اسلامی نقطہ نظر یہ ہے کہ انسان جنگلی جانور نہیں ہے اور یہ صرف مادی پہلو نہیں رکھتا بلکہ اللہ نے اس میں اپنی روح میں سے پھونکا ہے، اسے اشرف المخلوقات بنایا ہے، اس کی ہدایت کے لئے انبیاء کا ایک سلسلہ قائم کیا ہے اور زندگی کے تمام پہلوئوں کے لئے انسان کو بنیادی ہدایت عطا کی ہے، لہٰذا انسان کی آزادی مطلق نہیں ہے بلکہ اس کے لئے کچھ قوانین اور پابندیاں موجود ہیں۔

اگر انسان کو مطلق طور پر آزاد قرار دیا جائے تو پھر ایک انسان دوسرے انسان کے قتل میں بھی آزاد ہے اور ایک مرد دوسرے کی بیوی سے جنسی تعلقات قائم کرنے میں بھی آزاد ہے اور ایک شادی شدہ عورت کسی دوسرے مرد سے جنسی رابطے استوار کرنے میں بھی آزاد ہے۔ اسی طرح ایک شخص دوسرے کو گالی دینے، اس کی توہین کرنے، جھوٹ بولنے، غیبت کرنے، اس کا مال لوٹنے اور اسے کسی قسم کا نقصان پہنچانے میں بھی آزاد قرار پائے گا۔ جب اس مادر و پدر آزادی کو قبول نہیں کیا جاسکتا تو اس اصول کو ماننا پڑے گا کہ انسان کی آزادی مطلق نہیں ہے۔ انسانی حقوق کے نام پر اسے اس کی ہر منشا پوری کرنے کے لئے آزاد نہیں چھوڑا جاسکتا۔

3۔ مذکورہ بل میں اس امر کا امکان موجود ہے کہ کوئی فرد غلط بیانی کرکے اپنے آپ کو مرد یا عورت قرار دلوا لے اور حقیقت کے برخلاف شناختی کارڈ پر اپنی جنس لکھوا لے۔ جب انسان کے بارے میں یہ قسم نہیں کھائی جاسکتی کہ وہ کوئی غلط بیانی نہیں کرے گا تو پھر اس امر کا اہتمام کیا جانا ضروری ہے کہ شناختی کارڈ میں جنس کو تبدیل کروانے کے لئے رجوع کرنے والا ہر شخص پہلے اس امر کو ثابت کرے کہ وہ ایسا حقیقت کی بنیاد پر کرنا چاہ رہا ہے۔ لہٰذا حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ قانونی طور پر کوئی ایسا اہتمام کرے، جس سے غلط بیانی کا امکان کم سے کم ہو جائے۔

4۔ یہ امکان بھی موجود ہے کہ جھوٹ بول کر اپنی جنس کو شناختی کارڈ پر تبدیل کروانے والے افراد خواجہ سراؤں کو ملنے والے حقوق پر قابض ہو جائیں اور خواجہ سراؤں کے حقوق کے نام پر ہی ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈل جائے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ایک مرد یا عورت اپنے آپ کو خواجہ سرا لکھوا لے۔
5۔ مختلف اطلاعات کے مطابق اب تک بغیر کسی تحقیق اور ثبوت کے اٹھارہ ہزار افراد سے زائد اپنی جنس کو شناختی کارڈ پر تبدیل کروا چکے ہیں اور اطلاعات کے مطابق ہزاروں افراد کی ایسی درخواستیں ابھی پراسیس میں ہیں۔
6۔ ملک کے مختلف حصوں میں خود خواجہ سراؤں نے مظاہرے کرکے اس امر کا مطالبہ کیا ہے کہ مذکورہ بل میں ترمیم کی جائے، تاکہ ان کے حقوق محفوظ رہیں اور ان کے نام پر کوئی اور شخص ان کے حقوق غصب نہ کرسکے۔

ان تمام پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے ہم سمجھتے ہیں کہ سینیٹر مشتاق احمد کی پیش کی گئی ترامیم کو سنجیدگی سے لینا چاہیئے بلکہ اگر ان میں کوئی کمی بیشی ہے تو انہیں زیر بحث لا کر مذکورہ قانون کو کامل تر بنایا جائے۔ اس وقت قانون میں تبدیلی کے لئے جو آوازیں اٹھ رہی ہیں، انہیں سنجیدہ لینے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ روز (21 ستمبر 2022ء کو) اسلام آباد میں ملی یکجہتی کونسل پاکستان کا ایک مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ملک کی نہایت اہم مذہبی جماعتوں کے ذمہ دار راہنماء موجود تھے جنھوں نے مذکورہ بل کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے سینیٹر مشتاق احمد کی طرف سے پیش کی گئی ترامیم کی حمایت کی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مذہبی راہنماؤں نے واشگاف الفاظ میں خواجہ سراؤں کی انسانی حیثیت کے احترام کو ضروری قرار دیا اور ان کے شہری حقوق کی فراہمی اور حفاظت کی حمایت کی۔ وہ لوگ جو یہ تاثر دے رہے ہیں کہ مذہبی جماعتیں اور شخصیات خواجہ سراؤں کے حقوق کی مخالف ہیں، ان کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ یہ اپنے خاص دین دشمن ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لئے تہمتیں تراش رہے ہیں، ایسے افراد کو خواجہ سراؤں سے کوئی ہمدری نہیں۔اسلام ٹائمز

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply