میں اسے نہیں جانتا تھا۔۔ڈاکٹر مجاہد مرزا

اس طرح مردانہ وار لڑنے والی اس شجیع خاتون کو جس کا نام سبین محمود تھا، میں نہیں جانتا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس کا نام بھی کبھی میری نظروں سے نہیں گذرا تھا۔ پھر کل رضا رومی نے فیس بک پر اپنی “کامریڈ” کے قتل کیے جانے کی خبر دی اور بتایا کہ وہ جہل اور لاعلمی کے خلاف لڑ رہی تھی۔ کوئی قلق سا قلق ہوا۔ ویسے تو ہر ذی روح کا مارا جانا تکلیف دہ نقصان ہوتا ہے لیکن ایک ایسی شخصیت جو بند آنکھوں کو کھولنے کا کام کرتی ہو، کھلی آنکھوں کو بینائی فراہم کرتی ہو، گونگوں کو زبان عطا کرتی ہو اور بہروں کو سماعت سے ہمکنار کرتی ہو، کا مارا جانا اس لیے بہت بڑا نقصان ہوتا ہے کہ اس خدائی کام میں جو وہ شخصیت کر رہی تھی عارضی تعطّل پیدا ہو جاتا ہے مگر ایک بڑا فائدہ بھی ہوتا ہے کہ زبانیں زیادہ باتیں کرنے لگتی ہیں، آنکھیں زیادہ دیکھنا شروع کر دیتی ہیں، سماعت ان کہی سننے کی متلاشی ہو جاتی ہے چناچہ وہ کام جو وہ ایک شخصیت کر رہی تھی اب بہت زیادہ لوگوں کا فریضہ بن جاتا ہے۔ سقراط کو زہر پلا کر مارے جانے سے یا عیسٰی کو مصلوب کر دینے سے حق سچ کی بات کرنے کا سلسلہ نہیں روکا جا سکا ہے۔ سبین محمود نے “بلوچستان بارے خموشی توڑنے” کی جوت جگا دی ہے اور اسے مارنے والوں نے بلوچستان سے شروع ہونے والے چین پاکستان منصوبے پر سیاہی کا پہلا برش پھیر دیا ہے۔
اسے کس نے مارا ؟ یہ سوال عدالتی سوال ہے البتہ اسے کیوں مارا گیا ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا اب سبھی کا فرض بنتا ہے۔ جیسے میں سبین کو نہیں جانتا تھا ویسے ہی جیسے سرن میں کام کرنے والے بہت سے نامور ماہرین طبیعیات کو یا کسی لیبارٹری میں انسانی دماغ سمجھنے کی مشقت کرنے والے ماہرین کو یا دوسری دنیاؤں سے کسی اور ذہین مخلوق کی جانب سے پیغام ملنے کی توقع رکھے کان لگا کر بیٹھے ذہین لوگوں کو اسی طرح کئی ملکوں کو دیکھنے کے باوجود میں بلوچستان کو بھی نہیں جانتا اور نہ ہی زندگی میں کبھی کوئٹہ گیا ہوں۔ البتہ ایک بار جب میں دوستوں کے پاس شکار پور میں تھا تو اس ذکر پر کہ میں نے کبھی بلوچستان نہیں دیکھا، دوست مجھے بلوچستان دکھا ضرور لائے تھے۔ بلوچستان کا وہ حصہ جو سندھ کے ساتھ منسلک ہے۔
بلوچستان کے بارے میں بہت کچھ کہا جا چکا ہے اور بہت کچھ ابھی کہنا باقی ہے۔ بلوچستان سے وابستہ تازہ واقعات میں سبین محمود کے قتل سے پہلے کراچی میں ہی معروف صحافی اور اینکر پرسن حامد میر کو گولیوں کا نشانہ بنائے جانے اور پھر جیو چینل کی صحافتی حماقت اور اس میڈیا گروپ کے خلاف شدید ردعمل بھی شامل ہے۔ حامد میر پر حملہ بھی تب ہی ہوا تھا جب اس نے ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ کا ساتھیوں کے ساتھ لانگ مارچ کور کیا تھا اور ان دونوں کے کھلے کھلے انٹرویو کیے تھے۔ سبین محمود کو بھی اس سیمینار کے بعد قتل کیا گیا جس کا عنوان “Un-silencing Blochistan” تھا اور جس میں ماما قدیر اور فرزانہ بلوچ شریک تھے۔ کیا اسے یہ سیمینار کرنے کی وجہ سے قتل کیا گیا، جس میں شریک نامور صحافی وسعت اللہ خان کے مطابق اس سیمینار میں ساری وہی باتیں کی گئی تھیں جو بقول ان کے ٹنوں کے حساب سے میڈیا کا حصہ بن چکی ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس “موٹیو” کے بارے میں شک ہے۔
اطلاعات کے مطابق سبین محمود کو دھمکیاں مل چکی تھیں جن میں طالبان کی جانب سے دی گئی دھمکیاں بھی شامل تھیں۔ کیا اسے طالبان نے قتل کیا؟ بات دل کو نہیں لگتی۔ البتہ یہ بات طے ہے کہ ان کے قتل سے تین روز پہلے چین کے رہنما شی جن پنگ پاکستان آئے تھے اور “گوادر کاشغر اقتصادی راہداری” بنائے جانے کا معاہدہ پکا کر گئے تھے۔ بلوچستان میں کن کن بیرونی طاقتوں کی دلچسپی ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ بلوچستان کے معاملات میں کون کون مداخلت کرتا ہے، یہ بھی کوئی راز نہیں ہے۔ بلوچستان میں کن کو کون بدنام کرتا ہے اور کن کو کن کی مالی اور سیاسی حمایت حاصل ہے، اس پر آراء متنوع بھی ہیں اور متضاد بھی۔ سبین محمود کے قتل سے شدید ردعمل ہونا لازمی تھا کیونکہ میں اسے جانوں نہ جانوں لیکن بہت سے لوگ اسے جانتے تھے۔ علمی و صحافتی حلقے سے بھی اور سیاسی و حکومتی حلقے سے بھی۔ خفیہ والے تو ہر بولنے، لکھنے اور سوچنے والے کے متعلق جانتے ہیں۔ جہاں ایک طرف ایک دو روز کے لیے “ساحل گوادر سے تا بہ خاک کاشغر” کا قصہ محو ہوگا وہاں، بقول ایک بلوچ قوم پرست رہنما کے بیجنگ اور پنجاب کے درمیان ہوئے اس معاہدے پر بلوچستان میں عمل درآمد نہیں ہونے دینگے کے ذکر کا چرچا ہونے لگے گا۔ خیبر پختون خواہ والے تو “ناانصافی” کی بات پہلے سے کر رہے ہیں یعنی بیچاری سبین محمود کو اس منصوبے کا پہلا شہید کہلانے کا حق مل گیا ہے۔
ممکن ہے میرا اندازہ بالکل غلط ہو۔ سبین محمود کو ان لوگوں نے مروایا ہو جو بلوچستان کو “نو گو ایریا” بنائے ہوئے ہیں یا پھر ان لوگوں نے مارا ہو جو “نو گو ایریا” بنانے والوں کے مخالف ہیں تاکہ انکے مخالف فریق پر الزام لگنے سے وہ فریق مزید بدنام ہو۔ شاید طالبان نے ہی اسے مارا ہو کہ وہ روش خیال ہے۔ مگر کیا ایک، دس، بیس ، سو، پانچ س، ہزار، دس ہزار، بیس ہزار یا لاکھ لوگوں کے مارے جانے سے حق سچ کی بات کہی جانا رک جائے گی۔ ایسا تو کبھی ہوا ہی نہیں۔
ایک بات طے ہے کہ سبین محمود کو اس لیے مارا گیا کیونکہ وہ لوگوں کی آنکھوں پر پڑے پردے سرکانے کا کام کر رہی تھی۔ وہ کہتی تھی کہ کسی نے تو بہر حال جہل اور لاعلمی کے خلاف لڑنا ہی ہے تو میں کیوں نہ لڑوں؟ لڑائی میں مارا جانا شہادت ہوتی ہے۔ بستر پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے سے کہیں بہتر ہے کہ تاریکی کے پرچارکوں کے خلاف لڑتے ہوئے ان کی گولی کھا کر مرا جائے پھر ڈاکٹر مجاہد مرزا جیسے بہت سے لوگ جو اسے نہیں جانتے تھے اس کے بارے میں جان جائیں گے اور اس کے مشن کے ایک ادنٰی کارکن ہونے میں فخر محسوس کریں گے۔ سبین محمود زندہ باد! تاریکی کے پرچارک مردہ باد!!

Facebook Comments

ڈاکٹر مجاہد مرزا
ڈاکٹر مجاہد مرزا معروف مصنف اور تجزیہ نگار ہیں۔ آپ وائس آف رشیا اور روس کی بین الاقوامی اطلاعاتی ایجنسی "سپتنک" سے وابستہ رہے۔ سماج اور تاریخ آپکے پسندیدہ موضوع ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply