وقت ایک سا نہیں رہتا /گُل رحمٰن

آج 24 فروری 2023 ہے، وہی24  فروری جو کیلنڈر کے پنّوں پرہر سال اُبھرتی ہے اور ورق پلٹتے ہی خاموشی سے قصّہ پارینہ بن جاتی ہے۔جیسےاُس کا گزرنا لازم و ملزوم ہو ۔تاریخ اہم ہو یانہ  ہو لیکن اس سے  جُڑی یادیں ، واقعات اور حالات بہت اہم ہوتے ہیں ۔جو اُسےمعمولی یا غیرمعمولی بنا دیتے ہیں۔ایسا ہی ایک حادثہ میرے ساتھ بھی پیش آیا جب زندگی نے ضد کی انتہا کردی ۔میری مرضی جانےبغیر اور کسی بھی تردید کے بغیر میرا ہاتھ تھاما اور مجھے لے اُڑی سات سمندر پار نئی منزلوں کی جانب ۔ اپنوں سے دور ، گوشہ تنہائی میں ،کبھی کبھی لگتا تھا وہ حکم دیتی ہے اورہمیں اُس کی  حکم عدولی کرنے کی اجازت نہیں بلکہ نہ  کرنے کی گنجائش ہی نہیں بنتی ۔محسوس ہوتا جیسے زندگی نے قدرت سے میرے خلاف کوئی سازش کی ہو اور لا پھینکا ہو ایک سُنسان ، بیابان اور انجان جگہ پر جس کو وہ میرے لیے جنت بتاتی تھی لیکن میری بلا سے مجھے تو وہ کسی جیل کے کمرے سے کم نہ معلوم ہوتی تھی۔ وہ گھر مجھے کال کوٹھڑی لگتاتھا ۔اپنے ہی سانس کی آواز کبھی کبھی گلہ گھونٹنے کو آتی تھی ۔وہاں دل اپنوں کو یاد کر کے بار ہا رویا ۔ کبھی اُگتا سورج ، کبھی مہکتی فضا ،کبھی چرند پرند میری خیر خبر لینے آتے تو وہ بھی مجھےغیر ملکی معلوم ہوتے ۔پرایا دیس پرایا وقت جو اپنا نہ تھا۔ ہر لمحہ اُدھار جیے جا رہی تھی ۔

بے بسی تو جیسے دامن پکڑے پیچھے پیچھے چلی آ رہی تھی ۔لاچاری دہلیز چھوڑنا نہیں چاہتی تھی ۔ بلآخر ایک دن میں نے دن رات کی محرومیوں سے ہی دوستی کر لی ۔ میں نے تبدیلی سے سمجھوتہ کرلیا۔ حقیقت بھی یہی ہے قدرت اور فطرت کا جتنا بھی تضاد ہو انسان خوش آئین طریقے سے اس فرق کو تسلیم کر لے تو ہی منزل کو جاتاراستہ خوش گوار ہو سکتا ہے ۔انسانی فطرت ہے ہی ایسی چیز ، بہت آسانی سے تبدیلی قبول نہیں کرتی اور اس طرح وقت کی قدر کھوبیٹھتی ہے. جبکہ کئی قسمت کے موتی اُسی بد قسمتی کی خار میں دفن ہوتے ہیں ۔

مجھے آج بھی نئی سر زمین پر وہ پہلی رات یاد ہے جو مجھ پہ بہت بھاری تھی ۔ وطن سے کوسوں دور گھر کی چھت کو گھورتے ہوئے جب میں نے سوچا یہ قید با مشقت کب ختم ہوگی؟

کیا مجھے تا عمر ایسے ہی نظر بند رہنا پڑے گا؟

کب دن ہفتہ ، ہفتہ مہینہ ، اور مہینہ سال بنے گا ؟

Advertisements
julia rana solicitors

اور دیکھو آج 22 برس بیت گئے ۔ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ مشکل وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا ۔تکلیف ، بھوک اور بیماری کی تاریخ کبھی نہ کبھی قصّہ پارینہ بن ہی جاتی ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply