• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • مسلکی پیشواﺅں کیلئے شمالی و جنوبی کوریا کا پیغام۔۔۔ثاقب اکبر

مسلکی پیشواﺅں کیلئے شمالی و جنوبی کوریا کا پیغام۔۔۔ثاقب اکبر

کئی دہائیوں کی معرکہ آرائی اور جگ ہنسائی کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنماﺅں نے باہم ملاقات کرکے جزیرہ نمائے کوریا کے عوام کی تاریخ کا رخ موڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ دنیا میں امن و سلامتی کے خیر خواہ اس اقدام پر دونوں طرف کے رہنماﺅں کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔ دونوں نے امن سے رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک مرتبہ پھر جنگ پر امن کو فتح حاصل ہوئی ہے۔ خدا جانے امریکہ کی اسلحہ فروش قیادت اس پیش رفت کو کس سمت لے جانے کی کوشش کرتی ہے اور اس کی کوشش کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، تاہم آج کی انسانیت کو جزیرہ نمائے کوریا کی طرف سے ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا آتا ہوا ضرور محسوس ہوتا ہے۔ اس پیش رفت کے بعد دنیا بھر سے جہاں تحسین و آفرین کے ڈونگرے برسائے جا رہے ہیں، وہاں پر نئی نئی تجاویز بھی سامنے آرہی ہیں، جن میں مختلف قوموں، ملکوں اور خطوں کے رہنماﺅں کو باہمی اختلافات اور تاریخ کی ناگوار یادوں سے صرف نظر کرتے ہوئے اچھے اور پرامن مستقبل کی تعمیر کے لئے باہم مل بیٹھنے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ دونوں رہنماﺅں نے جہاں دیگر بہت سے امور پر اتفاق کیا ہے، وہاں جنوبی کوریا کا سرحد پر نصب لاﺅڈ سپیکرز کے ذریعے پروپیگنڈہ نشریات بند کرنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ ان لاﺅڈ سپیکرز سے دن بھر میں تقریباً چھ گھنٹے نشریات پیش کی جاتی رہی ہیں۔ شمالی کوریا کی سرحد سے منسلک اپنی سرحد پر جنوبی کوریا نے ان درجنوں لاﺅڈسپیکرز کو بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ نشریات سرحد پر تعینات شمالی کوریا کے فوجیوں اور اس علاقے میں رہنے والے شہریوں کے لئے تھیں۔ مقابلے میں شمالی کوریا کے لاﺅڈ سپیکرز بھی کچھ کم نہ تھے، جن پر جنوبی کوریا اور امریکہ سمیت اس کے اتحادیوں پر سخت تبرا کیا جاتا تھا۔

یہاں سے ہمارا ذہن مسلکی لاﺅڈ سپیکروں کی نشریات اور مناظرہ باز خطیبوں کی شعلہ بیانیوں اور آتش فشانیوں کی طرف چلا گیا۔ راقم کو یاد ہے کہ ایک مرتبہ جھنگ سے تشریف لانے والے ایک مولوی صاحب سے ہم نے ان کی مصروفیات کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مسجد سے صبح سویرے نشر ہونے والے اپنے ہر روز کے خطاب کے ذکر سے اپنی مصروفیات کو بیان کرنا شروع کیا۔ انہوں نے کہا کہ نماز فجر سے پہلے اور پھر نماز کے بعد مسجد کے لاﺅڈ سپیکر سے ہمارا خطاب نشر ہوتا ہے۔ ہم نے بڑے اشتیاق سے پوچھا کہ کتنے لوگ مسجد میں آپ کا خطاب سنتے ہیں؟ انہوں نے ہماری آتش شوق پر یہ کہہ کر پانی ڈال دیا کہ مسجد میں تو کوئی آدمی نہیں ہوتا، البتہ ہم گھروں میں موجود لوگوں کو اپنا خطاب ضرور سناتے ہیں۔ وہ مسجد سے بے رغبتی پر اپنے محلے کے عوام کو بری طرح کوس بھی رہے تھے۔ پاکستان میں مسجدوں کے لاﺅڈ سپیکروں کی کارکردگی کے حوالے سے حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا جاتا رہا ہے، تاہم اس موقع پر ہم اپنی توجہ علمائے کرام سے یہ گزارش کرنے پر مبذول رکھنا چاہتے ہیں کہ کیا شمالی اور جنوبی کوریا کی قیادت کے باہم ملنے میں ہمارے لئے بھی کوئی پیغام موجود ہے؟ اس سے پہلے بھی تاریخ نے ایسے ہی بلکہ اس سے بڑے سبق آموز پیغامات رقم کر رکھے ہیں۔ دنیا کی دو بڑی جنگوں کے اہم ترین حریف اس وقت یورپی یونین نیز ناٹو میں ایک دوسرے کے اتحادی ہیں۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کو جدا کرنے والی دیوار برلن کب کی زمیں بوس ہوکر انسانوں کو اتحاد و وحدت اور امن و سلامتی کا سبق دے رہی ہے۔

مسیحیوں اور یہودیوں کے مابین جنگ و جدل، مناظروں اور منافشوں کی تاریخ بڑی قدیم ہے، لیکن عصر حاضر میں انہوں نے جدائی کی ایک لکیر کو اپنے حوصلہ مند قدموں سے پامال کر دیا۔ مسیحیوں کے دو بڑے فرقوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ نے صدیوں کشت و خون اور عداوت و مخالفت کے بعد بالآخر ہتھیار رکھ دیئے ہیں اور بقائے باہمی کے اصول کی بنیاد پر مل جل کر رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہم ان ساری تاریخی شہادتوں اور واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے نیز شمالی اور جنوبی کوریا کی قیادت کے ایک دوسرے کے لئے مسکراہٹوں کے تبادلے سے حوصلہ پاتے ہوئے مسلمانوں کے مسلکی نمائندوں سے گزارش کریں گے کہ کیا وہ دن آ نہیں گیا کہ ہم اپنے لاﺅڈ سپیکروں کی خوفناک چنگھاڑ کو محبتوں کے دل آویز ترنم میں تبدیل کر دیں۔ اگر ہم اختلافات گننا شروع کر دیں گے تو انہیں ایک مرتبہ پھر اصولی اور فروعی بنا لیں گے، لیکن اگر ہم مل جل کر رہنے اور محبتیں بانٹنے کا فیصلہ کر لیں تو ہمارا آپس میں ملنا اس سے کہیں آسان ہے، جتنا شمالی اور جنوبی کوریا کا آپس میں ملنا۔ ہم شمالی اور جنوبی کوریا کے رہنماﺅں کے باہم مل بیٹھنے پر غور کر ہی رہے تھے کہ اچانک ہمارے ایک دوست نے کراچی کے ایک معروف مذہبی مدرسے کی ویب سائٹ پر موجود ایک فتوے کی طرف متوجہ کیا، جس میں اہل سنت لڑکے اور لڑکی کی اباضیہ فرقے کے لڑکے اور لڑکی کے ساتھ شادی کو منع کیا گیا ہے۔ اس فتوے میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ انہوں نے اباضیہ کے عقائد کے بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہیں دین کی بنیادی اور مشترک باتوں پر کاربند بھی قرار دیا ہے۔ البتہ بعض فروعی امور میں ان کے اختلاف کا ضرور ذکر کیا ہے۔ یہ اختلاف بھی ایسے ہیں جو فروعی ہونے کے ساتھ ساتھ صدیوں سے مسلمانوں کے مسلمہ مسالک میں چلے آرہے ہیں اور ان کی حیثیت مختلف فہم اور تعبیر سے زیادہ کچھ نہیں۔

قابل افسوس بات تو یہ ہے کہ فتوے میں اباضیہ کے وہی اصول استنباط بیان کئے گئے ہیں جو احناف کے ہاں مقبول و مشہور ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے شادی بیاہ کی روک تھام کا مشورہ دیا ہے اور ایک دیوار ان کے اور سنیوں کے مابین اٹھانا ضروری سمجھا ہے۔ یہاں یہ کہنا شاید مفید ہو کہ اعلان عمان میں تمام مسالک کی عالمی قیادت نے اباضیہ کو ایک مسلمان مسلک کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ علاوہ ازیں مصر اور بعدازاں تہران میں قائم ہونے والے ادارہ تقریب بین المذاہب الاسلامیہ نے اباضیہ کو ایک مسلمان مکتب فکر کے طور پر تسلیم کر رکھا ہے۔ گزرے وقت کے ساتھ ہم نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کی طرح اپنے الگ الگ امتیازات اور الگ مسالک مضبوطی سے قائم رکھے ہیں۔ ہمیں دوبارہ عہد نبوی کی طرف پلٹنا ہے، ہماری بنیاد توحید باری تعالٰی پر ہے، ہم ختمی مرتبت پر ایمان رکھتے ہیں، ہمارا قبلہ کعبہ اور کتاب قرآن ہے۔ ہمیں اپنے انہی مشترکات پر جمع ہونا ہوگا۔ چھوٹے چھوٹے مسلکی امتیازات، رنگ برنگی ٹوپیاں، الگ الگ مساجد، مدارس، بے شمار مذہبی سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی ترجیح کو ختم کرکے ایک امت ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ہمیں بخوبی اندازہ ہے کہ اہل مسلک کی اپنی مجبوریاں ہیں، تاہم قرآنی فرمان کہ ہم نے تمھیں امت واحدہ قرار دیا ہے، کے موجب ہمیں اپنی مجبوریوں کو پس پشت ڈال کر، اپنے مابین حائل دیواروں کو گرا کر متحد ہونا ہے۔ میں اس شعر پر اپنی بات تمام کرتا ہوں:
میری کہانی سننے والے بات نہ کر مجبوری کی
ملنا ہو تو ملنے کے بھی لاکھوں اور بہانے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ اسلام ٹائمز!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply